سپریم کورٹ کے فیصلے کے نتیجے میں نا اہل قرار گئے پاکستان کے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے وزارت عظمیٰ سے اپنی برطرفی کے بعد پہلی مرتبہ لاہور پہنچنے پر عسکری اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کو سخت پیغام دیا ہے۔
اشتہار
جی ٹی روڈ پر جاری رہنے والے چار روزہ سفر لاہور کے بعد سید علی ہجویری کے دربار کے باہر ایک بڑے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف کا واضح طور پر کہنا تھا کہ وہ نہ تو ڈرتے ہیں اور نہ ہی انہیں جان کی پروا ہے اور وہ ملک کی تقدیر بدلنے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ ان کے الفاظ میں پاکستان کے ساتھ پچھلے ستر سالوں میں تماشا کرنے والوں کا احتساب کیا جانا چاہیے۔ نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کا نام لیے بغیر کہا کہ یہ 20 کروڑ عوام کا ملک ہے اس پر چند لوگوں کی اجارہ داری ختم ہونی چاہیے۔
نواز شریف کا کہنا تھا، ’’مشرقی پاکستان الگ کر دیا گیا، بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے، کون ہیں جو پاکستان کے ساتھ ظلم کر رہے ہیں۔‘‘ ان کے مطابق ووٹ کی حرمت کو یقینی بنانے کے لیے پاکستان کے آئین کو بدلنا ہوگا۔ نواز شریف نے چئیرمین سینٹ رضا ربانی کی پارلیمنٹ کو بالادست بنانے کی تجاویز پر ان کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔
نااہل قرار دیے جانے کے بعد نواز شریف کے شہر لاہور میں کیا ہو رہا ہے؟
آج پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے میاں نواز شریف کو نااہل قرار دیے جانے کے بعد اُن کے شہر لاہور میں ملی جلی صورتِ حال رہی۔ کہیں مسلم لیگ نون کے کارکنوں نے احتجاج کیا تو کہیں پی ٹی آئی کے ورکرز نے جشن منایا۔
تصویر: T. Shahzad
شیر کا انتخابی نشان
لاہور کے شملہ پہاڑی چوک میں دو رکشا ڈرائیور نون لیگ کے انتخابی نشان شیر کے پاس بیٹھے نعرے لگا رہے ہیں۔
تصویر: T. Shahzad
پریس کلب کے باہر احتجاج
مسلم لیگ نون کی ایم پی اے فرزانہ بٹ دیگر کارکنوں کے ہمراہ لاہور پریس کلب کے باہر زمین پر بیٹھ کر احتجاج کر رہی ہیں۔
تصویر: T. Shahzad
برطرفی کا جشن
لاہور کے علاقے ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی میں زندگی معمول کے مطابق رواں دواں ہے، وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے حلقے میں موجود اس علاقے کے لالک چوک میں پی ٹی آئی آج رات نواز شریف کی برطرفی کا جشن منا رہی ہے۔
تصویر: T. Shahzad
’قاف‘ کے کارکن بھی خوش
لاہور کے مسلم لیگ ہاؤس میں مسلم لیگ قاف کے کارکنوں کی طرف سے مٹھائی بانٹی گئی۔
تصویر: T. Shahzad
دوکانیں معمول سے پہلے بند
احتجاجی سرگرمیوں کے لیے معروف لاہور کا فیصل چوک بھی ذیادہ تر سنسان رہا۔ نون لیگی کارکنوں کی اکا دکا ٹولیاں ریگل چوک تک آتی اور نعرے لگا کر واپس جاتی رہیں جبکہ کئی مارکیٹوں میں دوکانیں معمول سے پہلے ہی بند ہو گئیں۔
تصویر: T. Shahzad
5 تصاویر1 | 5
نواز شریف نے عدلیہ کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا، ’’یہاں تیس تیس سال سے مقدمے چل رہے ہیں، دادے کا مقدمہ پوتے کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ہم ایسا نظام لائیں گے جس میں 90 دنوں میں لوگوں کو سستا اور فوری انصاف مل سکے۔‘‘
نواز شریف کا کہنا تھا کہ انہیں بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیا گیا۔ انہوں نے جلسے کے شرکا سے پوچھا کیا یہ کسی وزیر اعظم کو نا اہل قرار دینے کی مناسب وجہ ہے، لوگوں نے اس پر نہ نہ کے نعرے لگائے۔ اس پر نواز شریف نے کہا کہ عوامی نمائندوں کو گھر بھیجنے والوں کو روکنا ہو گا۔
نواز شریف نے اعلان کیا کہ وہ 14 اگست کو اپنے انقلابی پروگرام کا اعلان کریں گے۔جلسے کے دوران جب نواز شریف ملک میں امن ا امان کی صورتحال بہتر بنانے کی اپنی کوششوں کا ذکر کر رہے تھے عین اسی وقت وہاں کوئٹہ دھماکے کی اطلاع ملی ، بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بھی اس وقت سٹیج پر موجود تھے۔نواز شریف نے کوئٹہ سانحے میں جاں بحق ہونے والوں کے ساتھ بھی اظہار ہمدردی کیا۔
پاکستان میں سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی اقتدار سے برطرفی کے بعد پہلے احتجاجی پروگرام میں عوام کی بڑی تعداد میں شمولیت کی وجہ تو سمجھ آتی ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا نواز شریف آنے والے دنوں میں اپنا یہ احتجاجی مومنٹم برقرار رکھ پاتے ہیں یا نہیں؟
نواز شریف کے جی ٹی روڈ مشن کو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف روڈ شو بھی قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کے دوران نواز شریف پارٹی کارکنوں کو متحرک کرنے، میڈیا کے ذریعے اپنا بیانیہ ووٹرز تک پہنچانے میں تو کامیاب رہے لیکن مبصرین کے مطابق ان کی کامیابیوں کا انحصار اس بات پر بھی ہے کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی سمیت کتنی سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل کر پاتے ہیں۔
دوسری جانب اپوزیشن جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے کہا ہے کہ میاں نواز شریف جیل سے بچنے کے لیے ڈرامہ کر رہے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ نواز شریف کو گرینڈ ڈائیلاگ کے نام پر این آر او نہیں کرنے دیں گے۔ ادھر پاکستان پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو نے کہا ہے کہ میاں صاحب آپ بتائیں کہ آپ کتنے وزرائے اعظم کو نکالنے کی سازش میں شریک تھے۔ اقتدار کا نشہ اترتے ہی آپ کو گرینڈ ڈائیلاگ یاد آ گیا اب آپ کی چال بازی نہیں چلے گی۔ پاکستان عوامی تحریک کے ڈاکٹر طاہرالقادری کا کہنا ہے کہ پیدائشی سرمایہ کار کا انقلاب کی بات کرنا مضحکہ خیز ہے۔
اگرچہ نواز شریف کی ریلی کی کامیابی اور ناکامی کے حوالے سے نواز شریف کے حامیوں اور مخالفوں کی طرف سے متضاد بیانات سامنے آ رہے ہیں لیکن بعض لوگوں کی طرف سے یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر نواز شریف کی ریلی ناکام تھی تو پھر کیبل آپریٹروں کے ذریعے ٹی وی چینل بند کروانے کی کیا ضرورت تھی۔
پچیس دسمبر 1949 کو پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔ نواز شریف تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے، لیکن تینوں مرتبہ اپنے عہدے کی مدت مکمل نہ کر سکے۔
تصویر: Reuters
سیاست کا آغاز
لاھور کے ایک کاروباری گھرانے میں پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز سن ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔
تصویر: AP
پنجاب کا اقتدار
جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف سن 1985 میں پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔
تصویر: AP
وفاقی سطح پر سیاست کا آغاز
سن 1988 میں پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں اقتدار میں آئی اور بینظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ اس وقت نواز شریف پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تاہم اسی دور میں وہ ملک کی وفاقی سیاست میں داخل ہوئے اور دو برس بعد اگلے ملکی انتخابات میں وہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار بنے۔
تصویر: AP
پہلی وزارت عظمیٰ
پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ کے طور پر میاں محمد نواز شریف سن 1990 میں پہلی مرتبہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ان کے دور اقتدار میں ان کا خاندانی کاروبار بھی پھیلنا شروع ہوا جس کے باعث ان کے خلاف مبینہ کرپشن کے شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔
تصویر: AP
وزارت عظمیٰ سے معزولی
سن 1993 میں اس وقت کے وفاقی صدر غلام اسحاق خان نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے معزول کر دیا۔ نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ کا رخ کیا۔ عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے نواز شریف کی حکومت بحال کر دی تاہم ملک کی طاقتور فوج کے دباؤ کے باعث نواز شریف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: AP
دوسری بار وزیر اعظم
میاں محمد نواز شریف کی سیاسی جماعت سن 1997 کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی جس کے بعد وہ دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے۔
تصویر: AP
فوجی بغاوت اور پھر سے اقتدار کا خاتمہ
نواز شریف دوسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ حکومت اور ملکی فوج کے مابین تعلقات کشیدگی کا شکار رہے اور فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ہٹانے کے اعلان کے بعد فوج نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔
تصویر: AP
جلا وطنی اور پھر وطن واپسی
جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف کے خلاف طیارہ ہائی جیک کرنے اور دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم بعد ازاں انہیں جلاوطن کر دیا گیا۔ جلاوطنی کے دور ہی میں نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے ’میثاق جمہوریت‘ پر دستخط کیے۔ سن 2007 میں سعودی شاہی خاندان کے تعاون سے نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔
تصویر: AP
تیسری مرتبہ وزیر اعظم
سن 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون ایک مرتبہ پھر عام انتخابات میں کامیاب ہوئی اور نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد انہیں مسلسل پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پھر ’ادھوری وزارت عظمیٰ‘
نواز شریف تیسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں ناکام ہوئے۔ سن 2016 میں پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا اور آخرکار اٹھائی جولائی سن 2017 کو ملکی عدالت عظمیٰ نے انہیں نااہل قرار دے دیا۔