نواز شریف کی چار سال بعد پاکستان واپسی
20 اکتوبر 2023تہتر سالہ نواز شریف سن 1990 میں پہلی بار وزیر اعظم بنے تھے۔ وہ ملک کے تین بار وزیر اعظم بنے لیکن ایک مرتبہ بھی اپنی مدت پوری نہیں کر سکے۔ ان کی حالیہ جلاوطنی سے واپسی تک کے واقعات پر ایک نظر!
اپریل 2016: پاناما کی ایک قانونی فرم کی لاکھوں دستاویزات لیک ہو گئیں۔ نام نہاد پانامہ پیپرز میں شریف خاندان کی آف شور کمپنیوں کا پتہ چلا، جن کے ذریعے لندن میں جائیدادیں خریدی گئی تھیں۔ نواز شریف، جو سن 2013 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد تیسری بار وزیر اعظم بنے تھے، ان الزامات کا انکار کرتے رہے۔
لیکن پاکستان میں ان کے اہم حریف اور کرکٹر سے سیاست دان بننے والے عمران خان نے ان کے خلاف مقدمہ درج کرایا۔
28 جولائی 2017: سپریم کورٹ نے نواز شریف کو اپنے بیٹے کی ملکیت والی کمپنی سے آمدن ظاہر نہ کرنے پر بدعنوان قرار دیتے ہوئے انہیں وزارت عظمیٰ سے نااہل قرار دے دیا۔ نواز شریف اسی دن اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے۔ اس کے بعد جلد ہی وہ اپنی اہلیہ کی دیکھ بھال کے لیے لندن روانہ ہو گئے، جو اس وقت وہاں علاج کروا رہی تھیں۔
13 اپریل 2018: سپریم کورٹ نے اپنی نوعیت کے پہلے فیصلے میں نواز شریف پر سیاست میں حصہ لینے یا کوئی بھی عوامی عہدہ رکھنے پر تاحیات پابندی عائد کر دی۔
پانچ جولائی 2018: انسداد بدعنوانی کی ایک عدالت نے نواز شریف کو ان کی غیر حاضری میں 10 سال قید کی سزا سنائی۔ وہ اور ان کی صاحبزادی مریم نواز، جنہیں ان کے حامی ان کی سیاسی وارث کے طور پر دیکھتے ہیں، 1990 کی دہائی میں لندن میں جائیدادیں خریدنے کے لیے استعمال ہونے والی رقوم کا ذریعہ ثابت کرنے میں ناکام رہنے کے بعد سے سزا یافتہ ہیں۔
کیا نواز شریف فی سبیل اللہ واپس آ رہے ہیں؟
12 جولائی 2018: نواز شریف اور ان کی بیٹی اپنے آبائی شہر اور سیاسی گڑھ لاہور واپس آئے۔ انہیں ایئرپورٹ پر ہی گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔
25 جولائی 2018: نواز شریف کے مرکزی حریف عمران خان نے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عمران خان اس وقت فوج کے فیورٹ تھے اور اسی وجہ سے وہ حکومت میں آئے لیکن خان اور فوج دونوں ہی اس الزام کی تردید کرتے ہیں۔
24 دسمبر 2018: نوازشریف کو بدعنوانی کے ایک اور کیس میں سزا سنا دی گئی۔ انہیں اس کیس میں سات سال قید اور 25 ملین ڈالر جرمانے کی سزا ہوئی۔ نواز شریف کے مطابق سعودی عرب میں ایک اسٹیل مل کی ملکیت سے منسلک الزامات سراسر سیاسی تھے۔
19 نومبر 2019: عدالت کی جانب سے انہیں طبی علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی گئی۔ یہ شرط بھی رکھی گئی کہ وہ صحت یاب ہونے پر واپس آ جائیں لیکن اس کے بعد وہ واپس نہیں آئے۔
10 اپریل 2022: سکیورٹی تقرریوں پر فوج کے ساتھ اختلافات کے بعد پارلیمان میں عدم اعتماد کے ووٹ میں عمران خان کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف وزیراعظم بن گئے۔
نو مئی 2023: انسداد بدعنوانی ایجنسی نے عمران خان کو گرفتار کر لیا، جس کے بعد ان کے حامیوں کی طرف سے پرتشدد مظاہرے ہوئے۔ ملک کی طاقتور فوج اور عمران خان کے حامیوں میں اختلافات شدید ہوتے گئے اور ملک بھی مالی بحران کا شکار ہوتا گیا۔
نو اگست 2023: شہباز شریف کی حکومت نے اپنی مدت مکمل کی اور اقتدار ایک نگران انتظامیہ کو سونپ دیا، جو ملک میں عام انتخابات کرانے کی ذمہ دار ہے۔
21 ستمبر 2023: الیکشن کمیشن نے اعلان کیا کہ وہ جنوری 2024 کے آخر تک عام انتخابات کرانے کے لیے تیار ہے۔
19 اکتوبر 2023: ایک عدالت نے ضمانت فراہم کرتے ہوئے ملکی حکام کو نواز شریف کو واپسی پر گرفتار کرنے سے روک دیا۔ ان کے وکیل کا کہنا ہے کہ نواز شریف اپنی سزاؤں کے خلاف اپیل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کی پارٹی نے کہا ہے کہ اگر عدالتی سزا منسوخ کر دی گئی تو وہ عام انتخابات میں حصہ بھی لیں گے۔
ا ا / ک م (روئٹرز)