پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور کے نواح میں واقع نواز شریف کے گھر جاتی امرا میں اس وقت پاکستان بھر سے آئے ہوئے ہزاروں لوگ جمع ہیں جو بیگم کلثوم نواز کی وفات پر نواز شریف سے تعزیت کا اظہار کر رہے ہیں۔
اشتہار
نواز شریف کے گھر کو جانے والی سڑک پر میل ہا میل تک گاڑیاں رش میں پھنسی ہوئی ہیں۔ بہت سے لوگ گاڑیوں سے نکل کر پیدل ہی جاتی امرا کی طرف چل رہے ہیں۔ سرسبز درختوں میں گھری شریف خاندان کی رہائش گاہوں کے درمیان ٹینٹ لگا کر مہمانوں سے نواز شریف کی ملاقات کا اہتمام کیا گیا تھا، لیکن پھر پنڈال میں جگہ کم ہونے پر پنڈال کی دیواریں ہٹا کر مہمانوں کو باہر لان میں لے آیا گیا ہے۔ اس وقت مسلم لیگ نون کے کارکن کافی جذباتی دکھائی دے رہے ہیں۔ ظلم کے ضابطے ہم نہیں مانتے کے نعروں سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی ہے۔ اس منظر سے کچھ ہٹ کر ایک جانب جائے نمازیں بچھی ہوئی ہیں۔ ایک طرف مہتاب عباسی نماز پڑھ رہے ہیں تو دوسری طرف کچھ لوگ اجتماعی طور پر دعا مانگ رہے ہیں۔
یہیں پر شاہد خاقان عباسی کو لوگوں میں گھرے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ کچھ فاصلے پر بعض نوجوان سابق اسپیکر اسمبلی ایاز صادق کے ساتھ سلفیاں بنانے پر تلے دکھائی دے رہے ہیں۔ ذرا کچھ دور لان میں آزاد کشمیر کے صدر اور وزیر اعظم اپنی کابینہ کے ساتھ زمین پر بیٹھے ہوئے ہیں۔
گلگت بلتتسان کے وزیراعلیٰ اور لاہور کی اہم کاروباری شخصیات بھی یہاں موجود ہیں جبکہ لاہور کے میئر کرنل مبشر بھی بھیڑ چیر کر نواز شریف تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ خرم دستگیر، سعد رفیق، عمران عزیز کو بھی اسی مجمعے میں دیکھا جا سکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن ، اے این پی کے رہنما غلام احمد بلور بھی اپنی پیرانہ سالی کے باوجود کارکنو﷽ں سمیت موجود ہیں۔ سابق وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری بھی شریف فیملی کے ساتھ اظہار تعزیت کرتے نظر آ رہے ہیں۔
جس طرف خواتین کا انتظام ہے وہاں پر تعزیت کو آنے والی خواتین غمزدہ مریم نواز کو دلاسا دے رہی ہیں۔ یہاں جگنو محسن اور شرف فیملی کی رشتے دار خواتین بھی نظر آ رہی ہیں۔ خواتین قطار بنا کرباری باری مریم نواز سے مل رہی ہیں۔
آج جاتی امرا میں کوئی خاص پروٹوکول یا سیکورٹی دیکھنے میں نہیں آ رہی ہے۔ نواز شریف غمزدہ لیکن حوصلے کے ساتھ مہمانوں سے مل رہے ہیں۔ خاص مہمانوں کو دوسرے کمروں میں بٹھایا جا رہا ہے۔ نواز شریف ان مہمانوں سے ملنے کے لیے مختلف کمروں میں جا رہے ہیں۔ نواز شریف کے گھر کی اوپر والی منزل کے ٹیرس پر کھڑی گھریلو ملازمائیں اور ان کے بچے حیرت سے آج کے مناظر کو تک رہے ہیں۔ 2018 کے ستمبر کا تیرہواں سورج ڈوب چکا ہے لیکن جاتی عمرہ آنے والوں کی آمد کا سلسلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ کچھ لوگ گھنٹوں سے ٹریفک رش میں پھنسے ہوئے ہیں۔
مہمانوں کی آمد سے پہلے نواز شریف گھر سے نکل کر شریف میڈیکل کمپلیکس پہنچے تھے اور انہوں نے کلثوم نواز کی نماز جنازہ اور تدفین کے انتظامات کا جائزہ لیا تھا۔ نماز جنازہ میں شرکت کے لیے یہاں بیس ہزار سے زائد لوگوں کا انتظام کیا گیا ہے۔ عام مہمانوں کو جنازہ گاہ تک آنے کی اجازت ہو گی جبکہ تدفین کے موقع پر صرف خاندان کے افراد ہی موجود ہوں گے۔
کلثوم نواز کی نماز جنازہ جمعرات کو لندن میں بھی ادا کی گئی تھی۔ شہباز شریف کلثوم نواز کی میت لے کر جمعے کے روز لاہور پہنچ رہے ہیں اور یہاں اُن کی نماز جنازہ بھی جمعے ہی کو ادا کی جائے گی۔ بلاول بھٹو کی قیادت میں پیپلز پارٹی کا ایک وفد اور تحریک انصاف کے لوگ بھی نماز جنازہ میں شریک ہونے آ رہے ہیں۔ یہاں میڈیا بھی بڑی تعداد میں نظر آ رہا ہے۔
