نومنتخب امریکی صدر سے مشرق وسطیٰ کی توقعات
24 دسمبر 2008لبنان میں شیعہ ملیشیا عمل کی مرکزی کمیٹی کے Nasrallah Mohammad Deeb کا کہنا ہے: ہم امید کرتے ہیں کو اوباما کی زیر قیادت امریکی پالیسیوں میں مثبت تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ لبنان اور فلسطینی علاقوں میں جو کچھ ہوا، اسرائیل جس طرح سے امریکی ہتھیاروں کی مدد سے ہم پر چڑھ دوڑا، امریکی فوج کی عراق اورافغانستان پر جارحانہ کارروائیاں اور گذشتہ آٹھ برسوں سے ہمارے علاقے میں پیش آنے والے واقعات یہ سب کچھ ہم کبھی نہیں بھول سکتے۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اوباما بہتر پالیسیاں اپنائیں گے، ہم خونریزی اور بم دھماکوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
خود حزب اللہ بھی نئے امریکی صدر سے امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہے۔ تنظیم کے شعبہ بین الااقوامی تعلقات کےترجمان Nawaf al Mousawi کا کہنا ہے: امریکہ پہلے کی طرح آئندہ بین الااقوامی سٹیج پر واحد عالمی طاقت کا کردار ادا نہیں کر سکے گا، اپنی سیاسی اور اقتصادی مشکلات کی وجہ سے وہ اب اس قابل نہیں رہا۔ ہو سکتا ہے کہ نئے صدرموجود حقائق سے عہدہ برا ہونے کے لئے بہتر صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں۔
عرب ممالک اوباما کے پس منظر کی وجہ سے بھی ان سے امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ ان کے والد کا تعلق کینیا سے تھا۔ بچپن میں وہ انڈونیشیا میں رہے۔ صدر بش کے مقابلے میں وہ دوسرے ملکوں کی پالیسیوں اور ثقافتوں کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔
بیروت کے مطالعاتی مرکز برائےعرب یک جہتی سے وابستہ خیر الدین حسیب کو یقین ہے کہ عراق سے متعلقہ امریکی پالیسیوں میں تبدیلیاں رونما ہوں گی انہوں نے کہا: آخری عوامی جائزوں نے اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ عراقیوں کی بھاری اکثریت یہ چاہتی ہے کہ امریکی فوج یہاں سے نکل جائے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ یہ لوگ فوراً چلے جائیں اور بعض کا کہنا ہے کہ انہیں چند ماہ بعد تک چلے جانا چاہیے۔ خود امریکی عوام کی اکثریت بھی یہی چاہتی ہے کہ ان کے فوجی عراق سے واپس آ جائیں۔
حسیب کے خیال میں عراق سے امریکی انخلاء کے بعد یہ ملک جلد اپنے پاؤں پر کھڑا ہو سکتا ہے۔