نواز شریف کا پارلیمنٹ سے خطاب، طالبان سے مذاکرات کے لیے کمیٹی تشکیل
29 جنوری 2014بدھ کے روز قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ اس کمیٹی میں ان کے قومی امور پر خصوصی معاون عرفان صدیقی، انٹیلی جنس بیورو کے سابق افسر میجر(ر) محمد عامر، سینیئر صحافی رحیم اللہ یوسفزئی اور افغانستان میں پاکستان کے سابق سفیر رستم شاہ مہمند شامل ہیں۔ وفاقی وزیرِداخلہ چوہدری نثار علی خان اس کمیٹی کی معاونت کریں گے۔
حزبِ اختلاف کی جانب سے کڑی تنقید کے بعد وزیرِ اعظم نواز شریف تقریبا چھ ماہ کے بعد پہلی مرتبہ ایوان میں آئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ طالبان کےساتھ مذاکرات کے عمل کی نگرانی خود کریں گے۔
وزیراعظم نے کہا کہ شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کے لیے قوم ان کے ساتھ ہے لیکن وہ ماضی کو ایک طرف رکھتے ہوئےامن کے لئے مذاکرات کو آخری موقع دینا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہریوں کے جان ومال کا تحفط حکومت کی ذمہ داری ہے۔ شریف کے مطابق قوم سے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ مزید اپنے بچوں کی لاشیں نہیں اٹھا سکتے لیکن امن کی خواہش اور مذاکرات کی جستجو میں سات ماہ تک لاشیں اٹھاتے رہے اور اب امن کی اسی خواہش کے تحت ایک پھر مذاکرات کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ مذاکرات کی یہ پیشکش خلوص دل اور نیک نیتی سے کر رہے ہیں اور اسی طرح کے ردعمل کی توقع بھی رکھتے ہیں۔
قومی اسمبلی میں خطاب میں کے دوران قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا کہ اگر مذاکرات سے دہشتگردی ختم ہوتی ہے تو اپوزیشن حکومت کے ساتھ ہے، حزب اختلاف پاکستان کی سالمیت کے معاملے پر سیاست نہیں کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی ریاست کی سالمیت کو چیلنج ہے اور اگر سات ماہ کے بعد بھی سمھجتے ہیں کہ ڈائیلاگ سے یہ چیز بہتر ہوجائے گی تو انہیں کوئی اعتراض نہیں۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے وزیراعظم کے خطاب پر اپنے ردعمل میں کہا کہ وزیراعظم کے بیان سےالجھاؤختم ہوگیا ہے۔عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ لڑائی پختونوں اور فوج کے درمیان ہے۔ انہوں نے کہا کہ جو لوگ امن کی بات کرتے ہیں وہ طالبان کے حامی نہیں ہیں وہ پاکستان کی نو سال کی تاریخ سے سبق سیکھ کر کہہ رہے ہیں کہ پہلے مذاکرات کی کوشش کریں اس لیے میں اس کو خوش آمدید کہتے ہیں۔
جمیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نواز شریف کے پالیسی بیان نے صورتحال واضح کردی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کا مقصد ملک کے چپے چپے پر آئین اور قانون کی حکمرانی ہے۔
وزیر اعظم نے اس چار رکنی کمیٹی کی جانب سے کام مکمل کرنے کے لئے ٹائم فریم کا اعلان نہیں کیا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق مذاکرات کی اس حکومتی کوشش کی کامیابی یا ناکامی کا دارومدار تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ ملا فضل اللہ کے ردعمل پر ہوگا۔خیال رہے کہ پیرکے روز قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہا تھا کہ ملا فضل اللہ کی قیادت میں کام کرنے والی تحریک طالبان ان مذاکرات کو سبوتاژ کرنا چاہتی ہے اور گزشتہ ہفتے بنوں میں فوجی قافلے پر حملہ اسی مقصد کے لیے کیا گیا تھا۔
رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد
ادارت: عابد حسین