پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو ان کی علالت کے سبب جیل سے ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے جہاں ان کی طبی ٹیسٹ کیے جا رہے ہیں۔ نواز شریف بدعنوانی کے الزامات کے تحت سات برس جیل کی سزا بھگت رہے ہیں۔
اشتہار
پاکستانی حکومت کے ایک سینیئر اہلکار نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ملک کے سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کو لاہور کی کوٹ لکھپت جیل سے سروسز ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے جہاں ان کے میڈیکل ٹیسٹس کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے۔
نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے بھی اپنے ٹوئیٹر اکاؤنٹ پر اس خبر کی تصدیق کی ہے۔
اے ایف پی کے مطابق نواز شریف کو مختلف طبی مسائل کو سامنا ہے۔ انہیں گزشتہ برس جولائی میں قید کے پہلے مرحلے کے دوران اس وقت جیل سے ہسپتال منتقل کیا گیا تھا جب ان کی ایس سی جی میں مسائل کی نشاندہی ہوئی۔ اُس وقت انہیں ایک عدالت میں لندن میں ان کے خاندان کی جائیداد کے معاملے پر دس برس قید سنائی تھی۔
گزشتہ برس ستمبر میں تاہم ایک اعلیٰ عدالت نے ان کی قید کی سزا کو معطل کرتے ہوئے، ماتحت عدالت کی سزا کے خلاف دائر اپیل کے فیصلے تک انہیں جیل سے رہا کرنے کا حکم دیا تھا تاہم بعد میں انہیں بدعنوانی کے ایک مقدمے میں سات برس قید کی سزا سناتے ہوئے جیل بھیج دیا گیا تھا۔
نواز شریف ان تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں ملک کی طاقت ور سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ نواز شریف تین بار ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں۔
نواز شریف کے بھائی اور ملک کی قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر محمد شہباز شریف بھی بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔ نواز شریف کی سیاسی جماعت پاکستان مسلم لیگ نون گزشتہ برس 25 جولائی کو ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف سے شکست کھا گئی تھی۔
پاکستان کی سپریم کورٹ نے نوازشریف کو گزشتہ برس بدعنوانی کے الزامات کے تحت عمر بھر کے لیے سیاست سے نا اہل قرار دیتے ہوئے انسداد بدعنوانی کے محکمے نیب کو حکم دیا تھا کہ وہ ان کی اور ان کے خاندان کی جائیداد سے متعلق تین مختلف معاملات کی تفتیش کرے۔
پاکستانی سیاست دانوں کی ’سیاسی دوستیاں‘
عالمی یومِ دوستی کے موقع پر ڈی ڈبلیو اردو نے موجودہ پاکستانی سیاست دانوں کی آپسی اور غیر ملکی سیاست دانوں سے ’سیاسی دوستیوں‘ پر نظر ڈالی۔ دیکھیے ان سیاسی دوستیوں کی چند تصویری جھلکیاں اس پکچر گیلری میں
تصویر: picture-alliance/dpa/Handout
نواز شریف اور نریندر مودی کی دوستی: فائدہ کم، نقصان زیادہ
اکثر لوگوں کو دشمنی مہنگی پڑتی ہے لیکن پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کو شاید بھارتی وزیراعظم کی دوستی بھاری پڑی۔ نواز شریف کی نریندر مودی سے پہلی ملاقات ان کی حلف برداری کی تقریب میں 2014ء میں ہوئی۔ اس کے بعد 2015ء میں پیرس میں منعقدہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں مودی نے نواز شریف کو روک کر مصافحہ کیا۔ چند روز بعد بھارتی وزیراعظم نے افغانستان کے لیے اڑان بھری لیکن پھر اچانک لاہور پہنچ گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Handout
زرداری اور نواز شریف: مفاہمت بھری دوستی
پاکستان میں مفاہمت کی سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی آصف علی زرداری نے اپنے دور صدارت میں قائد حزب اختلاف نواز شریف کو خود سے دور کم اور قریب زیادہ رکھا۔ دونوں کے مابین اسی ’سیاسی دوستی‘ کی وجہ سے ملک میں پہلی مرتبہ ایک جمہوری حکومت نے پانچ سال مکمل کیے۔
تصویر: AP
شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن
الیکشن 2018ء میں دھاندلی کے مبینہ الزامات کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کے درمیان قربتیں بھی بڑھتی دکھائی دے رہی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی جیت کے خلاف آل پارٹیز کانفرنس کے دوران ان دونوں سیاستدانوں کی دوستی کتنی مستحکم ہوئی، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Mughal
عمران خان کی نریندر مودی سے ملاقات
عمران خان نے ماضی میں نریندر مودی اور نوازشریف کی ملاقاتوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا لیکن جب خود انہیں بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات کا موقع ملا تو وہ ٹال نہ سکے۔ رپورٹوں کے مطابق انہوں نے نریندر مودی کو پاکستان آنے کی دعوت بھی دی تھی۔ وزیراعظم مودی کی جانب سے عمران خان کو انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد بھی موصول ہوچکی ہے۔ اب دیکھیے ان دونوں کی ’دوستی‘ کیا رخ اختیار کرتی ہے؟
تصویر: MEA India
مشرف اور واجپائی: ایک تاریخ ساز مصافحہ
سن 2002 میں نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں منعقدہ سارک سربراہ کانفرنس کے دوران اس وقت کے پاکستانی صدر پرویز مشرف اور بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے درمیان مصافحے کو ’تاریخ ساز مصافحہ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ برِ صغیر کے چند ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے ان رہنماؤں کے مابین مذاکرات کوئی حتمی صورت اختیار کر لیتے تو شاید کشمیر پر تنازعہ کسی حل کی جانب بڑھ رہا ہوتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Macdougall
’پاک چین دوستی زندہ باد‘
1951ء میں پاک چین سفارتی تعلقات کی بنیاد رکھی گئی، جس کے بعد پاکستان میں چین کی دوستی کی بات ہر پاکستانی سیاستدان کرتا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبےمیں چین کی جانب سے پاکستان میں کی گئی سرمایہ کاری نے دونوں ممالک کے تعلقات مزید مستحکم کیے ہیں۔ پاکستان کےآئندہ ممکنہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں چین کا شکریہ ادا کیا اور پاکستان کی غیرمستحکم معیشت کو سنبھالنے میں چین کے کردارکو سراہا۔