ننگرہار میں افغان فوجی چوکیوں پر داعش کے حملے، اڑتیس ہلاکتیں
مقبول ملک
17 فروری 2017
افغانستان کے مشرقی صوبے ننگرہار میں دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے جہادیوں کے ملکی فوج کی متعدد چوکیوں پر کیے گئے حملوں میں سرکاری حکام کے مطابق کم از کم سترہ فوجی اور اکیس جنگجو مارے گئے ہیں۔
اشتہار
افغان دارالحکومت کابل سے جمعہ سترہ فروری کو ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق ملکی فوج کی چوکیوں پر مشرقی صوبے ننگرہار کے ضلع دیہہ بالا میں جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب تقریباﹰ بیک وقت کیے جانے والے ان حملوں میں متعدد سرکاری فوجی زخمی بھی ہوئے۔
ننگرہار کی صوبائی کونسل کے سربراہ احمد علی حضرت نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے عسکریت پسندوں نے یہ حملے بڑی منصوبہ بندی سے مربوط انداز میں کیے۔ احمد علی حضرت نے بتایا، ’’آئی ایس (’اسلامک اسٹیٹ‘) کے شدت پسندوں نے ان فوجی چیک پوسٹوں پر حملے بیک وقت تین مختلف اطراف سے کیے، جس کی وجہ سے وہاں موجود فوجی اہلکاروں کے پاس اپنے دفاع کا امکان کم تھا۔‘‘
ننگرہار کی صوبائی کونسل کے سربراہ نے مزید بتایا کہ ان حملوں کے بعد شروع ہونے والی لڑائی کئی گھنٹے تک جاری رہی اور اس میں مجموعی طور پر افغان فوج کے سترہ سپاہی مارے گئے۔
انہی جھڑپوں کے بارے میں کابل میں افغان وزارت دفاع کے ترجمان جنرل دولت وزیری نے بتایا کہ ننگرہار میں سرکاری فوجیوں کی داعش کے عسکریت پسندوں کے حملوں کے بعد شروع ہونے والی جھڑپوں میں 21 جنگجو بھی مارے گئے۔
داعش کیسے وجود میں آئی؟
دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے علیحدہ ہونے والی شدت پسند تنظیم ’داعش‘ جنگجوؤں کی نمایاں تحریک بن چکی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ یہ جہادی گروہ کیسے وجود میں آیا اور اس نے کس حکمت عملی کے تحت اپنا دائرہ کار بڑھایا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کی پیدائش کیسے ہوئی؟
’دولت اسلامیہ‘ یا داعش القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرنے والا ایک دہشت گرد گروہ قرار دیا جاتا ہے۔ داعش سنی نظریات کی انتہا پسندانہ تشریحات پر عمل پیرا ہے۔ سن دو ہزار تین میں عراق پر امریکی حملے کے بعد ابو بکر البغدادی نے اس گروہ کی بنیاد رکھی۔ یہ گروہ شام، عراق اور دیگر علاقوں میں نام نہاد ’خلافت‘ قائم کرنا چاہتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
داعش کہاں فعال ہے؟
کہا جاتا ہے کہ ’جہادی‘ گروہ داعش درجن بھر سے زائد ممالک میں فعال ہے۔ سن دو ہزار چودہ میں یہ عراق اور شام کے وسیع تر علاقوں پر قابض رہا اور اس کا نام نہاد دارالحکومت الرقہ قرار دیا جاتا تھا۔ تاہم عالمی طاقتوں کی بھرپور کارروائی کے نتیجے میں اس گروہ کو بالخصوص عراق اور شام میں کئی مقامات پر پسپا کیا جا چکا ہے۔
داعش کے خلاف کون لڑ رہا ہے؟
داعش کے خلاف متعدد گروپ متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے امریکا کی سربراہی میں پچاس ممالک کا اتحاد ان جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائی کر رہا ہے۔ اس اتحاد میں عرب ممالک بھی شامل ہیں۔ روس شامی صدر کی حمایت میں داعش کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جبکہ مقامی فورسز بشمول کرد پیش مرگہ زمینی کارروائی میں مصروف ہیں۔ عراق کے زیادہ تر علاقوں میں داعش کو شکست دی جا چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/H. Huseyin
