نومولود بچوں اور والدين کے درميان ’کورونا وائرس‘ کی ديوار
26 مئی 2020
کورونا وائرس کی وبا کے تناظر ميں عائد کردہ پابنديوں کے باعث يوکرائن ميں کرایے کی ماؤں کے ہاں پيدا ہونے والے درجنوں بچے ہسپتالوں ميں پھنس گئے ہيں۔ ان بچوں کے والدين پابنديوں کے باعث اپنے نومولود بچوں سے ملنے سے محروم ہيں۔
اشتہار
يوليا اور پيٹر اپنی بيٹی کی پيدائش پر کافی خوش ہيں۔ اس شادی شدہ جوڑے کا تعلق جرمنی سے ہے۔ يوکرائن سے تعلق رکھنے والی ايک 'سروگيٹ مدر‘ يا 'کرایے کی ماں‘ کی مدد سے ان کے ہاں مئی کے اوائل ميں بيٹی کی پيدائش ہوئی۔ ''ہم بالآخر اپنی بچی کی پيدائش پر پر مسرت ہيں۔ ہميں اس سے بے پناہ محبت ہے۔‘‘ يوليا نے ڈوئچے ويلے کو بتايا کہ وہ کئی سالوں سے ماں بننے کی خواہش مند تو تھیں ليکن ان کی تمام تر کوششيں ناکام ہو گئی تھيں۔
يہ جوڑا ان دنوں يوکرائنی دارالحکومت کييف کے نواح ميں ايک اپارٹمنٹ کمپليکس ميں رہائش پذير ہے۔ قريب ہی نجی کلينک 'بايو ٹيکس کوم‘ واقع ہے اور يہ کمپليکس کلينک کے صارفين کے ليے ہوٹل کے کام آتا ہے۔ حال ہی ميں ايک ويڈيو سماجی رابطوں کی ويب سائٹس پر کافی شيئر کی جاتی رہی، جس ميں اسی کلينک ميں چھياليس نومولود بچوں کو دکھايا گيا، جو يوکرائن سے جانے کے منتظر ہيں۔ بچوں کے والدين کا تعلق اکثريتی طور پر مغربی يورپی ملکوں سے ہے۔ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث سفری پابندياں نافذ ہيں اور يہی وجہ ہے کہ 'کرایے کی ماؤں‘ کی مدد سے ہونے والے يہ بچے، کلينک ميں ہی پھنس گئے ہيں۔
يہ امر اہم ہے کہ يوليا اور پيٹر کے حقيقی نام کچھ اور ہيں اور دونوں نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی خاطر يہ نام بتائے کيونکہ جرمنی ميں سروگيسی يا کرایے کی ماؤں کی مدد سے بچے پيدا کرنا ممنوع ہے۔ يوليا اور پيٹر عالمی وبا کے باعث لاک ڈاؤن کے نفاذ اور سرحدوں کی بندش سے کچھ ہی روز قبل يوکرائن پہنچنے ميں کامياب رہے۔ يوليا کے مطابق انہوں نے اپنی بيٹی کی پيدائش کے انتظار ميں دو ماہ اسی ہوٹل ميں گزارے۔ زيادہ تر جوڑے اپنے بچوں کی صرف تصاوير ہی ديکھ پائے، جو ہسپتال کے عملے نے انہيں بھيجی تھيں۔ مگر يوليا کی اس معاملے پر رائے ذرا مختلف ہے، ''يہ سوچ کر بھی ميرا دل ٹوٹتا ہے۔ ايک ماں اور اس کے بچے کے درميان رشتہ قائم کرنے کے ليے ابتدائی ہفتے بہت اہم ہوتے ہيں۔‘‘
ايک منافع بخش کاروبار
يوکرائن ميں سروگيسی کی اجازت ہے اور يہ ايک منافع بخش کاروبار ہے۔ گو کہ کئی ديگر يورپی ملکوں ميں اس پر پابندی نافذ ہے۔ يوکرائن ميں کئی ايجنسياں ايسی خدمات کی پيشکش کرتی ہيں۔ موجودہ صورتحال ميں يہ واضح نہيں کہ پابنديوں کی وجہ سے يوکرائن ہی ميں پھنس جانے والے نومولود بچوں کی تعداد کتنی ہے۔ متعلقہ حکام نے ڈی ڈبليو کو اعداد و شمار قراہم نہيں کيے۔ البتہ يوکرائنی پارليمان ميں کمشنر برائے انسانی حقوق ليوڈيمالا ڈينيسووا نے بتايا کہ ايسے اس وقت تقريباً ايک سو بچے يوکرائن ميں موجود ہيں، جن کے والدين پابنديوں کی وجہ سے اپنے بچوں کو لینے نہ آ سکے۔ ڈينيسووا نے بتايا کہ 'بايو ٹيکس کوم‘ جيسی بڑی کلينکس ميں پيدا ہونے والے بچوں کا تو حکومت بھی خيال رکھتی ہے تاہم چھوٹی کلينکس ميں صورت حال غير واضح ہے۔ ايسی رپورٹيں بھی ہيں کہ بچے خصوصی کلينکس کی جگہ کرایے کے مکانات ميں ہيں اور بچوں کا خيال رکھنے والی عورتيں ان کا خيال رکھ رہی ہيں، نہ کہ تجربہ کار اور تربيت يافتہ نرسيں۔
قرنطينہ کے باوجود يوکرائن ميں داخلے کے دو طريقے ہيں۔ ايک تو يہ کہ متعلقہ افراد کييف ميں وزارت خارجہ سے رابطہ کر سکتے ہيں اور دوسرا يہ کہ ليوڈيمالا ڈينيسووا کے محکمے سے رجوع کيا جا سکتا ہے۔ بچے کو ساتھ لے جانے کے ليے البتہ متعلقہ وزارت کی اجازت لازمی ہوتی ہے۔ اس عمل ميں بہت سے قانونی مسائل بھی سامنے آتے ہيں۔ مثال کے طور پر يوکرائن ميں سروگيسی کے ذريعے پيدا ہونے والے بچوں کے پيدائشی سرٹيفيکيٹ ميں اصل والدين کا اندراج ہوتا ہے مگر جرمنی ميں اسے تسليم نہيں کيا جاتا۔
يوکرائن ميں اس صورتحال اور اس ضمن ميں عام ہونے والی ويڈيو کے بعد ایک سياسی بحث چھڑ گئی ہے۔ بچوں کے حقوق کی صدارتی کمشنر نے سروگيسی پر پابندی کا مطالبہ کيا ہے جبکہ ليوڈيمالا ڈينيسووا کا محکمہ بہتر قوانين کا حامی ہے۔
يوکرائنی وزارت انصاف کے مطابق پچھلے سال ملک بھر ميں قريب ڈيڑھ ہزار بچے سروگيسی کے ذريعے پيدا ہوئے۔ ايسی ماؤں کو فی بچہ قريب پندرہ ہزار يورو ملتے ہيں۔
کورونا وائرس کی عالمی وبا، آج دنيا کہاں کھڑی ہے؟
مئی کے وسط تک کورونا وائرس کے متاثرين ساڑھے چار ملين سے متجاوز ہيں۔ انفيکشنز ميں مسلسل اضافے کے باوجود دنيا کے کئی حصوں ميں پابنديوں ميں بتدريج نرمياں بھی جاری ہيں۔ يہ وائرس کيسے اور کب شروع ہوا اور آج دنيا کہاں کھڑی ہے؟
تصویر: Reuters/Y. Duong
نئے کورونا وائرس کے اولين کيسز
اکتيس دسمبر سن 2019 کو چين ميں ووہان کے طبی حکام نے باقاعدہ تصديق کی کہ نمونيہ کی طرز کے ايک نئے وائرس کے درجنوں مريض زير علاج ہيں۔ اس وقت تک ايسے شواہد موجود نہ تھے کہ يہ وائرس انسانوں سے انسانوں ميں منتقل ہوتا ہے۔ چند دن بعد چينی محققين نے ايک نئے وائرس کی تصديق کر دی۔
تصویر: AFP
وائرس سے پہلی موت
گيارہ جنوری سن 2020 کو چينی حکام نے نئے وائرس کے باعث ہونے والی بيماری کے سبب پہلی ہلاکت کی اطلاع دی۔ مرنے والا اکسٹھ سالہ شخص اکثر ووہان کی اس مارکيٹ جايا کرتا تھا، جس سے بعد ازاں وائرس کے پھيلاؤ کو جوڑا جاتا رہا ہے۔ يہ پيش رفت چين ميں اس وقت رونما ہوئی جب سالانہ چھٹيوں کے ليے لاکھوں لوگ اندرون ملک سفر کرتے ہيں۔
يہ تصويو سيول کی ہے، جس ميں ديکھا جا سکتا ہے کہ لوگ ماسک خريدنے کے ليے قطاروں ميں کھڑے ہيں۔ رواں سال جنوری کے وسط ميں عالمی ادارہ صحت نے اس بارے ميں پہلی رپورٹ جاری کی اور بيس جنوری کو جاپان، جنوبی کوريا اور تھائی لينڈ ميں نئے وائرس کے اولين کيسز کی تصديق ہوئی۔ اگلے ہی دن ووہان سے امريکا لوٹنے والے ايک شخص ميں وائرس کی تشخيص ہوگئی اور يوں اکيس جنوری کو امريکا ميں بھی پہلا کيس سامنے آ گيا۔
تصویر: Reuters/K. Hong-Ji
ووہان کی مکمل بندش
گيارہ ملين کی آبادی والے شہر ووہان کو تيئس جنوری کو بند کر ديا گيا۔ شہر کے اندر اور باہر جانے کے تمام ذرائع بشمول ہوائی جہاز، کشتياں، بسيں معطل کر ديے گئے۔ نيا وائرس اس وقت تک تيئس افراد کی جان لے چکا تھا۔
تصویر: AFP/H. Retamal
گلوبل ہيلتھ ايمرجنسی
چين ميں ہزاروں نئے کيسز سامنے آنے کے بعد تيس جنوری کے روز عالمی ادارہ صحت نے صورت حال کو ’گلوبل ہيلتھ ايمرجنسی‘ قرار دے ديا۔ دو فروری کو چين سے باہر کسی ملک ميں نئے کورونا وائرس کے باعث کسی ایک شخص کی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔ مرنے والا چواليس سالہ فلپائنی شخص تھا۔ چين ميں اس وقت تک ہلاکتوں کی تعداد 360 تھی۔
تصویر: picture-alliance/empics/The Canadian Press/J. Hayward
’کووڈ انيس‘ کا جنم
عالمی ادارہ صحت نے گيارہ فروری کو نئے کورونا وائرس کے باعث ہونے والی پھيپھڑوں کی بيماری کا نام ’کووڈ انيس‘ بتایا۔ بارہ فروری تک يہ وائرس چين ميں گيارہ سو سے زائد افراد کی جان لے چکا تھا جبکہ متاثرين ساڑھے چواليس ہزار سے زائد تھے۔ اس وقت تک چوبيس ملکوں ميں نئے وائرس کی تصديق ہو چکی تھی۔
تصویر: AFP/A. Hasan
يورپ ميں پہلی ہلاکت
چودہ فروری کو فرانس ميں ايک اسی سالہ چينی سياح جان کی بازی ہار گيا۔ يہ ايشيا سے باہر اور يورپی بر اعظم ميں کووڈ انيس کے باعث ہونے والی پہلی ہلاکت تھی۔ چين ميں اس وقت ہلاکتيں ڈيڑھ ہزار سے متجاوز تھیں، جن کی اکثريت صوبہ ہوبے ميں ہی ہوئی تھیں۔
تصویر: Getty Images/M. Di Lauro
پاکستان ميں اولين کيس
پاکستان ميں نئے کورونا وائرس کا اولين کيس چھبيس فروری کو سامنے آيا۔ ايران سے کراچی لوٹنے والے ايک طالب علم ميں وائرس کی تشخيص ہوئی۔ اٹھارہ مارچ تک ملک کے چاروں صوبوں ميں کيسز سامنے آ چکے تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/F. Khan
کورونا کا دنيا بھر ميں تيزی سے پھيلاؤ
آئندہ دنوں ميں وائرس تيزی سے پھيلا اور مشرق وسطی، لاطينی امريکا و ديگر کئی خطوں ميں اولين کيسز سامنے آتے گئے۔ اٹھائيس فروری تک نيا کورونا وائرس اٹلی ميں آٹھ سو افراد کو متاثر کر چکا تھا اور يورپ ميں بڑی تيزی سے پھيل رہا تھا۔ اگلے دن يعنی انتيس فروری کو امريکا ميں کورونا وائرس سے پہلی ہلاکت رپورٹ کی گئی۔
يورپ اور امريکا کے دروازے بند
امريکی صدر نے گيارہ مارچ کو يورپ سے تمام تر پروازيں رکوا ديں اور پھر تيرہ مارچ کو ہنگامی حالت کے نفاذ کا اعلان کر ديا۔ بعد ازاں سترہ مارچ کو فرانس نے ملک گير سطح پر لاک ڈاون نافذ کر ديا اور يورپی يونين نے بلاک سے باہر کے تمام مسافروں کے ليے يورپ ميں داخلہ بند کر ديا۔
تصویر: picture-alliance/Xinhua/A. Morrisard
متاثرين کی تعداد ايک ملين سے متجاوز
دو اپريل تک دنيا کے 171 ممالک ميں نئے کورونا وائرس کی تصديق ہو چکی تھی اور متاثرين کی تعداد ايک ملين سے زائد تھی۔ اس وقت تک پوری دنيا ميں اکاون ہزار افراد کووڈ انيس کے باعث ہلاک ہو چکے تھے۔ دس اپريل تک يہ وائرس دنيا بھر ميں ايک لاکھ سے زائد افراد کی جان لے چکا تھا۔
تصویر: picture-alliance/xim.gs
ہلاکتيں لگ بھگ دو لاکھ، متاثرين اٹھائيس لاکھ
بائيس اپريل تک متاثرين کی تعداد ڈھائی ملين تک پہنچ چکی تھی۔ پچيس اپريل کو کووِڈ انیس کی وجہ سے دنیا بھر میں ہونے والی ہلاکتیں ایک لاکھ ستانوے ہزار سے تجاوز کر چکی ہیں جب کہ اس مرض سے متاثرہ افراد کی تعداد بھی اٹھائیس لاکھ پندرہ ہزار سے زائد ہو چکی ہے۔ عالمی سطح پر اس بیماری سے صحت یاب ہونے والے افراد کی تعداد سات لاکھ پچیانوے ہزار سے زائد ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Gambarini
متاثرين ساڑھے چار ملين سے اور ہلاک شدگان تين لاکھ سے متجاوز
مئی کے وسط تک نئے کورونا وائرس کے متاثرين کی تعداد ساڑھے چار ملين سے جبکہ ہلاک شدگان کی تعداد تين لاکھ سے متجاوز ہے۔ امريکا ساڑھے چودہ لاکھ متاثرين اور قريب ستاسی ہزار اموات کے ساتھ سب سے زيادہ متاثرہ ملک ہے۔ متاثرين کی تعداد کے معاملے ميں بھارت نے چين پر سولہ مئی کو سبقت حاصل کر لی۔ بھارت ميں کووڈ انيس کے مريضوں کی تعداد تقريباً چھياسی ہزار ہے جبکہ ڈھائی ہزار سے زيادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہيں۔
تصویر: Reuters/J. Cabezas
بنڈس ليگا پھر سے شروع، شائقين غائب
سولہ مئی سے جرمن قومی فٹ بال ليگ بنڈس ليگا کے ميچز شروع ہو رہے ہيں۔ يورپی سطح پر بنڈس ليگا پہلی قومی ليگ ہے، جس کے ميچز کئی ہفتوں کی معطلی کے بعد دوبارہ شروع ہو رہے ہيں۔ البتہ سماجی فاصلہ برقرار رکھنے کی ہدايات کے مطابق شائقين کو اسٹيڈيمز کے اندر موجود ہونے کی اجازت نہيں ہے۔ حکام نے شائقين کو خبردار کيا ہے کہ اگر اسٹيڈيمز کے باہر شائقين مجمے کی صورت ميں جمع ہوئے، تو ميچز منسوخ کيے جا سکتے ہيں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Fassbender
يورپ بھر ميں پابنديوں ميں نرمياں جاری
دو مئی کو اسپين کے مشہور بارسلونا بيچ کو عوام کے ليے کھول ديا گيا۔ سولہ مئی سے فرانس اور اٹلی ميں بھی سمندر کنارے تقريحی مقامات لوگوں کے ليے کھول ديے گئے ہيں۔ يورپ کے کئی ممالک ميں پابنديوں ميں بتدريج نرمياں جاری ہيں اور بلاک کی کوشش ہے کہ جون کے وسط تک تمام تر سرحدی بنشيں بھی ختم ہوں اور يورپ ميں داخلی سطح پر سياحت شروع ہو سکے۔