1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نوبل انعام یافتہ توکل کرمان پر کیچڑ اچھالنے کی مہم

14 مئی 2020

یمن کی نوبل امن انعام یافتہ توکل کرمان کو فیس بک نگہہ داری بورڈکا رکن مقرر کیے جانے کے بعد سے عرب سرکاری میڈیا اور سوشل میڈیا صارفین کے نشانے پر ہیں، جوان پر اسلام پسندوں سے تعلق رکھنے کا الزام لگارہے ہیں۔

Türkei Istanbul 2015 | Tawakkul Karman, Friedensnobelpreisträgerin
تصویر: picture-alliance/Anadolu Agency/E. Ozturk

2011میں امن کے لیے نوبل انعام حاصل کرنے والی توکل کرمان کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے فیس بک کے نئے 20رکنی نگہداری بورڈ کا ایک ممبر نامزدکیے جانے کے بعد سے ہی انہیں دھمکایا جارہا ہے اور بدنام کرنے کے لیے میڈیا مہم شروع کردی گئی ہے۔

نوبل امن انعام، تین خواتین کے نام

ملالہ سے اتنی ’نفرت‘ کیوں ؟

فیس بک نے یہ نیم آزاد پینل سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر اس کے گائیڈ لائنز اور قدروں پر عمل درآمدکو یقینی بنانے اور نفرت پر مبنی تقاریر جیسے  متنازعہ امور کی اشاعت کے حوالے سے فیصلہ کرنے کے لیے بنایا ہے۔

تاہم بورڈ کو سیاسی اثر و رسوخ کا حامل بھی قرار دیا گیا ہے جس کے بعد بعض عرب میڈیا نے کرمان کے خلاف یہ الزام تراشی شروع کردی  کہ چونکہ ان کا اخوان المسلمین سے مبینہ طور پر تعلق ہے اس لیے ان کے فیصلے سیاسی اسلام کی وکالت کرنے والی اس تنظیم کے نظریات سے متاثر ہوسکتے ہیں۔

توکل کرمان کو مخاطب کرتے ہوئے انگلش اور عربی میں کیے گئے ٹوئٹس میں انہیں ”دہشت گرد“  اور ”قطر کا کتا" کہا گیا ہے۔ خیال رہے کہ قطر کو اخوا ن المسلمین کے تئیں ہمدردی رکھنے والا ملک سمجھا جاتا ہے۔

توکل کرمان مختلف عالمی فورمز پر انسانی حقوق کے لیے آواز بلند کرتی رہی ہیںتصویر: DW/Emiliano Levario Saad

کرمان نے پچھلے دنوں ٹوئٹر پر لکھا کہ انہیں امید ہے کہ ان کا حشر جمال خاشقجی جیسا نہیں ہوگا۔ خیال رہے کہ سعودی صحافی خاشقجی کومبینہ طور پر سعودی شاہی خاندان کی ایما پر 2018میں ترکی میں سعودی سفارتی عمارت میں قتل کردیا گیا تھا تاہم ان کی لاش آج تک نہیں ملی ہے۔

خطے کی متعدد آمرانہ حکومتوں کے میڈیا ادارے توکل کرمان پر اخوان المسلمون سے قریبی تعلق رکھنے کا الزام عائد کررہے ہیں۔ دراصل کرمان ماضی میں یمن میں اصلاح نامی سیاسی جماعت کی رکن رہ چکی ہیں، جو اخوان سے قریب ہے۔

 

مصر اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے جب کہ سعودی عرب اور متحدہ عر ب امارات اسے علاقائی برتری میں اپنا حریف اور اپنے اقتدار کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔

سعودی عرب سے شائع ہونے والے روزنامہ عرب نیوز نے سیاسی تجزیہ کار غانم نصیبہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ فیس بک کے انتہاپسندانہ اسلامی نظریہ کے لیے ایک پسندیدہ پلیٹ فارم بن جانے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔

تاہم بہت سے دیگر دانشور اور تجزیہ کار اس خیال سے متفق نہیں ہیں۔ یونیورسٹی آف مائنز میں عرب دنیا پر تحقیق کے مرکز کے سربراہ گنٹر مائر کہتے ہیں کہ کرمان کا نوبل انعام اور اظہار رائے کی آزادی اور جمہوریت کے دفاع  کے لیے ان کے کام اور بالخصوص عرب دنیا میں خواتین کے لیے ان کی خدمات فیس بک کے پینل میں ان کی تقرری کو ’پوری طرح جائز‘ ٹھہراتے ہیں اور اصلاح کی سابقہ رکنیت کو ان پر حملے کے لیے محض آڑ کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔

مائر کا مزید کہنا تھا کہ 2018میں کرمان کوپارٹی سے اس لیے نکال دیا گیا تھا کیوں کہ انہوں نے یمن کی جنگ میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی مداخلت کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ اس وقت اصلاح سعودی عرب سے اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کر رہی تھی۔

حقوق انسانی کی علمبردار توکل کرمان ماضی میں بھی اپنے بیانات سے بہت سے حکمرانوں کو ناراض کرچکی ہیں۔2011میں انہوں نے اس وقت کے یمن کے صدر علی عبداللہ صالح کے خلاف مظاہروں میں حصہ لیا تھا اور ان پر جمہوری اصلاحات کو روکنے، بڑے پیمانے پر بدعنوانی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے کے الزامات عائد کیے تھے۔

2018میں انہوں نے ایک قطری نیوز چینل کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات یمن پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور اپنے اثرو رسوخ نافذ کرنا چاہتے ہیں اور ان دونوں ملکوں کے حکمرانوں کو بین الاقوامی عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا جانا چاہیے۔

بس اب بہت ہو گیا!

03:38

This browser does not support the video element.

2013میں جب مصر میں فوج نے اخوان المسلمون کے رکن صدر محمد مرسی کا تختہ پلٹ دیا تو توکل کرمان نے برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اخوان المسلمون اور اس کے حامی، جو فوجی حکومت کی مخالفت کرتے ہیں، وہ اپنے خون، عزم و حوصلے سے ایک بار پھر انقلاب برپا کردیں گے۔

گنٹر مائر کا خیال ہے کہ کرمان کا یہ بیان دراصل انسانی حقوق کی حمایت میں تھا۔ کیوں کہ اخوان المسلمون کے ہزاروں کارکنوں کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا تھا اور انہیں جیلوں میں ڈال دیا گیا تھا ان میں سے بہت سے مقدمہ چلائے بغیر برسوں قید میں رہے۔ اسی لیے کرمان نے ان کے حق میں عوامی طور پر آواز بلند کی تھی۔

بہرحال ایک طرف جہاں کرمان کے خلاف مہم چلائی جارہی ہے وہیں دوسری طرف ان کے حمایت میں بھی بہت ساری آوازیں بلند ہورہی ہیں۔

قطر کے حماد بن خلیفہ یونیورسٹی میں مڈل ایسٹ اسٹڈیز کے پروفیسر مارک اوین جونس کہتے ہیں، ’’کرمان کے خلاف یہ مہم دراصل ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی ایک منظم کوشش ہے۔ اور اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ان ملکو ں کی حکومتیں سوشل میڈیا کو کتنی سنجیدگی سے لیتی ہیں۔“

کرمان کے رفیق کار یمنی صحافی سمیر النمیری بھی اس خیال سے متفق ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ”توکل کرمان کے خلاف نکتہ چینی کرنے والے حکومت کے بالخصوص اس حلقے سے تعلق رکھتے ہیں جو عوام کی امنگوں کے مخالف ہیں۔“

کیرسٹین کنِپ، اسماعیل اعظم، ج  ا، ع ت 

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں