نمیبیا نے نوآبادیاتی دور سے متعلق زر تلافی کی پیشکش رد کردی
16 اگست 2020
نمیبیا بیسویں صدی کے اوائل میں جرمنی کے زیر کنٹرول تھا۔ اس دور میں کیے گئے مظالم اور اقدامات کی تلافی کے لیے دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔
اشتہار
نمیبیا بیسویں صدی کے اوائل میں جرمنی کے زیر کنٹرول تھا۔ اس دور میں کیے گئے مظالم اور اقدامات کی تلافی کے لیے دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔
جرمنی اور نمیبیا کے درمیان زرتلافی کے مذاکرات پانچ سال سے جاری ہیں اور ابھی تک ادھورے ہیں۔ جرمنی اس جنوبی افریقی ملک پر سن 1884 میں قابض ہوا تھا اور اس کا نام 'جرمن جنوب مغربی افریقہ‘ رکھا گیا تھا۔ اُس دور کی جابرانہ جرمن حکومت کے خلاف مقامی ہیریرو اور ناما باشندوں نے سن 1904 سے لے کر سن 1907 تک مسلح جد و جہد جاری رکھی۔
اس دوران اور بعد میں جاری رکھے گئے مظالم کو نمیبیا میں نسل کشی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جرمنی اس دور کی تلافی کے لیے مذاکراتی عمل جاری رکھے ہوئے ہے۔ نمیبیا کے صدر گائنگوب کے مشیر الفیرڈو ہنگاری کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت نے زر تلافی کے تحت دی جانے والی جرمن پیشکش کو ناقابل قبول قرار دیا ہے۔ برلن حکومت نے نمیبیا کو دس ملین یورو کی پیشکش کر رکھی ہے۔
ہیریرو اور ناما باشندوں کے ترجمان مظالم کی تلافی چاہتے ہیں جو سن 1884 سے 1915 تک جاری رکھے گئے تھے۔ مؤرخین اور محققین کے مطابق اس عرصے میں 65 سے 80 ہزار تک ہیریرو اور 10 سے 20 ہزار کے درمیان ناما باشندے مار دیے گئے تھے۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد نمیبیا جنوبی افریقہ کی عمل داری میں چلا گیا تھا اور یہ سلسلہ اس کی آزادی یعنی سن 1990 تک جاری رہا۔
الفیرڈو ہنگاری کے مطابق جرمن حکومت اس دور کے مظالم کے تناظر میں اپنی معذرت اور افسوس پیش کرنے پر رضامند ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ جرمن حکومت حتمی ڈیل میں 'تلافی‘ کے لفظ کو استعمال کرنے پر معترض ہے۔ بدھ 12 اگست کو جرمن حکومت کے مذاکراتِ اعلیٰ رُوپرشٹ پولینس نے مذاکرات کے حوالے سے کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
البتہ چانسلر میرکل کی سیاسی جماعت سی ڈی یُو کے سیاستدان پولینس نے جمعہ چودہ اگست کو ان مذاکرات کو بلا تاخیر کامیابی سے مکمل کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ نمیبیا کو وقت دینا ضروری ہے تاکہ وہ تمام معاملات کے ہر پہلو پر پوری طرح غور کر سکے۔ پولینس کے مطابق معاہدے میں ایسے الفاظ استعمال کرنا چاہتے ہیں، جو بہتر محسوس ہوں اور ان سے سو سالہ پرانے زخم مندمل ہو سکیں۔ اس تناظر میں جرمنی'تلافی‘ لفظ کے استعمال سے گریز کرنا چاہتا ہے۔ جرمن مذاکرات کار اعلیٰ کا کہنا ہے کہ یہ سیاسی اور اخلاقی معاملہ ہے نا کہ قانونی اور اس بنیاد پر اس لفظ سے دوری چاہتے ہیں۔
برطانیہ، یو کے اور انگلینڈ میں فرق کیا ہے؟
دنیا کے ایک بڑے حصے کو اپنی نوآبادی بنانے والے چھوٹے سے جزیرے کو کبھی برطانیہ، کبھی انگلینڈ اور کبھی یو کے لکھ دیا جاتا ہے۔ کیا ان ناموں کو متبادل کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے، اور کیا یہ ایک ہی ملک کا نام ہے؟
تصویر: picture-alliance/dpa/R.Peters
یونائیٹڈ کنگڈم (یو کے)
یو کے در حقیقت مملکت متحدہ برطانیہ عظمی و شمالی آئرلینڈ، یا ’یونائیٹڈ کنگڈم آف گریٹ بریٹن اینڈ ناردرن آئرلینڈ‘ کے مخفف کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی یو کے چار ممالک انگلینڈ، سکاٹ لینڈ، شمالی آئرلینڈ اور ویلز کے سیاسی اتحاد کا نام ہے۔
تصویر: Getty Images/JJ.Mitchell
برطانیہ عظمی (گریٹ بریٹن)
