1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نواز شریف کا آپریشن کامیاب رہا ہے، مریم نواز

عبدالستار، اسلام آباد31 مئی 2016

پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کی بیٹی مریم نواز نے اپنے ایک ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ ان کے والد کی ’اوپن ہارٹ سرجری‘ کامیاب رہی ہے جبکہ وزیر داخلہ کے مطابق اب انہیں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں منتقل کر دیا گیا ہے۔

Pakistan - Premierminster Nawaz Sharif
تصویر: Getty Images/S. Gallup

گزشتہ پانچ برسوں میں پاکستان کے چھیاسٹھ سالہ وزیراعظم کا یہ دوسرا اہم آپریشن تھا۔ بیس لاکھ فالورز والے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر مریم نواز کا کہنا تھا، ’’خدا کے فضل سے سرجری کامیاب رہی ہے۔ تمام شریانوں کی پیوندکاری کامیابی سے کی گئی ہے۔‘‘

پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق نواز شریف کو دل کا عارضہ لاحق ہے اور ان کی ’اوپن ہارٹ سرجری‘ لندن کے ایک نجی اسپتال میں کی گئی ہے۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ آج صبح ہی سے اس اہم خبر پر تبصرے، تجزیے اور لوگوں کے تاثرات نشر کر رہے ہیں۔ ملک کے تقریباﹰ تمام بڑے شہروں میں وزیراعظم نواز شریف کی صحت یابی کی دعائیں کی جارہی ہیں۔ اس کے علاوہ ن لیگ کارکنوں نے کئی مقامات پر صدقے کے بکروں کی قربانی بھی کی ہے۔

پاکستانی میڈیا کے مطابق صدر مملکت ممنون حسین، افغان صدر اشرف غنی اور بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی سمیت دنیا بھر کے کئی رہنماوں نے نواز شریف کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔ اس کے علاوہ ملالہ یوسف زئی، پاکستانی کرکڑز اور کئی بین الاقوامی شخصیات نے بھی وزیرِ اعظم کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے۔

تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پاناما پیپرز میں وزیرِ اعظم کے خاندان کا نام آنے کے بعد ان پر تنقید کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جبکہ آپریشن کے بعد نواز شریف کے لئے ملک میں ہمدردی کی ایک نئی لہر پیدا ہوگئی ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری سے لے کر چیف آف آرمی اسٹاف جنرل راحیل شریف تک سب نے وزیرِ اعظم کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا ہے۔ ذرائع ابلاغ میں ملک میں وزیرِ اعظم کی عدم موجودگی کے حوالے سے قانونی جنگ چھڑی ہوئی ہے اور اس حوالے سے نقطہء نظر منقسم نظر آتا ہے۔ کچھ ماہرین میڈیا کو بتاتے ہیں کہ وزیرِاعظم کچھ مہنیوں کی چھٹی کے لئے جا سکتے ہیں جب کہ کچھ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ وزیرِ اعظم کی عدم موجودگی میں امورِ حکومت کو چلایا ہی نہیں جا سکتا۔

سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری، جو مسلم لیگ کے سرکردہ رہنما رانا ثناء اللہ کے رشتے دار بھی ہیں، اس مطالبے میں پیش پیش ہیں کہ وزیرِ اعظم کی عدم موجودگی میں یہ عہدہ کسی اور کو سونپا نہیں جا سکتا اور ایوان کو نیا وزیرِ اعظم منتخب کرنا چاہیے۔ دوسری جانب تجزیہ نگاروں کے خیال میں اس طرح کے بیانات ملک میں سیاسی ہیجان پیدا کرنے کے موجب بن سکتے ہیں۔
وفاقی اردو یونیورسٹی کے شعبہء ابلاغ عامہ کے سابق چیئرمین ڈاکڑ توصیف احمد کا الزام عائد کرتے ہوئے کہنا ہے کہ افتخار چوہدری صاحب اسٹیبلشمنٹ کے ایجنڈے پر چل رہے ہیں۔ ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’اسٹیبلشمنٹ کو بھارت سے دوستی اور پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات نہیں بھاتے۔ فوج نے خارجہ پالیسی اپنے ہاتھ میں لی اور آج سارے پڑوسی ممالک سے ہمارے تعلقات خراب ہیں۔ نواز ان تعلقات کو بہتر کرنا چاہتتے تھے، اسی لئے شروع دن سے اس کے اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان تناؤ رہا اور جب کوئی بحران جیسی کیفیت ہوتی ہے تو غیر جمہوری عناصر میاں صاحب پر دباؤ بڑھاتے ہیں۔ افتخار چوہدری کو بھی اس طرح کے دباؤ کو بڑھانے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔‘‘

پاکستانی سینیٹر حاصل بزنجو نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’اس وقت ملک میں کوئی سیاسی بحران نہیں ہے لیکن اگر ٹی او آرز پر اتفاق نہیں ہوا تو ملک سیاسی بحران کا شکار ہو سکتا ہے اور پھر اس کا کوئی بھی فائدہ اٹھا سکتا ہے۔‘‘

بیس لاکھ فالورز والے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر مریم نواز کا کہنا تھا، ’’خدا کے فضل سے سرجری کامیاب رہی ہے۔ تمام شریانوں کی پیوندکاری کامیابی سے کی گئی ہے۔‘‘تصویر: Daniel Berehulak/Getty Images


سینیٹر تاج حیدر نے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے اس بات کو رد کیا کہ ملک میں کوئی غیر جمہوری قوت آسکتی ہے،’’اس ملک کے عوام کا شعور اب اتنا نہ پختہ نہیں کہ وہ کسی غیر جمہوری اقدام کی حمایت کریں۔ ہم نے پانچ سال فوج کو سیاسی معاملات سے دور رکھا اور اس کی وجہ عوامی شعور تھا، جو اب بھی کسی طالع آزما کو جمہوریت کو نقصان پہنچانے نہیں دے گا۔‘‘

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے نواز شریف کے وڈیو لنک خطاب کو ہدف تنقید بنایا لیکن پاکستان کی تقریباﹰ تمام سیاسی جماعتوں نے اس کو کوئی بڑا مسئلہ قرار نہیں دیا۔ تاج حیدر کے خیال میں بھی وڈیو لنک کے ذریعے خطاب میں کوئی قباحت نہیں ہے۔’’یہ چھوٹے موٹے مسئلے ہیں۔اس سے حکومت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ملکی سرمایہ باہر جا رہا ہے اور بھیجا بھی گیا ہے، اس کو روکنے کی بات کرنی چاہیے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں