پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے آج جمعے کے روز پاناما پیپرز کیس میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے دائر اٹھائیس جولائی کے نااہلی کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواستیں مسترد کر دی ہیں۔
اشتہار
سن دو ہزار سولہ میں پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد نواز شریف، اُن کے صاحبزادوں، بیٹی مریم اور اُن کے شوہر کیپٹن (ریٹائرڈ) صفدر سمیت مسلم لیگ نون کے رہنما اسحاق ڈار کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا تھا اور اٹھائیس جولائی سن 2017 کو ملکی عدالت عظمیٰ نے اُنہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔
یہ درخواستیں نواز شریف، حسن، حسین، مریم نواز، کیپٹن (ریٹائرڈ) صفدر اور اسحاق ڈار کی جانب سے دائر کرائی گئی تھیں۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کے اس فیصلے کے برقرار رہنے سے اگلے سال عام انتخابات پر اثر پڑے گا۔
آج نظرثانی کی درخواستوں کا مختصر فیصلہ پانچ رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے سنایا۔ بنچ کے بقیہ ارکان ججوں میں جسٹس اعجاز افضل، جسٹس اعجاز الحسن، جسٹس گلزار احمد اور جسٹس شیخ عظمت سعید شامل تھے۔ ان کے مطابق عدالت اگلے ہفتے کے دوران نظرثانی کی درخواستوں کا تفصیلی فیصلہ منظر عام پر لایا جائے گا۔ تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا نواز شریف مخصوص وقت کے لئے، چند سالوں کے لیے یا ہمیشہ کے لیے نا اہل قرار پائے ہیں۔
نواز شریف: تین مرتبہ پاکستان کا ’ادھورا وزیراعظم‘
پچیس دسمبر 1949 کو پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔ نواز شریف تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے، لیکن تینوں مرتبہ اپنے عہدے کی مدت مکمل نہ کر سکے۔
تصویر: Reuters
سیاست کا آغاز
لاھور کے ایک کاروباری گھرانے میں پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز سن ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔
تصویر: AP
پنجاب کا اقتدار
جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف سن 1985 میں پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔
تصویر: AP
وفاقی سطح پر سیاست کا آغاز
سن 1988 میں پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں اقتدار میں آئی اور بینظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ اس وقت نواز شریف پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تاہم اسی دور میں وہ ملک کی وفاقی سیاست میں داخل ہوئے اور دو برس بعد اگلے ملکی انتخابات میں وہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار بنے۔
تصویر: AP
پہلی وزارت عظمیٰ
پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ کے طور پر میاں محمد نواز شریف سن 1990 میں پہلی مرتبہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ان کے دور اقتدار میں ان کا خاندانی کاروبار بھی پھیلنا شروع ہوا جس کے باعث ان کے خلاف مبینہ کرپشن کے شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔
تصویر: AP
وزارت عظمیٰ سے معزولی
سن 1993 میں اس وقت کے وفاقی صدر غلام اسحاق خان نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے معزول کر دیا۔ نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ کا رخ کیا۔ عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے نواز شریف کی حکومت بحال کر دی تاہم ملک کی طاقتور فوج کے دباؤ کے باعث نواز شریف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: AP
دوسری بار وزیر اعظم
میاں محمد نواز شریف کی سیاسی جماعت سن 1997 کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی جس کے بعد وہ دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے۔
تصویر: AP
فوجی بغاوت اور پھر سے اقتدار کا خاتمہ
نواز شریف دوسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ حکومت اور ملکی فوج کے مابین تعلقات کشیدگی کا شکار رہے اور فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ہٹانے کے اعلان کے بعد فوج نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔
تصویر: AP
جلا وطنی اور پھر وطن واپسی
جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف کے خلاف طیارہ ہائی جیک کرنے اور دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم بعد ازاں انہیں جلاوطن کر دیا گیا۔ جلاوطنی کے دور ہی میں نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے ’میثاق جمہوریت‘ پر دستخط کیے۔ سن 2007 میں سعودی شاہی خاندان کے تعاون سے نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔
تصویر: AP
تیسری مرتبہ وزیر اعظم
سن 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون ایک مرتبہ پھر عام انتخابات میں کامیاب ہوئی اور نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد انہیں مسلسل پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پھر ’ادھوری وزارت عظمیٰ‘
نواز شریف تیسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں ناکام ہوئے۔ سن 2016 میں پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا اور آخرکار اٹھائی جولائی سن 2017 کو ملکی عدالت عظمیٰ نے انہیں نااہل قرار دے دیا۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
10 تصاویر1 | 10
نظرِثانی کی درخواستیں مسترد ہونے کے بعد نواز شریف اور انکی بیٹی مریم نواز کے لیے حالات کچھ سازگار ثابت نہیں ہوتے دکھائی دے رہے، مریم نواز حکمران پارٹی کی رہنما کے طور پر اپنے والد سے تربیت حاصل کر تی رہی ہیں اور پارٹی کی جانب سے آئندہ الیکشن کی مضبوط امیدوار ہیں۔
حکمران پارٹی مسلم لیگ (ن) نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس ملک میں اپنی رائے کا استعمال کرنے والے ووٹرز کے منہ پر یہ فیصلہ ایک طمانچے سے کم نہیں ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی رہنما اور وفاقی وزیر انوشہ رحمان نے اس موقع پر کہا ،’’ غیر جانبدار اور منصفانہ فیصلہ سب کا حق ہے اور یہ حق پاکستان کی بیس کروڑ عوام کے حق رائے دہی سے نواز شریف اور انکے خاندان کو بھی حاصل ہونا چاہیے ۔‘‘
اسی سلسلے میں حزب اختلاف اور پاکستان تحریک انصاف کے سینیر رہنما فواد چودھری نے کہا،’’ یہ فیصلہ اس بات کی گواہی ہے کہ پاکستان میں انصاف کی حکمرانی ابھی قائم ہے۔‘‘‘‘
پاکستان کی سپریم کورٹ نے اٹھائیس جولائی کو پاناما کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو نا اہل قرار دے دیا تھا جس کے بعد نواز شریف کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا تھا۔