نواز شریف پر مبینہ منی لانڈرنگ کا الزام، نیب تنقید کی زد میں
9 مئی 2018
نیب نے گزشتہ روز ایک پریس ریلیز کے ذریعے یہ اعلان کیا تھا کہ ادارے نے ان میڈیا اطلاعات کا نوٹس لے لیا ہے، جن میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ سابق وزیرِ اعظم نواز شریف نے مبينہ منی لانڈرنگ کے ذریعے 4.9 بلین ڈالرز کی رقم بھارت بھجوائی تھی۔ نیب نے کہا تھا کہ ذرائع ابلاغ پر رپورٹس کا نوٹس لیتے ہوئے ادارے نے چانچ پڑتال کا حکم دے دیا ہے۔ البتہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے فوری طور پر اس خبر کی تردید جاری کر دی۔ انگریزی زبان ميں شائع ہونے والے پاکستانی اخبار ’ڈان‘ کے مطابق ورلڈ بینک نے ایک وضاحتی بیان میں کہا کہ عالمی ادارے کی رپورٹ میں نہ ہی منی لانڈرنگ کا تذکرہ ہے اور نہ ہی کسی فرد کا نام لیا گیا ہے۔
پاکستان کے مرکزی بینک اور ورلڈ بینک کے بیانات کی باوجود اب تک نیب کی طرف سے کوئی وضاحتی بیان نہیں آیا، جس سبب نون لیگ و اس کے اتحادی چراغ پا ہیں۔ وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے آج قومی اسمبلی میں نیب پر سخت تنقید کرتے ہوئے مطالبہ کيا کہ ایوان ایک کمیٹی بنائے جو نیب کے چیئرمین کو طلب کرے اور ان الزامات کی تفتیش کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ نیب نے اپنی حدود سے تجاوز کیا ہے اور اگر ادارے ایسے کام کرتے رہے، تو ملک نہیں چلے گا۔ عباسی نے قومی اسمبلی سے اپنے خطاب ميں مزيد کہا کہ ایوانِ زیریں کے پاس نیب قوانین میں ترامیم کرنے کا ابھی بھی وقت موجود ہے۔ وزیرِ اعظم نے اس موقع پر کہا کہ جس انداز میں نواز شریف کو احتساب عدالت میں پیش کیا جا رہا ہے، اس سے یہی لگتا ہے کہ عدالت سے نواز شریف کو انصاف نہیں ملے گا۔
نواز شریف کے سیاسی دست راست محمود خان اچکزئی نے کہا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم پر اربوں ڈالر کی لانڈرنگ کا سنگین الزام لگایا گیا ہے۔ان کا مطالبہ ہے کہ ايک کمیٹی قائم کر کے اس معاملے کی تفتيش کی جائے اور اگر الزامات ثابت نہ ہوں تو پارلیمنٹ اس کا نوٹس لے۔ دوسری جانب پاکستان تحريک انصاف کے سياستدان اسد عمر نے اس کی مخالفت کہ کمیٹی بنا کر نيب کے چیئرمین کو طلب کیا جائے۔ ان کے بقول یہ انصاف و احتساب کے قتل کے مساوی عمل ہوگا اور وہ اس کی مخالفت کریں گے۔ پاکستان پيپلز پارٹی کے نوید قمر نے کہا کہ وہ اس بارے ميں اپنی پارٹی سے مشورے کے بعد فیصلہ کریں گے کہ اس کمیٹی کا حصہ بننا چاہيے يا نہيں۔
جہاں ايک طرف وزیرِ اعظم عباسی اور نواز شریف کے سیاسی اتحادیوں نے اس مسئلے پر سخت موقف اختیار کیا وہیں نواز شریف کے بھائی اور وزیرِ اعلی پنجاب شہباز شریف نے اس پر نرم موقف اپناتے ہوئے کہا ہے کہ منی لانڈرنگ کے الزامات سے نیب کی ساکھ کو نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ چیئرمین نیب اس مسئلے کا نوٹس لیں گے۔
