نواز شریف کی پالیسیوں سے واشنگٹن کی توقعات
13 مئی 201390ء کی دہائی میں جب میاں نواز شریف دو مرتبہ وزیر اعظم بنے تھے، تب پاکستان کو اندرونی دہشت گردی کا سامنا نہیں تھا۔ نواز شریف طالبان عسکریت پسندوں کے ساتھ امن مذاکرات کی مہم کے حامی رہے ہیں، جن پر گزشتہ سات برسوں میں ہزاروں انسانوں کی ہلاکت کا الزام ہے۔
حالیہ انتخابات میں نواز شریف کی کامیابی کی اہم ترین وجوہات میں سے ایک اس امر کو سمجھا جا رہا تھا کہ اُن کی حریف جماعت، حکمران پیپلز پارٹی اور اُس کی قریبی ترین اتحادی جماعتوں کے اہلکاروں پر طالبان کے حملوں اور انہیں دہشت گردی کا نشانہ بنانے کی دھمکیوں کے سبب ان جماعتوں کی انتخابی مہم بہت حد تک متاثر ہوئی تھی۔ تاہم الیکشن میں نواز شریف کی جیت پر اس کے اثرات سے متعلق پایا جانے والا یہ خیال بھی اب خطرے میں ہے۔
شریف جنہیں، مسلم انتہا پسندی سے نمٹنے کے علاوہ ملکی اقتصادی زبوں حالی اور توانائی کے بحران جیسے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے، نے اپنی کامیابی کے فوراً بعد ہی مغرب کے ممکنہ خدشات کو دور کرن کے لیے بیانات دینے شروع کر دیے تھے۔
ہفتہ 11 مئی کو ہونے والے انتخابات میں ایک فاتح کے طور پر ابھرنے والے نواز شریف نے اتوار کو ’سنڈے ٹیلی گراف‘ کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا، ’سب سے اہم امر یہ ہے کہ ہم تشدد اور دنیا کے کسی بھی ملک کے ساتھ مسائل پیدا کرنے کا سبب بننے والے عناصر کو اپنی سر زمین استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں‘۔
اتوار ہی کو امریکی صدر باراک اوباما نے ایک بیان میں کہا تھا کہ واشنگٹن پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ اشتراک عمل کے لیے تیار ہے۔ اُن کے بقول،’امریکا برابری کے پارٹنر کی حیثیت سے پاکستانی عوام کے ایک مستحکم، محفوظ اور خوشحال مستقبل کے لیے کام کرے گا‘۔
امریکی سینیٹ کی بیرونی تعلقات سے متعلق کمیٹی کے شعبہء جنوبی ایشیا کے سابق ڈائریکٹر جوناہ بلینک نے کہا ہے کہ، ’شریف حکومت واشنگٹن انتظامیہ کے ساتھ پُر سکون اور اچھے ماحول میں کام کر سکے گی‘۔ ان کا مزید کہنا تھا،’مجھے کوئی ایسا ثبوت نظر نہیں آ رہا، جس سے نواز شریف کے ایک انتہا پسند لیڈر ہونے کا تاثر ملے۔ نہ ہی اُن کے بیانات میں امریکی مخالفت یا اسلام پسندی کی ایسی جھلک نظر آ رہی ہے، جو اُن کی پالیسی میں کسی واضح تبدیلی کا پیش خیمہ ہو‘۔
پاکستان کے شمال مغربی صوبے خیبر پختونخواہ میں نواز شریف کی پارٹی مسلم لیگ ن کی کمزور کارکردگی اور کرکٹ اسٹار عمران خان کی کامیابی، جن کا عوام سے یہ وعدہ تھا کہ وہ امریکی ڈرون حملوں اور پاکستانی فوج کے آپریشن بند کروا دیں گے، اس طرف ایک اور اشارہ ہے کہ نواز شریف کی پالیسیاں سابقہ حکومت سے کچھ مختلف ہیں۔
نواز شریف نے 2009ء میں وادیء سوات اور قبائلی علاقے وزیرستان میں پاکستانی طالبان کے خلاف ہونے والے ایک بڑے آپریشن کی کُھل کر حمایت کی تھی۔ نواز شریف کی سابق کابینہ کے ایک وزیر اور مسلم لیگ ن کے ایک پُرانے وفادار سرتاج عزیز نے شمال مغربی صوبے میں حکمت عملی میں کسی واضح تبدیلی کے امکان کو رد کر دیا ہے۔ اُن کے بقول،’نواز شریف کا زور سب سے زیادہ اس امر پر ہے کہ ہم ایسے عناصر کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات کی پیشکش کو قبول نہیں کرتے، جو ہمارے آئین، ہماری پارلیمان اور ہماری عدلیہ کو تسلیم نہیں کرتے‘۔ سرتاج عزیر نے مزید کہا کہ ضرورت ایک جامع حکمت عملی کی ہے، جو ملٹری ایکشن اور مذاکرات دونوں پر مشتمل ہو‘۔
پاکستان کی سابقہ حکومتیں اور فوج مغربی قبائلی پٹی سے تعلق رکھنے والے باغیوں کے مختلف گروپوں کے ساتھ وقتی امن سمجھوتے کرتے رہے ہیں، جو زیادہ تر نا کام ہی رہے ہیں۔
km/aa(AFP)