نواز شریف کا میڈیا بلیک آؤٹ، الزام ججوں اور جرنیلوں پر
21 اپریل 2018
سابق پاکستانی وزیراعظم نوازشریف کی سیاسی تقاریر کو مکمل نشر نہ کرنے کی وجہ کیا میڈیا پر عائد وہ سینسر شپ ہے، جس کا الزام ملک کی طاقت ور عسکری قیادت اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں پر عائد کیا جا رہا ہے؟
اشتہار
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے اپنے ایک تفصیلی مضمون میں کہا ہے کہ نوازشریف کا میڈیا بلیک آؤٹ دراصل ان کا ملکی فوج کی پالیسیوں پر اختلاف ہے۔
نواز شریف: تین مرتبہ پاکستان کا ’ادھورا وزیراعظم‘
پچیس دسمبر 1949 کو پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔ نواز شریف تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے، لیکن تینوں مرتبہ اپنے عہدے کی مدت مکمل نہ کر سکے۔
تصویر: Reuters
سیاست کا آغاز
لاھور کے ایک کاروباری گھرانے میں پیدا ہونے والے نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز سن ستر کی دھائی کے اواخر میں کیا۔
تصویر: AP
پنجاب کا اقتدار
جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف سن 1985 میں پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔
تصویر: AP
وفاقی سطح پر سیاست کا آغاز
سن 1988 میں پاکستان پیپلز پارٹی وفاق میں اقتدار میں آئی اور بینظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم بنیں۔ اس وقت نواز شریف پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے تاہم اسی دور میں وہ ملک کی وفاقی سیاست میں داخل ہوئے اور دو برس بعد اگلے ملکی انتخابات میں وہ وزارت عظمیٰ کے امیدوار بنے۔
تصویر: AP
پہلی وزارت عظمیٰ
پاکستان مسلم لیگ کے سربراہ کے طور پر میاں محمد نواز شریف سن 1990 میں پہلی مرتبہ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ان کے دور اقتدار میں ان کا خاندانی کاروبار بھی پھیلنا شروع ہوا جس کے باعث ان کے خلاف مبینہ کرپشن کے شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔
تصویر: AP
وزارت عظمیٰ سے معزولی
سن 1993 میں اس وقت کے وفاقی صدر غلام اسحاق خان نے اپنے آئینی اختیارات استعمال کرتے ہوئے نواز شریف کو وزارت عظمیٰ کے عہدے سے معزول کر دیا۔ نواز شریف نے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ کا رخ کیا۔ عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے نواز شریف کی حکومت بحال کر دی تاہم ملک کی طاقتور فوج کے دباؤ کے باعث نواز شریف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔
تصویر: AP
دوسری بار وزیر اعظم
میاں محمد نواز شریف کی سیاسی جماعت سن 1997 کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی جس کے بعد وہ دوسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بننے میں کامیاب ہوئے۔
تصویر: AP
فوجی بغاوت اور پھر سے اقتدار کا خاتمہ
نواز شریف دوسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہ ہوئے۔ حکومت اور ملکی فوج کے مابین تعلقات کشیدگی کا شکار رہے اور فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کو ہٹانے کے اعلان کے بعد فوج نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا۔
تصویر: AP
جلا وطنی اور پھر وطن واپسی
جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا کے دور میں نواز شریف کے خلاف طیارہ ہائی جیک کرنے اور دہشت گردی کے مقدمات درج کیے گئے اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ تاہم بعد ازاں انہیں جلاوطن کر دیا گیا۔ جلاوطنی کے دور ہی میں نواز شریف اور بینظیر بھٹو نے ’میثاق جمہوریت‘ پر دستخط کیے۔ سن 2007 میں سعودی شاہی خاندان کے تعاون سے نواز شریف کی وطن واپسی ممکن ہوئی۔
تصویر: AP
تیسری مرتبہ وزیر اعظم
سن 2013 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ نون ایک مرتبہ پھر عام انتخابات میں کامیاب ہوئی اور نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے۔ تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد انہیں مسلسل پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا سامنا کرنا پڑا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پھر ’ادھوری وزارت عظمیٰ‘
نواز شریف تیسری مرتبہ بھی وزارت عظمیٰ کے عہدے کی مدت پوری کرنے میں ناکام ہوئے۔ سن 2016 میں پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد ان کے خلاف تحقیقات کا آغاز ہوا اور آخرکار اٹھائی جولائی سن 2017 کو ملکی عدالت عظمیٰ نے انہیں نااہل قرار دے دیا۔
ڈی پی اے کے مطابق رواں ہفتے جب سابق پاکستانی وزیراعظم نواز شریف دارالحکومت اسلام آباد میں ایک سیمنار سے خطاب کر رہے تھے، تو ان کا یہ خطاب تمام ٹی وی چینلز پر براہ راست نشر کیا جا رہا تھا، بالکل ویسے ہی، جیسے دیگر رہنماؤں کا کیا جاتا ہے، مگر جیسے ہی نواز شریف نے اپنی برطرفی کے موضوع پر بات کی، تمام ٹی وی چینلز نے اچانک ہی سے یہ خطاب نشر کرنا بند کر دیا۔
نوازشریف کو گزشتہ برس جولائی میں سپریم کورٹ نے بدعنوانی کے ایک مقدمے کے تحت نااہل قرار دیتے ہوئے پارلیمان کی رکنیت اور وزارت عظمیٰ سے محروم کر دیا تھا۔ اسی تناظر میں وہ ملکی عدلیہ اور فوج کو تنقید کا نشانہ بناتے ملتے ہیں۔
ڈی پی اے کے مطابق یہ پہلا موقع تھا کہ ایک ساتھ تمام نشریاتی اداروں کی جانب سے اس طرح نوازشریف کے خطاب کے کچھ حصوں کو نشر کرنے سے روکا گیا، جو اس بابت سینسر شپ کا پتا دیتا ہے۔
ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل سے وابستہ صحافی وحید مراد نے اپنے ایک نجی بلاگ میں کہا، ’’یہ ایک بدترین قسم کی سینسرشپ ہے، جس کا کوئی جواز نہیں۔‘‘
مراد کا مزید کہنا تھا، ’’ایسا لگتا ہے جیسے فوج اور عدلیہ مل کر انتخابات سے قبل میڈیا کو مکمل طور پر قابو میں رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘
جوتا کس نے پھینکا؟
حالیہ کچھ عرصے میں کئی ملکوں کے سربراہان اور سیاستدانوں پر جوتا پھینکے جانے کے رجحان میں اضافہ ہوا۔ سب سے زیادہ شہرت سابق امریکی صدر بُش پر پھینکے گئے جوتے کو ملی اور تازہ شکار سابق پاکستانی وزیراعظم نواز شریف بنے۔
تصویر: AP
سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش
سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش پر جوتا اُن کے عراقی کے دورے کے دوران پھینکا گیا۔ یہ جوتا ایک صحافی منتظر الزیدی نے چودہ دسمبر سن 2008 کو پھینکا تھا۔
تصویر: AP
سابق چینی وزیراعظم وین جیا باؤ
دو فروری سن 2009 کو لندن میں سابق چینی وزیراعظم وین جیا باؤ پر ایک جرمن شہری مارٹن ژانکے نے جوتا پھینکا تھا۔ یہ جوتا جیا باؤ سے کچھ فاصلے پر جا کر گرا تھا۔
تصویر: Getty Images
سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد
ایرانی صوبے مغربی آذربائیجدان کے بڑے شہر ارومیہ میں قدامت پسند سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد پر جوتا پھینکا گیا تھا۔ یہ واقعہ چھ مارچ سن 2009 کو رونما ہوا تھا۔ احمدی نژاد کو سن 2006 میں تہران کی مشہور یونیورسٹی کے دورے پر بھی جوتے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
تصویر: fardanews
سابق بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ
