1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نوبل امن انعام یافتہ ’جنگی صدر‘، ایک تجزیہ

عاطف بلوچ1 ستمبر 2013

جو کبھی امن کا طالب تصور کیا جاتا تھا، اسے اب جنگی صدر کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ یہ وہی شخصیت ہے، جس نے امن کا نوبل انعام حاصل کیا لیکن اب وہ بغیر پائلٹ کے طیاروں کے حملوں کے ذریعے موت کے احکامات بھی جاری کر رہا ہے۔

تصویر: picture-alliance/dpa

تین ماہ قبل امریکی صدر باراک اوباما نے اصرار کیا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جمہوریت کی خاطر بارہ سالہ جنگ مسلسل جاری نہیں رکھی جا سکتی اور اسے جلد ہی ختم کر دیا جانا چاہیے۔ تئیس مئی کو نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے اوباما نے کہا تھا، ’’دہشت گرد تنظیموں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے ہماری انتظامی کوشش جاری رہنا چاہیے۔۔۔ لیکن دیگر جنگوں کی طرح دہشت گردی کے خلاف جاری یہ جنگ بھی ختم ہونا چاہیے۔ تاریخ ہمیں یہی سبق دیتی ہے۔ ہماری جمہوریت ہم سے یہی تقاضا کرتی ہے‘‘۔

شامی صدر کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کے الزامات رد کرتے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa

اوباما کے اس بیان کو قریب تین ہی مہینے کا عرصہ گزرا تھا کہ اکتیس اگست بروز ہفتہ انہوں نے کہا کہ وہ شام کے خلاف فوجی کارروائی کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شامی صدر کی طرف سے زہریلی گیس کے استعمال پر انہیں سزا دی جانا ضروری ہے تاکہ وہ آئندہ ایسا کرنے سے باز رہیں۔

اوباما نے یہ اعلان کرتے ہوئے مزید کہا، ’’میں ایسے افراد کی رائے کا احترام کرتا ہوں جو اس حوالے سے احتیاط پسندی پر زور دیتے ہیں، بالخصوص میں خود بھی ایک ایسے وقت پر ملک کا صدر منتخب کیا گیا تھا، جب امریکا دہشت گردی کے خلاف بین الاقوامی جنگ لڑ رہا تھا اور میرے منتخب کیے جانے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میں یہ جنگ ختم کر سکوں۔‘‘ انہوں نے البتہ یہ بھی کہا کہ شام کی صورتحال پر خاموش نہیں رہا جا سکتا۔

شام میں خانہ جنگی کے آغاز پر ہی صدر اوباما نے وہاں نظر آنے والے تشدد کی مذمت کرتے ہوئے صدر بشار الاسد پر زور دیا تھا کہ وہ اقتدار سے الگ ہو جائیں۔ اُس وقت اوباما نے یہ بھی کہا تھا کہ واشنگٹن حکومت شام کی خانہ جنگی میں مداخلت نہیں کرنا چاہتی۔ تاہم ایک برس قبل انہوں نے واضح انداز میں کہا تھا کہ اگر اسد حکومت باغیوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کرے گی، تو اسے ’ریڈ لائن‘ تصور کیا جائے گا۔ اب امریکی حکام نے تصدیق کر دی ہے کہ صدر اسد کی فورسز کیمیائی ہتھیار استعمال کرتے ہوئے امریکی صدر کی طرف سے لگائی گئی سرخ لکیر کو عبور کر چکی ہیں۔

تاہم اقوام متحدہ کی طرف سے خاموشی اور غیر متوقع طور پر برطانیہ کی طرف سے بھی شام پر حملے میں شمولیت سے احتراز کے بعد امریکی صدر عالمی سطح پر کچھ اکیلے سے ہو گئے ہیں۔ جرمنی کے علاوہ متعدد یورپی ممالک بھی شام پر حملے کی مخالفت کر رہے ہیں جب کہ روس نے تو اس حوالے سے باقاعدہ خبردار بھی کر دیا ہے۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ صدر بش کو عراق پر حملہ کرنے سے قبل جس طرح کی بین الاقوامی حمایت حاصل تھی، ویسا حوصلہ افزا جواب شام کے معاملے پر اوباما کو نہیں ملا۔ ملکی سطح پر بھی اوباما دباؤ میں محسوس کیے جا سکتے ہیں۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے لکھا ہے کہ اوباما شام میں زمینی کارروائی کو خارج از امکان قرار دے چکے ہیں جب کہ وہ کروز میزائلوں کا استعمال کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ تاہم عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح محدود سطح پر عسکری کارروائی سے آخر کیا حاصل کیا جا سکتا ہے؟

اوباما نے 2009ء کے صدارتی انتخابات میں نعرہ بلند کیا تھا کہ وہ اقتدار میں آتے ہی عراق سے امریکی فوجی واپس بلا لیں، گوانتانامو کی جیل بند کر دیں گے اور خوشحالی کا ایک نیا دور شروع کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن دیکھا جائے تو اب بش انتظامیہ کے خاتمے کے کئی سال بعد بھی صورتحال حوصلہ افزا نہیں ہے۔ لیکن یہ بات بھی قابل غور ہے کہ اوباما نے کبھی بھی یہ نہیں کہا کہ وہ جنگوں کے خلاف ہیں۔ تاہم وہ بے مقصد لڑی جانے والی جنگوں کی کھلی مخالفت کرتے ہیں۔

اوباما نے صدارتی عہدہ سنبھالتے ہی عراق کی جنگ کے بجائے افغان جنگ پر توجہ مرکوز کر لی تھی۔ اسی دوران انہوں نے بش انتظامیہ کی طرف سے شروع کردہ ڈرون حملوں میں اضافے کے حکم نامے پر بھی دستخط کر دیے۔ صدر اوباما نے 2011ء میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی طرف سے لیبیا پر کیے جانے والے فضائی حملوں کا بھی بھرپور ساتھ دیا تھا۔

ناقدین کے بقول صدر اوباما نے شروع ہی سے شام میں فوجی مداخلت نہ کرنے کا عزم کر رکھا تھا تاہم اب یہی معاملہ ان کی انتظامیہ کے لیے ایک چیلنج بن کر کھڑا ہو چکا ہے۔ اب شام میں عسکری کارروائی پر اوباما سیاسی سطح پر مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں۔ ابھی انہوں نے مزید تین سال تک وائٹ ہاؤس میں رہنا ہے۔ امریکا میں جنگ مخالف گروپوں نے نہ صرف 2008ء میں بلکہ گزشتہ نومبر میں بھی اوباما کی انتخابی مہم میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اب انہیں اس حوالے سے کوئی بھی قدم اٹھاتے ہوئے یہ خیال رکھنا ہو گا کہ وہ اپنے حامیوں کو ناراض کر سکتے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں