جاپان میں ایک ’سیریل کِلر‘ ایسے افراد کا شکار کرتا تھا جو تنہائی کا شکار تھے اور خودکشی کرنے کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ اس واقعے کے بعد یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ جاپان میں لوگ معاشرے سے کس طرح کٹ رہے ہیں۔
اشتہار
حالیہ دنوں میں جاپان میں ایک ستائیس سالہ شخص کے گھر سے نو افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملنے کا واقعہ خبروں کی زینت بنا رہا۔ اخبارات اور ٹی وی چینلز پر تجزیہ نگار یہ پوچھتے دکھائی دیے کہ جاپان جیسے ترقی یافتہ معاشرے میں ایسا بھیانک جرم کیسے رونما ہو سکتا ہے۔
ابھی تک اس بات کا کوئی واضح جواب نہیں ملا کہ سیریل کِلر تاکاہیرو شیرائیشی نے کس طرح آٹھ خواتین اور ایک مرد کو اپنے ایک کمرے کے فلیٹ میں جانے کے لیے قائل کر لیا، جہاں اس نے انہیں قتل کرنے کے بعد غسل خانے میں ان کی لاشوں کو آری کی مدد سے کاٹ کر ٹکڑے ٹکڑے کیا۔
ستّر افراد کے قتل میں مطلوب پاکستانی عدالت میں پیش
00:29
سلسلہ وار قتل کی ان وارداتوں کے بعد اگرچہ مبصرین بحیثیت مجموعی جاپانی معاشرے کی صورت حال پر تنقید کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ اس واقعے کے انتہائی بھیانک ہونے کے باوجود جاپانی معاشرے میں ’اجتماعی قتل‘ کیے جانے کی شرح دیگر کئی ممالک کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔ جاپان میں ہر دس لاکھ نفوس میں سے سالانہ بنیادوں پر 3.97 قتل ہوتے ہیں اور عالمی سطح پر قتل کی شرح کے حوالے سے جاپان دنیا میں ایک سو گیارہویں نمبر پر ہے۔ اس کے مقابلے میں امریکا تینتالیسویں نمبر پر ہے جہاں فی ملین 42.01 افراد سالانہ قتل ہوتے ہیں۔
سلسلہ وار قتل کی وارداتیں
شیرائیشی کے فلیٹ سے نو افراد کی لاشیں ملنے کے بعد ملکی میڈیا میں اسے ’سیریل کِلر‘ کہہ کر پکارا جا رہا ہے۔ وہ ٹوکیو کے ریڈ لائٹ ایریا میں جسم فروشی کے لیے لوگوں کو بھرتی کرنے کے کاروبار سے منسلک تھا۔ جس فلیٹ سے مقتول افراد کی لاشیں ملیں، شیرائیشی نے محض چند ماہ قبل بائیس اگست کے روز ہی اس فلیٹ میں رہائش اختیار کی تھی اور بظاہر اس کے فوری بعد ہی اس نے قتل کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔
جاپانی تفتیش کاروں کو تحقیقات کے دوران شیرائیشی نے یہ بھی بتایا کہ وہ قتل کرنے کے لیے لوگوں کا انتخاب سوشل میڈیا کے ذریعے کرتا تھا اور ان میں بھی وہ ایسے افراد کو منتخب کرتا تھا جو تنہائی کا شکار تھے اور سوشل میڈیا پر خودکشی کرنے کی خواہش کا اظہار کر چکے تھے۔
نیو نازی گروپ کی جانب سے قتل کے واقعات کی تحقیقات
تصویر: picture-alliance/dpa
قاتل برسوں حکام کی نظروں سے اوجھل رہے
’نیشنل سوشلسٹ انڈر گراؤنڈ‘ گروپ ’این ایس یو‘ کے ارکان کئی سالوں تک جرمنی میں لوگوں کو قتل کرتے رہے ہیں۔ ان واقعات میں مبینہ طور پر اووے منڈلوس، اووے بوئنہارڈ اور بیاٹے چَیپے ملوث رہے۔ ان تینوں پر الزام ہے کہ انہوں نے آٹھ ترک نژاد، ایک یونانی نژاد اور ایک خاتون پولیس اہلکار کو غیر ملکیوں سے نفرت کی وجہ سے قتل کیا تھا۔ 2011ء تک یہ افراد حکومت کی نظروں سے اوجھل رہنے میں کامیاب رہے۔
تصویر: privat/dapd
بینک ڈکیتی کا ناکام واقعہ
دائیں بازو کے دہشت گرد گروپ کا سراغ نومبر 2011ء پر لگا تھا۔ اس روز اووے منڈلوس اور اووے بوئنہارڈ نے ایک بینک لوٹا تھا۔ یہ ان کی پہلی ناکام کارروائی تھی۔ پولیس اس گاڑی تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی تھی، جس پر یہ دونوں فرار ہوئے تھے۔ تفتیش کے مطابق ان دونوں نے گاڑی کو نذر آتش کرنے کے بعد خود کشی کر لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
بیاٹے چَیپے نے خود کو حکام کے حوالے کر دیا
چیپے، اووے منڈلوس اور اووے بوئنہارڈ مشرقی جرمن شہر سویکاؤ میں رہائش پذیر تھے۔ خود کشی کے واقعے کے بعد اس گھر میں دھماکہ ہوا۔ کہا جاتا ہے کہ ثبوت مٹانے کے لیے انہوں نے گھر کو آگ لگائی تھی۔ چار روز بعد چیپے نے خود کو پولیس کے حوالے کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے یہ مشتبہ خاتون دہشت گرد حراست میں ہے۔
تصویر: Getty Images
قتل کے واقعات سے پردہ اٹھا
سویکاؤ کے گھر کی راکھ سے حکام کو ایسا مواد حاصل ہوا، جس سے ’نیشنل سوشلسٹ انڈر گراؤنڈ‘ نامی اس دہشت گرد گروپ کے بارے میں پتہ چلا۔ یہ ایک 15 منٹ طویل ویڈیو تھی۔ اس میں 2000ء اور 2007ء کے درمیان ان تینوں کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کے مقامات اور نشانہ بننے والے افراد کو دیکھا جا سکتا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
’این ایس یو‘ کا اعترافِ جرم
شوقیہ طور پر بنائی جانے والی ایک ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ مشہور کارٹون کیریکٹر ’پنک پینتھر‘ غیر ملکیوں کے خلاف نفرت کا پیغام دے رہا ہے۔ اپنی گرفتاری سے قبل بیاٹے چیپے نے اس ویڈیو کی کاپیاں تقسیم بھی کی تھیں
تصویر: dapd
2011ء کا ناپسندید ترین لفظ ’ Dönermorde ‘
جرمنی میں ڈونر ایک مرغوب غذا ہے اور اس کا تعلق ترکی سے جوڑا جاتا ہے۔ 2011ء تک ذرائع ابلاغ کے کئی اداروں کی جانب سے ان واقعات کو Dönermorde یا ڈونر قتل کہا جاتا رہا۔ حالانکہ تب تک ان واقعات کا پس منظر اور مقاصد واضح نہیں تھے۔ یہ افواہیں تھیں کہ شاید مقتولین کا تعلق کسی منشیات فروش گروہ سے ہو۔ حقیقت منظر عام پر آنے کے بعد Dönermorde سال کا ناپسندیدہ ترین لفظ قرار دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
آہنی کیلوں سے بھرے بم کا حملہ
جون 2004ء میں کولون شہر میں ایک بم حملہ کیا گیا، جس میں آہنی کیلیں استعمال کی گئی تھیں۔ اس واقعے میں 22 افراد زخمی ہوئے تھے۔ اسی سال جون میں اس وقت کے جرمن وزیر داخلہ اوٹو شلی نے کہا تھا، ’’سلامتی کے اداروں کی اب تک کی تحقیقات کے مطابق یہ کوئی دہشت گردی نہیں بلکہ جرائم پیشہ گروہوں کی ایک کارروائی تھی حالانکہ اس واقعے کے پیچھے بھی نازی انڈر گراؤنڈ گروپ کا ہی ہاتھ تھا۔
تصویر: picture alliance/dpa
برلن میں مقتولین کے لیے دعائیہ تقریب
23 فروری 2012ء کو جرمن دارالحکومت برلن میں ایک خصوصی تقریب میں نازی گروپ کے ہاتھوں قتل ہونے والے افراد کی یاد تازہ کی گئی۔ اس تقریب میں ترکی سے تعلق رکھنے والے پھول فروش مرحوم انور سمسیک کی بیٹی سیمیہ سمسیک کی جذباتی تقریر نے سب کو غمزدہ کر دیا تھا۔ اس موقع پر جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے نیو نازی گروپ کی جانب سے کی جانے والی قتل کی وارداتوں سے متاثر ہونے والے خاندانوں سے معذرت کی تھی۔
تصویر: Bundesregierung/Kugler
متاثرہ خاندانوں سے یکجہتی کا اظہار
چار نومبر 2011ء کو اس گروپ کے بے نقاب ہونے کے ٹھیک ایک سال بعد جرمنی کے متعدد شہروں میں دائیں بازو کی انتہا پسندی اور ان کا شکار ہونے والے افراد کے خاندانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔ اس موقع پر منقعد ہونے والی تقریبات میں ان واقعات کی مکمل تفتیش اور حقائق کو منظر عام پر لانے کا مطالبہ کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تفتیش میں بد انتظامی
نیو نازی انڈر گراؤنڈ گروپ کے معاملے میں حکام اور ادارے بری طرح ناکام رہے۔ اس حوالے سے اہم فائلیں تلف کرنے کا واقعہ سامنے آیا۔ اطلاعات کے مطابق آئینی تحفظ کے جرمن ادارے نے نيشنل سوشلسٹ يا نازی انڈر گراؤنڈ گروپ کا راز فاش ہونے کے بعد اُن کی فائلوں کو مبینہ طور پر تلف کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔ اس کے بعد اس محکمے کے سربراہ ہائنز فروم نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
تصویر: Getty Images
مہمت کوباسک کی یادگار
ڈورٹمنڈ شہر کے میئر اولرش زیراؤ کے بقول ’ڈورٹمنڈ کا شمار جرمنی کے کثیر الثقافتی شہروں میں ہوتا ہے۔ یہاں دائیں بازو کی انتہا پسندی کی مخالفت بھی کھل کر کی جاتی ہے‘۔ یہ بات انہوں نے نازی گروپ کے ہاتھوں قتل ہونے والے مہمت کوباسک کی یادگار کا افتتاح کرتے ہوئے کہی۔ یہ یادگار مہمت کی اس دکان کے بہت ہی قریب قائم کی گئی ہے، جہاں چار اپریل 2006ء کو انہیں قتل کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
مقدمے کی کارروائی اور صحافیوں کی مشکلات
اس مقدمے کی کارروائی کے حوالے سے ایک تنازعہ اس وقت کھڑا ہوا، جب عدالتی کمرے میں غیر ملکی صحافیوں کو کوئی نشست نہیں مل سکی تھی۔ یہ کارروائی 17 اپریل کو شروع ہونا تھی تاہم عدالت نے صحافیوں اور ذرائع ابلاغ کے اداروں سے کہا کہ وہ ایک مرتبہ پھر سماعت کے دوران کمرے میں بیٹھنے کی اجازت حاصل کرنے کے لیے درخواست دیں۔ ان معاملات کا تصفیہ ہو جانے کے بعد چھ مئی سے اس مقدمے کی سماعت شروع ہو گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
12 تصاویر1 | 12
اس کے ہاتھوں قتل ہونے والی ایک خاتون کے بھائی نے پولیس میں اپنی بہن کی گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی تھی جس کی تلاش کے دوران پولیس نے سی سی ٹی وی میں اس خاتون کو شیرائیشی کی گاڑی میں سوار ہوتے دیکھا۔ اس کے بعد ہی پولیس اس کے گھر پہنچنے میں کامیاب ہوئی۔ پولیس کے مطابق اس خاتون نے اپنی گمشدگی سے کچھ روز قبل سوشل میڈیا پر خودکشی کرنے کی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ وہ ایسا کرنا چاہتی ہے لیکن اسے تنہا مرنے سے خوف آتا ہے۔ اس کے جواب میں شیرائیشی نے لکھا کہ وہ اس کے ساتھ خودکشی کرنے کے لیے تیار ہے۔ لیکن پولیس کو تفتیش کے دوران شیرائیشی نے یہ بھی بتایا کہ اس نے کچھ خواتین کو قتل کرنے سے قبل جنسی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا اور ان کے پیسے بھی چرائے۔
معاشرتی تنہائی کا احساس
پولیس نے جب اس کے ایک کمرے کے فلیٹ کی تلاشی لی تو وہاں نو افراد کی باقیات ملیں جنہیں کاٹنے کے بعد اس نے فریج میں رکھا تھا جب کہ ان کے دیگر اعضا کو اس نے گلی میں رکھے بڑے کوڑے دان میں ڈال دیا تھا۔ پولیس اب ڈی این اے ٹیسٹ کی مدد سے ان لاشوں کی شناخت کی کوشش کر رہی ہے تاہم حکام کے مطابق سبھی افراد کی شناخت کرنا ایک مشکل مرحلہ ہو گا۔
جاپان یونیورسٹی میں میڈیا اور کمیونیکیشن کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ماکوتو واٹانبے نے ڈی ڈبلیو سے اپنی گفتگو میں کہا،’’طرح طرح کی باتیں سامنے آ رہی ہیں لیکن در اصل قاتل کے دماغ میں کیا چل رہا تھا؟ یہ بتانا ناممکن ہے۔ جاپانی معاشرے میں بالمشافہ گفتگو اور رابطے نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں، سماجی روابط کی ویب سائٹس کے ذریعے ہی ایک دوسرے سے رابطے میں رہا جاتا ہے۔ رابطوں کی سہولیات بڑھنے کے بعد مضحکہ خیز بات یہ بھی ہے کہ معاشرتی کٹاؤ کم ہونے کی بجائے بڑھ رہا ہے۔‘‘