چھبیس اپریل سن 2009 کو احمد آباد شہر میں انتخابی مہم کے دوران کانگریس پارٹی کے رہنما اور اُس وقت کے بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ پر ایک نوجوان نے جوتا پھینکا، جو اُن سے چند قدم دور گرا۔
تصویر: Reuters/B. Mathur
سوڈانی صدر عمر البشیر
جنوری سن 2010 میں سوڈان کے دارالحکومت خرطوم کے ’فرینڈ شپ ہال‘ میں صدر عمر البشیر پر جوتا پھینکا گیا۔ سوڈانی صدر کا دفتر اس واقعے سے اب تک انکاری ہے، لیکن عینی شاہدوں کے مطابق یہ واقعہ درست ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/E. Hamid
ترک صدر رجب طیب ایردوآن
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن پر فروری سن 2010 میں ایک کرد نوجوان نے جوتا پھینک کر کردستان زندہ باد کا نعرہ لگایا تھا۔ یہ کرد شامی شہریت کا حامل تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/O. Akkanat
سابق پاکستانی صدر آصف علی زرداری
پاکستان کے سابق صدرآصف علی زرداری کے برطانوی شہر برمنگھم کے دورے کے موقع پر ایک پچاس سالہ شخص سردار شمیم خان نے اپنے دونوں جوتے پھینکے تھے۔ یہ واقعہ سات اگست سن 2010 کا ہے۔
تصویر: Getty Images
سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر
چار ستمبر سن 2010 کو سابق برطانوی وزیر ٹونی بلیئر کو ڈبلن میں جوتوں اور انڈوں سے نشانہ بنایا گیا۔ ڈبلن میں وہ اپنی کتاب ’اے جرنی‘ کی تقریب رونمائی میں شریک تھے۔
تصویر: Imago/i Images/E. Franks
سابق آسٹریلوی وزیراعظم جون ہوارڈ
چار نومبر سن 2010 کو کیمبرج یونیورسٹی میں تقریر کے دوران سابق آسٹریلوی وزیراعظم جون ہوارڈ پر جوتا پھینکا گیا۔ جوتا پھینکنے والا آسٹریلیا کا ایک طالب علم تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سابق پاکستانی صدر پرویز مشرف
لندن میں ایک ہجوم سے خطاب کے دوران سابق فوجی صدر پرویز مشرف پر ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہری نے جوتا پھینکا تھا۔ یہ واقعہ چھ فروری سن 2011 کو پیش آیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سابق تائیوانی صدر ما یِنگ جُو
تائیوان کے سابق صدر ما یِنگ جُو پر اُن کے خلاف مظاہرہ کرنے والے ہجوم میں سے کسی شخص نے جوتا آٹھ ستمبر سن 2013 کو پھینکا۔ تاہم وہ جوتے کا نشانہ بننے سے بال بال بچ گئے۔
تصویر: Reuters/E. Munoz
سابق پاکستانی وزیراعظم نواز شریف
پاکستان کی سپریم کورٹ کی جانب سے نا اہل قرار دیے جانے والے سابق وزیراعظم نواز شریف کو گیارہ مارچ سن 2018 کو ایک مدرسے میں تقریر سے قبل جوتا مارا گیا۔ اس طرح وہ جوتے سے حملے کا نشانہ بننے والی تیسری اہم پاکستانی سیاسی شخصیت بن گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
12 تصاویر1 | 12
اس سے قبل صحافیوں کی جانب سے پاکستان میں سب سے زیادہ دیکھے جانے والے نجی ٹی وی چینل جیو کی بندش کے تناظر میں بھی کہا گیا تھا کہ اس بندش کی وجہ سابق وزیراعظم نوازشریف کی تقاریر نشر کرنا تھی۔ ڈی پی اے کے مطابق پاکستانی سیاست میں فوج کی مداخلت کے خلاف جیو ایک مضبوط آواز کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے۔
ڈی پی اے نے مبصرین کے حوالے سے کہا ہے کہ نوازشریف فوج اور ججوں کا مشترکہ ہدف اس لیے بنے، کیوں کہ انہوں نے اقتدار پر سویلین بالادستی کی کوشش کی، جب کہ پاکستانی تاریخ کو قریب نصف عرصہ ملکی اقتدار فوج کے قبضے میں رہا ہے۔
ڈی پی اے کے مطابق نواز شریف اس وقت بھی ملک کے مقبول ترین سیاست دان ہیں، جہاں ان کے سیاسی جلسوں میں لاکھوں افراد شریک ہو رہے ہیں اور ان جلسوں میں وہ سیاست میں فوجی مداخلت پر بار بار تنقید کرتے ہیں۔
اس سے قبل ایک صوبائی عدالت نے پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی کو حکم دیا تھا کہ وہ نوازشریف اور ان کی پارٹی کے رہنماؤں بہ شمول موجودہ وزیراعظم شاہدخاقان عباسی کی ایسی تقاریر نشر نہ کریں، جن میں ’قومی اداروں‘ پر تنقید کی جائے۔ ڈی پی اے کے مطابق پاکستان میں قومی اداروں کی اصطلاح فوج اور عدلیہ کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔
راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس سروس کا افتتاح
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد اور جڑواں شہر راولپنڈی میں نئی میٹرو بس سروس کا افتتاح ہو گیا ہے۔ اربوں کی لاگت سے 23 کلومیٹر طویل یہ منصوبہ تیرہ ماہ میں مکمل ہوا۔ ان بسوں کو روزانہ ایک لاکھ 35 ہزار مسافر استعمال کریں گے۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
مسافروں کے لیے سہولت
اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان روزانہ سفر کرنے والوں نے میٹرو بس منصوبے کی تکمیل کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب عام مسافر شدید گرمی میں کم کرایہ ادا کر کے ایئر کنڈیشنڈ بسوں میں سفر کر سکیں گے اور انہیں پبلک ٹرانسپورٹ کا گھنٹوں کھلے آسمان تلے انتظار بھی نہیں کرنا پڑے گا۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
شہر کے حسن میں اضافہ
رات کے وقت اسلام آباد میں معروف تجارتی مرکز بلیو ایریا کی جناح ایونیو پر واقع میٹرو بس سروس کے ایک اسٹیشن کا منظر۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس میٹرو منصوبے سے راولپنڈی اور اسلام آباد کے حسن میں اضافہ ہو گا۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
بدلتا پاکستان
پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف نے 45 ارب روپے کی لاگت سے مکمل کیے گئے راولپنڈی اسلام آباد میٹرو بس منصوبے کا افتتاح جمعرات چار جون کو اسلام آباد کے کنونشن سینٹر میں کیا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا، ’’میٹرو بس منصوبہ دیکھ کر لگتا ہے کہ پاکستان بدل رہا ہے۔‘‘
تصویر: DW/Shakoor Raheem
تکمیل میں چھ ماہ کی تاخیر
میٹرو بس منصوبے کی تعمیر کا آغاز گزشتہ برس راولپنڈی میں ستائیس مارچ کو اور اسلام آباد میں تئیس اپریل کو کیا گیا تھا۔ اسے ابتدائی طور پر سات ماہ میں مکمل کیا جانا تھا تاہم یہ منصوبہ چھ ماہ کی تاخیر سے تیرہ ماہ کے عرصے میں مکمل ہوا۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
تئیس کلومیٹر طویل ٹریک
میٹرو بس سروس کے لیے جڑواں شہروں راولپنڈی اور اسلام آباد میں عام شہریوں کے لیے آمد و رفت کے بہتر مواقع کی خاطر مجموعی طور پر 23 کلومیٹر طویل سگنل فری ٹریک بچھایا گیا ہے۔ اس ٹریک کے دونوں جانب خوب تزئین و آرائش کی گئی ہے۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
خوبصورت میٹرو اسٹیشن
ابتدائی طور پر اس منصوبے کے لیے ترکی سے اڑسٹھ ایئر کنڈیشنڈ بسیں منگائی گئی ہیں۔ منصوبے کے تحت دونوں شہروں میں میٹرو کے کُل چوبیس اسٹیشن بنائے گئے ہیں جہاں سے یہ بسیں مجموعی طور پر یومیہ ایک لاکھ پینتیس ہزار مسافروں کو سفری سہولیات مہیا کریں گی۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
ناقدین کا موقف
ناقدین میٹرو بس منصوبے کو اربوں روپے کا ضیاع قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق یہ رقوم بجلی کے بحران کے شکار پاکستان میں توانائی کے شعبے کی بہتری کے لیے خرچ کی جانا چاہییں تھیں یا انہیں جڑواں شہروں میں صحت کی بہتر سہولیات کے لیے استعمال میں لایا جاتا۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
’غریب شہری کی سواری‘
وزیر اعظم نواز شریف اور اس منصوبے کے خالق پنجاب کے وزیر ا علیٰ شہباز شریف کا کہنا ہے کہ میٹرو بس غریب شہری کی سواری ہے۔ اس سے نہ صرف لاکھوں مقامی شہری فائدہ اٹھائیں گے بلکہ اقتصادی سرگرمیوں میں بھی اضافہ ہو گا۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
دوران تعمیر مشکلات
اس منصوبے کی تعمیر کے دوران راولپنڈی اور اسلام آباد کے شہریوں کو سٹرکوں کی کھدائی، چوراہوں کی بندش اور بہت زیادہ گرد و غبار کی وجہ سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ حکام کے مطابق عوام ایک بار کی تکلیف کے بعد اب مستقل سکھ کا سانس لے سکیں گے۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
سیاسی دھرنوں کا نقصان
میٹرو منصوبے کی تعمیر گزشتہ سال دسمبر میں مکمل ہونا تھی تاہم اگست میں اپوزیشن کی پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے 2013ء کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج اور شاہراہ دستور پر طویل دھرنوں کے سبب بظاہر اس منصوبے کی تعمیر میں مقررہ سے زائد وقت لگا۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
قدرتی ماحول پر برے اثرات کم
اس منصوبے کے لیے درختوں کی کٹائی رکوانے کی خاطر تحفظ ماحول کی تنظیموں نے اسلام آباد ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا تھا۔ حکومت اعلیٰ عدلیہ کو قائل کرنے میں کامیاب رہی کہ اس منصوبے کے قدرتی ماحول پر منفی اثرات بہت کم ہوں گے اور متبادل شجرکاری کا بندوبست بھی کیا گیا ہے۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
عوامی دلچسپی
جمعرات چار جون کے روز کنونشن سینٹر میں میٹرو منصوبے کے افتتاح کے بعد وزیر اعظم نواز شریف نے میٹرو بس میں سفر کیا۔ سکیورٹی کے بہت سخت انتظامات کیے گئے تھے جبکہ مختلف اسٹیشنوں پر عام لوگ بھی میٹرو بسوں کو چلتا دیکھنے کے لیے جمع تھے۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
تاجران پُرامید
میٹرو منصوبے کے راولپنڈی میں ایک حصے کا منظر۔ شہر کے تاجروں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کے باعث سب سے زیادہ مالی نقصان انہوں نے برداشت کیا۔ لیکن اب وہ خوش ہیں اور پُرامید بھی کہ بس سروس شروع ہونے سے ان کا کاروبار چمکے گا۔
تصویر: DW/Shakoor Raheem
13 تصاویر1 | 13
اس عدالتی حکم نامے کو ٹی وی مبصرین اور ماہرین نے سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے دستور کی خلاف ورزی سے تعبیر کیا تھا۔ پاکستانی دستور ہر فرد کو آزادی اظہار رائے کی ضمانت دیتا ہے۔ بعد میں تاہم سپریم کورٹ نے ماتحت عدالت کے اس فیصلے پر ازخود نوٹس دیتے ہوئے کہا تھا کہ فیصلے کی نادرست تشریح کی گئی ہے۔
دوسری جانب جیو ٹی وی کی بندش سے متعلق ڈی پی اے نے دو کیبل آپریٹروں کے حوالے سے لکھا ہے کہ انہیں مبینہ طور پر پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی (انٹر سروسز انٹیلیجنس) کے اہلکاروں کی جانب سے ٹیلی فون کالز موصول ہوئیں، جن میں انہیں جیو ٹی وی کو نشر کرنے سے روکا گیا۔ ایک کیبل آپریٹر نے ڈی پی اے کو بتایا، ’’انہوں نے ہمیں دھمکیاں دیں اور کہا کہ جیو کو بند کر دو ورنہ تمہیں نتائج بھگتنا ہوں گے۔‘‘
واضح رہے کہ جیو ٹی وی پر اس بندش سے متعلق پاکستانی میڈیا پر وزیرداخلہ احسن اقبال نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا تھا کہ میڈیا ریگولیٹری کے ملکی ادارے نے بھی اس بابت کوئی ہدایات جاری نہیں کیں۔