پاکستانی سیاست دانوں کی ’سیاسی دوستیاں‘
عالمی یومِ دوستی کے موقع پر ڈی ڈبلیو اردو نے موجودہ پاکستانی سیاست دانوں کی آپسی اور غیر ملکی سیاست دانوں سے ’سیاسی دوستیوں‘ پر نظر ڈالی۔ دیکھیے ان سیاسی دوستیوں کی چند تصویری جھلکیاں اس پکچر گیلری میں
تصویر: picture-alliance/dpa/Handout
نواز شریف اور نریندر مودی کی دوستی: فائدہ کم، نقصان زیادہ
اکثر لوگوں کو دشمنی مہنگی پڑتی ہے لیکن پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف کو شاید بھارتی وزیراعظم کی دوستی بھاری پڑی۔ نواز شریف کی نریندر مودی سے پہلی ملاقات ان کی حلف برداری کی تقریب میں 2014ء میں ہوئی۔ اس کے بعد 2015ء میں پیرس میں منعقدہ عالمی ماحولیاتی کانفرنس میں مودی نے نواز شریف کو روک کر مصافحہ کیا۔ چند روز بعد بھارتی وزیراعظم نے افغانستان کے لیے اڑان بھری لیکن پھر اچانک لاہور پہنچ گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Handout
زرداری اور نواز شریف: مفاہمت بھری دوستی
پاکستان میں مفاہمت کی سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی آصف علی زرداری نے اپنے دور صدارت میں قائد حزب اختلاف نواز شریف کو خود سے دور کم اور قریب زیادہ رکھا۔ دونوں کے مابین اسی ’سیاسی دوستی‘ کی وجہ سے ملک میں پہلی مرتبہ ایک جمہوری حکومت نے پانچ سال مکمل کیے۔
تصویر: AP
شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن
الیکشن 2018ء میں دھاندلی کے مبینہ الزامات کے بعد پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمٰن کے درمیان قربتیں بھی بڑھتی دکھائی دے رہی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی جیت کے خلاف آل پارٹیز کانفرنس کے دوران ان دونوں سیاستدانوں کی دوستی کتنی مستحکم ہوئی، یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Mughal
عمران خان کی نریندر مودی سے ملاقات
عمران خان نے ماضی میں نریندر مودی اور نوازشریف کی ملاقاتوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا لیکن جب خود انہیں بھارتی وزیر اعظم سے ملاقات کا موقع ملا تو وہ ٹال نہ سکے۔ رپورٹوں کے مطابق انہوں نے نریندر مودی کو پاکستان آنے کی دعوت بھی دی تھی۔ وزیراعظم مودی کی جانب سے عمران خان کو انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد بھی موصول ہوچکی ہے۔ اب دیکھیے ان دونوں کی ’دوستی‘ کیا رخ اختیار کرتی ہے؟
تصویر: MEA India
مشرف اور واجپائی: ایک تاریخ ساز مصافحہ
سن 2002 میں نیپال کے دارالحکومت کٹھمنڈو میں منعقدہ سارک سربراہ کانفرنس کے دوران اس وقت کے پاکستانی صدر پرویز مشرف اور بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے درمیان مصافحے کو ’تاریخ ساز مصافحہ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ برِ صغیر کے چند ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے ان رہنماؤں کے مابین مذاکرات کوئی حتمی صورت اختیار کر لیتے تو شاید کشمیر پر تنازعہ کسی حل کی جانب بڑھ رہا ہوتا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Macdougall
’پاک چین دوستی زندہ باد‘
1951ء میں پاک چین سفارتی تعلقات کی بنیاد رکھی گئی، جس کے بعد پاکستان میں چین کی دوستی کی بات ہر پاکستانی سیاستدان کرتا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبےمیں چین کی جانب سے پاکستان میں کی گئی سرمایہ کاری نے دونوں ممالک کے تعلقات مزید مستحکم کیے ہیں۔ پاکستان کےآئندہ ممکنہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریر میں چین کا شکریہ ادا کیا اور پاکستان کی غیرمستحکم معیشت کو سنبھالنے میں چین کے کردارکو سراہا۔