جزائر برطانیہ میں دو بڑے اور سینکڑوں چھوٹے چھوٹے جزائر ہیں۔ سب سے بڑے جزیرے کو برطانیہ عظمی کہا جاتا ہے، جو کہ ایک جغرافیائی اصطلاح ہے۔ اس میں انگلینڈ، سکاٹ لینڈ اور ویلز شامل ہیں۔ انگلینڈ کا دارالحکومت لندن ہے، شمالی آئرلینڈ کا بیلفاسٹ، سکاٹ لینڈ کا ایڈنبرا اور کارڈف ویلز کا دارالحکومت ہے۔
تصویر: Andy Buchanan/AFP/Getty Images
برطانیہ
اردو زبان میں برطانیہ کا لفظ عام طور پر یو کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ برطانیہ رومن لفظ بریتانیا سے نکلا ہے اور اس سے مراد انگلینڈ اور ویلز ہیں، تاہم اب اس لفظ کو ان دنوں ممالک کے لیے کم ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ زیر نظر تصور انگلینڈ اور ویلز کے مابین کھیلے گئے فٹبال کے ایک میچ کی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Rain
انگلینڈ
اکثر انگلینڈ کو برطانیہ (یو کے) کے متبادل کے طور پر استعمال کر دیا جاتا ہے، جو غلط ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ انگلینڈ جزائر برطانیہ کا سب سے بڑا ملک ہے۔ یا پھر اس لیے کہ انگلینڈ اور یو کے کا دارالحکومت لندن ہی ہے۔
تصویر: Reuters/J.-P. Pelissier
جمہوریہ آئرلینڈ اور شمالی آئرلینڈ
جزائر برطانیہ میں دوسرا بڑا جزیرہ آئرلینڈ ہے، جہاں جمہوریہ آئر لینڈ اور شمالی آئرلینڈ واقع ہیں ان میں سے شمالی آئرلینڈ برطانیہ کا حصہ ہے۔
زبان
انگریزی یوں تو جزائر برطانیہ میں سبھی کی زبان ہے لیکن سبھی کے لہجوں میں بہت فرق بھی ہے اور وہ اکثر ایک دوسرے کے بارے میں لطیفے بھی زبان کے فرق کی بنیاد پر بناتے ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
وجہ شہرت
سکاٹ لینڈ کے لوگ اپنی دنیا بھر میں مشہور اسکاچ پر فخر کرتے ہیں اور بیگ پائپر کی موسیقی بھی سکاٹ لینڈ ہی کی پہچان ہے۔ آئرلینڈ کی وجہ شہرت آئرش وہسکی اور بیئر ہے جب کہ انگلینڈ کے ’فش اینڈ چپس‘ مہشور ہیں۔
تصویر: Getty Images
اختلافات
یو کے یا برطانیہ کے سیاسی اتحاد میں شامل ممالک کے باہمی اختلافات بھی ہیں۔ بریگزٹ کے حوالے سے ریفرنڈم میں سکاٹ لینڈ کے شہری یورپی یونین میں شامل رہنے کے حامی دکھائی دیے تھے اور اب بھی ان کا کہنا ہے کہ بریگزٹ کی صورت میں وہ برطانیہ سے علیحدگی اختیار کر سکتے ہیں۔
تصویر: Andy Buchanan/AFP/Getty Images
یورپی یونین اور برطانیہ
فی الوقت جمہوریہ آئر لینڈ اور برطانیہ، دونوں ہی یورپی یونین کا حصہ ہیں۔ بریگزٹ کے بعد تجارت کے معاملات طے نہ ہونے کی صورت میں سب سے زیادہ مسائل شمالی آئرلینڈ اور جمہوریہ آئرلینڈ کی سرحد پر پیدا ہوں گے۔ برطانیہ کی خواہش ہے کہ وہاں سرحدی چوکیاں نہ بنیں اور آزادانہ نقل و حرکت جاری رہے۔
تصویر: Reuters/T. Melville
بریگزٹ کا فیصلہ کیوں کیا؟
برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی سے متعلق ریفرنڈم میں بریگزٹ کے حامی کامیاب رہے تھے۔ ان لوگوں کے مطابق یونین میں شمولیت کے باعث مہاجرت بڑھی اور معاشی مسائل میں اضافہ ہوا۔ ریفرنڈم کے بعد سے جاری سیاسی بحران اور یورپی یونین کے ساتھ کوئی ڈیل طے نہ ہونے کے باعث ابھی تک یہ علیحدگی نہیں ہو پائی اور اب نئی حتمی تاریخ اکتیس اکتوبر ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R.Peters
10 تصاویر1 | 10
نمیبین صدر کے مشیر الفیرڈو ہنگاری کا کہنا ہے کہ فریقین کو یقین ہے کہ مذاکراتی عمل کامیابی سے ہمکنار ہو گا۔ دوسری جانب جرمن وزارتِ خارجہ کا بھی کہنا ہے کہ مزید بات چیت جاری رکھنے کی منصوبہ بندی کی جا چکی ہے اور یہ سلسلہ باہمی اعتماد اور مثبت انداز میں آگے بڑھایا جائے گا۔
جرمن حکومت نوآبادیاتی دور کے جبر و ستم کے حوالے سے معذرت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ماضی کی صورت حال میں بہتری چاہتی ہے لیکن یہ طے نہیں ہو سکا ہے کہ ایسا کیسے کیا جائے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ان معاملات کو طے کرنے کے لیے ابھی بھی طویل مذاکرات کرنے ہوں گے۔