پانامہ کیس میں پاکستانی سپريم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے متفقہ طور پر نواز شريف کو نا اہل قرار دے ديا ہے۔ عدالت نے پاکستانی الیکشن کمیشن کو نواز شریف کی نا اہلی کا فوری طور پر نوٹیفیکشن جاری کرنے کا حکم دیا ہے۔
اشتہار
سپريم کورٹ کی پانچ رکنی بنچ نے متفقہ طور پر نواز شريف کو وزير اعظم کے طور پر نا اہل قرار دے ديا ہے۔ عدالت نے نواز شريف اور ان کے بچوں کے حوالے سے نيب ميں ريفرنس دائر کرانے کے احکامات جاری کيے ہيں۔ سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو پابند کیا ہے کہ وہ چھ ماہ کے دوران فیصلہ سنائے ۔
قبل ازيں عدالت عظمیٰ نے لندن ميں اثاثوں اور بيرون ملک دولت کے حوالے سے نواز شريف اور ان کے بچوں کے خلاف دائر کردہ پيٹيشنز سنيں۔ شريف خاندان کے بيرون ملک اثاثوں کے بارے ميں انکشافات گزشتہ برس منظر عام پر آنے والے پاناما پيپرز ميں سامنے آئے تھے۔ اپوزيشن نواز شريف پر الزام عائد کرتی ہے کہ انہوں نے منی لانڈرنگ کرتے ہوئے بيرونی ممالک ميں دولت اکھٹی کی جس کی مدد سے بعد ازاں برطانوی دارالحکومت لندن ميں پراپرٹياں خريدی گئيں۔ نواز شريف کے خلاف پيٹيشن دائر کرانے والوں ميں پاکستان تحريک انصاف کے رہنما عمران خان، عوامی مسلم ليگ کے سربراہ شيخ رشيد اور جماعت اسلامی کے چيف سراج الحق شامل ہيں۔
نواز شريف ان الزمات کو رد کرتے آئے ہيں اور انہوں نے عدالت ميں يہ دلائل پيش کيے تھے کہ لندن ميں فليٹس ان کے بچوں کو قطر ميں کی گئی سرمايہ کاری کے بدلے ٹرانسفر کيے گئے۔ اس معاملے کی تحقيقات کے ليے سپريم کورٹ کے تين ججوں نے ’جوائنٹ انويسٹيگيشن ٹيم‘ تشکيل دی، جس کی رپورٹ کے بعد ہی اب يہ فيصلہ سامنے آيا۔
پاناما کيس پر فيصلہ پہلے سے اکيس جولائی کو محفوظ کيا جا چکا تھا اور اس کا اعلان آج سپريم کی پانچ رکنی بنچ نے کيا۔ بنچ کی سربراہی جسٹس آصف سعيد کھوسہ کر رہے ہيں جب کہ اس ميں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شيخ عضمت سعيد اور جسٹس اعجاز الاحسن بھی شامل ہيں۔
پاناما کيس کی حساسيت کو مد نظر رکھتے ہوئے دارالحکومت اسلام آباد اور ملک کےچند ديگر حصوں ميں سکيورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کيے گئے ہيں۔ بالخصوص اسلام آباد ميں سپريم کورٹ اور اس کے آس پاس ہزاروں پوليس اہلکار تعينات ہيں۔ اس موقع پر عدالت عظمیٰ کی عمارت کے باہر پاکستان پيپلز پارٹی، مسلم ليگ نون اور ديگر سياسی جماعتوں کے کارکن بھی موجود ہيں۔
نواز شریف: تین مرتبہ پاکستان کا ’ادھورا وزیراعظم‘
پچیس دسمبر 1949 کو پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔ نواز شریف تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے، لیکن تینوں مرتبہ اپنے عہدے کی مدت مکمل نہ کر سکے۔
تصویر: Reuters
سیاست کا آغاز
لاھور کے ایک کاروباری گھرانے میں پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز سن ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔
تصویر: AP
پنجاب کا اقتدار
جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف سن 1985 میں پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔
تصویر: AP
وفاقی سطح پر سیاست کا آغاز
سن 1988 میں پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں اقتدار میں آئی اور بینظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ اس وقت نواز شریف پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تاہم اسی دور میں وہ ملک کی وفاقی سیاست میں داخل ہوئے اور دو برس بعد اگلے ملکی انتخابات میں وہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار بنے۔
تصویر: AP
پہلی وزارت عظمیٰ
پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ کے طور پر میاں محمد نواز شریف سن 1990 میں پہلی مرتبہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ان کے دور اقتدار میں ان کا خاندانی کاروبار بھی پھیلنا شروع ہوا جس کے باعث ان کے خلاف مبینہ کرپشن کے شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔
تصویر: AP
وزارت عظمیٰ سے معزولی
سن 1993 میں اس وقت کے وفاقی صدر غلام اسحاق خان نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے معزول کر دیا۔ نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ کا رخ کیا۔ عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے نواز شریف کی حکومت بحال کر دی تاہم ملک کی طاقتور فوج کے دباؤ کے باعث نواز شریف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: AP
دوسری بار وزیر اعظم
میاں محمد نواز شریف کی سیاسی جماعت سن 1997 کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی جس کے بعد وہ دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے۔
تصویر: AP
فوجی بغاوت اور پھر سے اقتدار کا خاتمہ
نواز شریف دوسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ حکومت اور ملکی فوج کے مابین تعلقات کشیدگی کا شکار رہے اور فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ہٹانے کے اعلان کے بعد فوج نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔
تصویر: AP
جلا وطنی اور پھر وطن واپسی
جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف کے خلاف طیارہ ہائی جیک کرنے اور دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم بعد ازاں انہیں جلاوطن کر دیا گیا۔ جلاوطنی کے دور ہی میں نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے ’میثاق جمہوریت‘ پر دستخط کیے۔ سن 2007 میں سعودی شاہی خاندان کے تعاون سے نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔
تصویر: AP
تیسری مرتبہ وزیر اعظم
سن 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون ایک مرتبہ پھر عام انتخابات میں کامیاب ہوئی اور نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد انہیں مسلسل پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پھر ’ادھوری وزارت عظمیٰ‘
نواز شریف تیسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں ناکام ہوئے۔ سن 2016 میں پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا اور آخرکار اٹھائی جولائی سن 2017 کو ملکی عدالت عظمیٰ نے انہیں نااہل قرار دے دیا۔