داعش کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے؟
اس گروہ کی آمدنی کا مرکزی ذریعہ تیل اور گیس کی ناجائز فروخت ہے۔ شام کے تقریباً ایک تہائی آئل فیلڈز اب بھی اسی جہادی گروہ کے کنٹرول میں ہیں۔ تاہم امریکی عسکری اتحاد ان اہداف کو نشانہ بنانے میں مصروف ہے۔ یہ گروہ لوٹ مار، تاوان اور قیمتی اور تاریخی اشیاء کی فروخت سے بھی رقوم جمع کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images/J. Moore
داعش نے کہاں کہاں حملے کیے؟
دنیا بھر میں ہونے والے متعدد حملوں کی ذمہ داری اس شدت پسند گروہ نے قبول کی ہے۔ اس گروہ نے سب سے خونریز حملہ عراقی دارالحکومت بغداد میں کیا، جس میں کم ازکم دو سو افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ داعش ایسے افراد کو بھی حملے کرنے کے لیے اکساتا ہے، جن کا اس گروہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ فرانس، برلن اور برسلز کے علاوہ متعدد یورپی شہروں میں بھی کئی حملوں کی ذمہ داری داعش پر عائد کی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/C. Bilan
داعش کی حکمت عملی کیا ہے؟
یہ شدت پسند گروہ اپنی طاقت میں اضافے کے لیے مختلف طریقے اپناتا ہے۔ داعش کے جنگجوؤں نے شام اور عراق میں لوٹ مار کی اور کئی تاریخی و قدیمی مقامات کو تباہ کر دیا تاکہ ’ثقافتی تباہی‘ کی کوشش کی جا سکے۔ اس گروہ نے مختلف مذہبی اقلیتوں کی ہزاروں خواتین کو غلام بنایا اور اپنے پراپیگنڈے اور بھرتیوں کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال بھی کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Eid
شام و عراق کے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟
شامی تنازعے کے باعث تقریباً دس ملین افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر نے ہمسایہ ممالک لبنان، اردن، اور ترکی میں پناہ حاصل کی ہے۔ ہزاروں شامی پرسکون زندگی کی خاطر یورپ بھی پہنچ چکے ہیں۔ عراق میں شورش کے نتیجے میں ایک محتاط اندازے کے مطابق تین ملین افراد اپنے ہی ملک میں دربدر ہو چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Souleiman
7 تصاویر1 | 7
کنڑ میں بھی خونریز حملہ
کابل ہی سے ملنے والی نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی دیگر رپورٹوں کے مطابق آج جمعے ہی کے روز ایک اور مشرقی صوبے کنڑ میں بھی طالبان باغیوں نے کئی چیک پوسٹوں پر اچانک حملہ کر دیا، جس دوران کم از کم پانچ افغان پولیس افسران مارے گئے۔
کنڑ کے صوبائی گورنر وحیداللہ کلیم زئی کے مطابق افغان طالبان نے یہ حملہ جمعہ سترہ فروری کی صبح کیا، جس کے بعد اطراف کے مابین شروع ہونے والی مسلح جھڑپیں دو گھنٹے تک جاری رہیں۔ بعد ازاں افغان سکیورٹی حکام نے اپنے لیے مدد بھی طلب کر لی اور مزید عسکری اہلکاروں کی آمد کے بعد ان طالبان حملہ آوروں کو پسپا کر دیا گیا۔
صوبائی گورنر کلیم زئی نے مزید بتایا کہ اس حملے کے بعد سے ایک پولیس افسر تاحال لاپتہ ہے۔ حملہ آوروں نے اس کارروائی کے دوران بموں اور بھاری مشین گنوں کا استعمال بھی کیا اور اس لڑائی کے دوران متعدد طالبان جنگجو مارے بھی گئے۔