نومنتخب صومالی وزیر اعظم مستعفی ہو گئے
25 دسمبر 2008صومالیہ کے صدر عبداللہ یوسف ایک سال کے عرصے میں دو وزرائے اعظم کو برخاست کرچکے ہیں لیکن نومنتخب وزیر اعظم محمد محمود کے مستعفی ہونے کے بعد صدارتی ترجمان نے کہا ہے کہ صدر عبداللہ یوسف بھی 27 دسمبر کو مستعفی ہوجائیں گے۔
اس سے قبل محمد محمود نے صحافیوں کو بتایا کہ اس وقت خطے میں امن عمل چل رہا ہے اور وہ اس کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہتے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ صدر ان کا فیصلہ قبول کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ پارلیمانی رکن کے طور پر بدستور فرائض انجام دیتے رہے گے۔
"میں نے مستعفی ہونے کا فیصلہ صومالیہ کو درپیش حالات کا جائزہ لینے کے بعد کیا۔"
ایک سوال کے جواب میں محمد محمود نے کہا کہ اپنے ایک ہفتے پر محیط دور حکومت میں انہوں نے اپنے مستعفی ہونے سے متعلق مشاورت کے علاوہ کچھ بھی نہیں کیا۔
صدر عبداللہ یوسف نے وزیر اعظم نور حسن حسین کو عہدے سے ہٹانے کے بعد ابھی گزشتہ ہفتے ہی محمد محمود کو وزیراعظم نامزد کیا تھا۔ تاہم ملکی پارلیمان نے صدر کے اس اقدام کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے پہلے وزیراعظم نور حسن کو ہی بھاری اکثریت سے اعتماد کا ووٹ دے دیا۔
عالمی برادری نے بھی نور حسن کی حمایت کی تھی۔ دوسری جانب دیگر افریقی ممالک نے وزیراعظم کو برخاست کرنے کی پاداش میں اس ہفتے صومالی صدر پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ ان کا مؤقف تھا کہ عبداللہ یوسف نے ایسا کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے تحت چلنے والے امن عمل میں رخنہ ڈالا ہے۔
افریقی یونین کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے بھی صومالیہ کے سیاسی بحران کو وہاں جاری امن عمل کی راہ میں رکاوٹ قرار دیا تھا۔
وزیراعظم نور حسن کی سبکدوشی کا جواز بناتے ہوئے صدر عبداللہ یوسف کا کہنا تھا، انہیں اس لئے عہدے سے ہٹایا گیا کیونکہ ان کی حکومت بدعنوانی، نااہلی اور سازشوں کے باعث ناکارہ ہو چکی تھی اور امن قائم کرنے میں ناکام رہی تھی۔
نورحسن سے پہلے صدرعبداللہ یوسف نے سابق وزیراعظم علی محمد کو بھی برخاست کیا تھا جس کی وجہ یہ بتائی جاتی تھی کہ انہوں نے انتہاپسندوں اور دیگر گروپوں سے مذاکرات کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس کے بعد نومبر 2007 میں نور حسن کو وزیر اعظم منتخب کیا گیا تھا۔
صومالیہ میں 1991 کے بعد سے کوئی باقاعدہ حکومت نہیں ہے جبکہ گزشتہ دو سال سے صومالیہ میں پڑوسی ملک ایتھوپیا کے فوجی دستے بھی موجود ہیں۔ گو اب ان کی تعداد صرف تین ہزار رہ گئی ہے۔ ملک کے جنوبی علاقے کا بیشتر حصہ ابھی تک انتہاپسندوں کے قبضے میں ہے۔