نائجیریا نے مطالبہ کیا ہے کہ اُن چھبیس لڑکیوں کی ہلاکت کی عالمی سطح پر تحقیقات کی جائیں، جو براستہ سمندر یورپ پہنچنے کی کوشش میں بحیرہ روم میں ڈوب گئی تھیں۔
تصویر: Reuters/D. Siddiqui
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے نائجیریا کے حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان لڑکیوں کی لاشوں کو گزشتہ اتوار ایک ہسپانوی بحری جہاز کے ذریعے اٹلی منتقل کیا گیا تھا۔ یقین ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان تمام خواتین کا تعلق نائجیریا سے ہی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اطالوی متعلقہ حکام چھان بین جاری رکھے ہوئے ہیں کہ ان خواتین اور لڑکیوں کی ہلاکت کن حالات میں ہوئی تھی۔
اطالوی حکام نے بتایا ہے کہ ان میں سے تئیس مہاجر خواتین کی ہلاکت بروز جمعہ اس وقت ہوئی تھی، جب ان کی کمزور کشتی طاقتور سمندری لہروں کے آگے بے بس ہو گئی تھیں۔ دیگر تین خواتین کی لاشیں ایک ہفتہ قبل ایک سرچ آپریشن کے دوران برآمد ہوئی تھیں۔ نائجیریا کے وزیر خارجہ نے روم حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ ہلاک ہونے والی ان تمام لڑکیوں کی عمریں چودہ تا اٹھارہ برس ہیں۔
ابوجہ حکومت نے ان لڑکیوں کی ہلاکت کو انتہائی افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ خبر تمام ملک کے لیے ایک صدمے کا باعث بنی ہوئی ہے۔ اطالوی تحقیقات کاروں نے کہا ہے کہ اس چھان بین میں تمام تر پہلوؤں کا مد نظر رکھا جا رہا ہے تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ ان لڑکیوں کو جسم فروشی کی غرض سے اٹلی منتقل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔
دوسری طرف نائجیریا میں انسانوں کی اسمگلنگ کے خلاف فعال ایک گروپ NAPTIP نے بھی اس واقعے کی سخت مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اقوام متحدہ کو اس حوالے سے کی جانے والی تحقیق کا حصہ بننا چاہیے۔ لیبیا کا ساحلی علاقہ انسانوں کے اسمگلروں کے لیے انتہائی اہم قرار دیا جاتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے، جہاں سے غیرقانونی مہاجرین انسانوں کے اسمگلروں کی مدد سے بحیرہ روم کے راستے اٹلی جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرت IOM کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق رواں برس شمالی افریقہ سے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد تقریبا ایک لاکھ پچپن ہزار بنتی ہے، جن میں سے 75 فیصد سمندری راستوں سے ہی اٹلی پہنچے۔ اس عالمی ادارے کے مطابق یکم جنوری تا پانچ نومبر کے اعدادوشمار کے مطابق 2715 افراد سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہوئے ہیں۔
یونانی جزیرے لیسبوس کا موریا کیمپ، مہاجرین پر کیا گزر رہی ہے
لیسبوس کے یونانی جزیرے پر پھنسے ہوئے تارکین وطن کو حالات مزید خراب ہونے کی توقع ہے۔ انسانی بنیادوں پر سہولیات مہیا کرنے والی کئی غیر سرکاری تنظیمیں یا تو اپنا کام سمیٹ کر جانے کی تیاری میں ہیں یا پہلے ہی رخصت ہو چکی ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
ایجئین میں پھنسے مہاجرین
مہاجرین کی مد میں نجی فلاحی تنظیموں کو یورپی یونین کی جانب سے دی جانے والی فنڈنگ رواں برس اگست میں ختم ہو گئی تھی۔ تب سے یونانی حکومت ہی جزائر پر مقیم پناہ گزینوں کی تنہا دیکھ بھال کر رہی ہے۔ تاہم نہ تو ان مہاجرین کی منتقلی کا کوئی واضح پلان ہے اور نہ ہی اب یہاں مہاجرین کو فراہم کی جانے والی سہولیات میں کوئی تسلسل رہ گیا ہے۔
تصویر: DW/V. Haiges
نہ یہاں نہ وہاں
موریا کا مہاجر کیمپ اور تارکین وطن کے لیے بنائے گئے دوسرے استقبالیہ مراکز میں اب مہاجرین کے نئے گروپوں کو سنبھالنے کی استطاعت نہیں رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں تناؤ کی کیفیت بڑھ رہی ہےاور انفرادی سطح پر ہونے والے جھگڑے جلد ہی نسلی گروپوں کے درمیان سنجیدہ نوعیت کی لڑائی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
حفظان صحت کی سہولتیں
موریا کے باہر عارضی نوعیت کے غسل خانے کے باہر استعمال شدہ شیمپو اور پانی کی بوتلوں کا ڈھیر پڑا ہے۔ موریا مہاجر کیمپ میں حفظان صحت کی سہولتوں کے فقدان کے باعث بہت سے لوگوں نے صفائی ستھرائی کے لیے دوسرے امکانات تلاش کرنے شروع کر دیے ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
فیصلے کا انتظار
اریٹیریا کے تارک وطن امان نے اپنے خیمے میں چائے یا پانی کا نہ پوچھنے پر معذرت کی ۔ وہ تین ماہ سے اپنی پناہ کی درخواست پر فیصلے کا منتظر ہے۔ امان کا کہنا ہے کہ موریا کیمپ کے اندر کافی زیادہ مسائل ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
’ہم انسان ہیں‘
اس تصویر میں ایک افغان مہاجر موریا مہاجر کیمپ میں ابتر رہائش کی صورتحال کے خلاف احتجاج کے لیے پلے کارڈ بنا رہا ہے۔ احتجاج کرنے والے بیشتر پناہ گزین قریب ایک سال سے لیسبوس پر ہیں اور اپنی درخواستوں پر فیصلوں کا انتظار کر رہے ہیں۔ معلومات کی کمی، ابتر رہائشی صورت حال اور افغانستان واپس بھیجے جانے کا خوف ان تارکین وطن کو مستقل وسوسوں میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔
تصویر: DW/V. Haiges
یونان بھی مجبور
لیسبوس کے افغان مہاجرین مجوزہ احتجاج پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔ مہاجرین کے بحران کی وجہ سے لیسبوس کے جزیرے پر سیاحوں کی آمد میں سن 2015 کی نسبت قریب 75 فیصد کم ہوئی ہے۔ یونان میں جاری اقتصادی بحران نے بھی جزیرے کے حالات پر گہرے منفی اثرات ڈالے ہیں۔
تصویر: DW/V. Haiges
ہر روز نئے تارکین وطن کی آمد
سن 2015 سے ہی مہاجرین پر لازم ہے کہ وہ اپنی پناہ کی درخواستوں پر حتمی فیصلے تک جزیرے پر رہیں گے۔ متعدد درخواستوں کو روکنے اور اپیل کے طویل عمل کے سبب تارکین وطن کی ایک مختصر تعداد کو فائدہ حاصل ہوتا ہے۔