کئی سياسی مبصرین کے خیال میں اس مسئلے سے نیب کی جگ ہنسائی ہوئی ہے۔ معروف تجزیہ نگار انعام الرحیم نے اس مسئلے پر اپنا موقف بيان کرتے ہوئے کہا، ’’کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک شخص کے دعوے اور بعد میں میڈیا رپورٹس کا نوٹس لیتے ہوئے نیب نے جانچ پڑتال کا حکم دے دیا۔ جن صاحب نے سن 2016 میں ورلڈ بینک کی اس رپورٹ کا تذکرہ کیا تھا، ان کی ساکھ ایسی ہی ہے، جیسے کہ ایک متنازعہ اینکر کی جنہوں نے قصورکے واقعے کے حوالے سے بہت بڑے بڑے دعوے کيے تھے۔ جب سویلینز کے خلاف کارروائی کا معاملہ ہوتا ہے تو نیب میڈیا رپورٹس کو جواز بنا کر بھی انکوائری شروع کر دیتی ہے لیکن فوجی جرنيلوں کے خلاف مقدمات کب سے پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔ سابق فوجی سربراہ و صدر پرويز مشرف اور ایل این سی کے کرپشن کیس میں ملوث جرنيلوں کے خلاف نیب کب کارروائی کرے گا۔‘‘
پاکستان میں اس مسئلے کے حوالے سے ابھی تک ابہام ہے۔ ماہر معیشت اور تجزیہ نگار ضیاء الدین کے خیال میں یہ الزامات ریاستی اداروں کی طرف سے نواز مخالف مہم کا حصہ لگتے ہیں۔ انہوں نے کہا، ’’اس وقت تو جو بھی نواز کے خلاف آئے گا، اسے فوری طور پر لیا جائے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں گزشتہ پندرہ بیس برسوں میں جتنی مشینیں آئی ہیں، وہ کسی تیسرے ملک کے ذریعے بھارت سے منگوائی گئی ہيں کیونکہ جاپان سے مشینیں منگوانے کا عمل بہت مہنگا ہے۔ اس ليے قوی امکان ہے کہ یہ پیسہ ٹریڈنگ کی مد میں گیا ہو اور اس میں صرف نواز شریف کے اہل خانہ ميں شامل کاروباری افراد نے مشینیں نہیں منگوائی ہوں گی بلکہ اور بھی بہت سے صنعتی گھرانوں نے ایسا ہی کیا ہوگا۔‘‘ ضياء الدين کے بقول نیب نے جو الزام لگایا ہے وہ منی لانڈرنگ کا ہے، جس کی کوئی منطق نہیں بنتی۔‘‘
نيب کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ابھی تک صرف حکم ہی آیا ہے لیکن اس حوالے سے کوئی کمیٹی نہیں بنائی گئی ہے۔ میرے خیال میں یہ کمیٹی کچھ دنوں میں بنے گی۔‘‘
لیکن کئی سیاسی مبصرین کے خیال میں اس طرح کی کمیٹی پہلے بننی چاہیے تھی۔ تجزیہ نگار جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کے خیال میں نیب نے اس مسئلے پر جلد بازی سے کام لیا۔ ’’میرے خیال میں نیب کو پہلے اندرونی طور پر ان خبروں کی تصدیق کرنی چاہیے تھی اور پھر اس پر تحقیق کرناچاہیے تھی اور اس کے بعد انہیں اس کا کھلے عام اعلان کرنا چاہیے تھا۔ اب یا تو وہ اپنے بیان کی وضاحت کریں یا پھر تردید۔‘‘
ڈوئچے ویلے نے نیب کے ترجمان سے کئی بار رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا اور نہ ہی بھیجے گئے پیغامات کا کوئی جواب دیا۔ دريں اثناء نیب کی طرف سے میڈیا کو آج بھیجی گئی ایک پریس ریلیز کے مطابق ادارے نے گزشتہ روز جو پریس ریلیز جاری کی، وہ روزنامہ اوصاف میں ایک کالم نگار کے انکشافات کے تناظر میں تھی۔ اس کالم نگار نے چار اعشاریہ نو بلین ڈالر بھارت منتقل کيے جانے کا تذکرہ کیا تھا۔ پریس ریلز میں مزید کہا گیا ہے کہ نیب نے میڈیا رپورٹس اور عالمی بینک کی رپورٹ میں کيے جانے والے انکشافات کی بنیاد پر چانچ پڑتال کا فیصلہ کیا ہے کیوں کہ منی لانڈرنگ کی تحقیقات نیب کے دائرہ اختیار میں شامل ہے۔