اس بات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہ مقتول کیوں شیرائیشی پر بھروسہ کر کے اس کے گھر تک چلے گئے، پروفیسر واٹانبے کا کہنا تھا، ’’میں سمجھ سکتا ہوں کہ قتل ہونے والے افراد کو اس وقت یہ جان کر طمانیت کا احساس ہوا ہو گا کہ وہ بھی ان ہی کی طرح تنہائی کا شکار ہے۔ لیکن اس (شیرائیشی) نے ان کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں ذبح کر دیا جو کہ انتہائی خوفناک بات ہے۔‘‘
روہنگیا مہاجر بچے، جو اپنے جلتے گھروں کو پیچھے چھوڑ آئے
میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر مظالم کے نتیجے میں جو مہاجرین بنگلہ دیش پہنچے اُن میں یونیسف کے اعداد وشمار کے مطابق اٹھاون فیصد بچے ہیں۔ ان بچوں میں سے متعدد اپنے خاندان کے افراد کی ہلاکتوں کے چشم دید گواہ ہیں۔
تصویر: Reuters/C. McNaughton
گھر جل کر راکھ ہو گیا
بارہ سالہ رحمان کو بھی میانمار میں شورش کے سبب اپنا گھر چھوڑ کر بنگلہ دیش جانا پڑا۔ رحمان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس نے اپنے گھر کو اپنی آنکھوں سے جلتے ہوئے دیکھا۔ اُس کی والدہ اپنی بیماری کے باعث ساتھ نہیں آسکیں اور ہلاک کر دی گئیں۔
تصویر: DW/J. Owens
خنجر سے وار
میانمار میں کینیچی گاؤں کے رہائشی دس سالہ محمد بلال کا کہنا تھا،’’ جس دن فوج آئی انہوں نے میرے گاؤں کو آگ لگا دی اور میری ماں کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ میرے والد چل نہیں سکتے تھے، اس لیے ان پر بھی خنجروں سے وار کیے گئے۔ یہ سب میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
لاوارث بچوں کا کیمپ
محمد کی بہن نور نے بھی یہ قتل و غارت گری دیکھی تھی۔ لیکن اب وہ اپنے بھائی کے ساتھ ایسے بچوں کے لیے مختص مہاجر کیمپ میں مقیم ہے، جو بغیر سرپرست کے ہیں۔ وہ خوش ہے کہ وہ یہاں کھیل سکتی ہے اور اسے کھانا بھی باقاعدگی سے ملتا ہے۔ لیکن نور اپنے والدین اور ملک کو یاد بھی کرتی ہے۔
تصویر: DW/J. Owens
گولیوں کی بوچھاڑ میں
پندرہ سالہ دل آراء اور اس کی بہن روزینہ نے بھی اپنے والدین کو اپنی آنکھوں کے سامنے قتل ہوتے دیکھا۔ دل آرا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،’’ میں سارا وقت روتی رہی۔ گولیاں ہمارے سروں پر سے گزر رہی تھیں لیکن میں کسی طرح فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹیوں کو نہ بچا سکی
روہنگیا مہاجر سکینہ خاتون کا کہنا ہے کہ جب فائرنگ شروع ہوئی تو انہوں نے اپنے بچوں کو بچانے کے لیے وہ سب کچھ کیا جو وہ کر سکتی تھیں۔ لیکن وہ اپنی دو بیٹیوں، پندرہ سالہ یاسمین اور بیس سالہ جمالیتا کو نہیں بچا سکیں، جو اس وقت پڑوس کے گاؤں میں تھیں۔
تصویر: DW/J. Owens
پہلے بھاگنے کو کہا پھر گولی چلا دی
جدید عالم اُن سینکڑوں روہنگیا بچوں میں سے ایک ہے، جو اپنے والدین کے بغیر میانمار سے فرار ہو کر بنگلہ دیش آئے ہیں۔ میانمار کے ایک دیہات منڈی پارہ کے رہائشی جدید عالم کا کہنا تھا،’’ جب میانمار کی فوج نے ہمارے گاؤں پر حملہ کیا تو انہوں نے ہمیں گاؤں چھوڑنے کو کہا۔ میں اپنے والدین کے ساتھ بھاگ ہی رہا تھا کہ فوجیوں نے میرے ماں باپ پر گولی چلا دی اور وہ موقع پر ہی ہلاک ہو گئے۔
تصویر: DW/J. Owens
باپ اور بھائیوں کا صدمہ
پندرہ سالہ یاسمین کی کہانی بھی کم درد ناک نہیں۔ اُس نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ برما کی فوج نے میرے باپ اور بھائیوں کو ہلاک کر ڈالا اور فوجیوں کے ایک گروپ نے میرے ساتھ جنسی زیادتی کی۔‘‘
تصویر: DW/J. Owens
بیٹا نہیں مل رہا
روہنگیا پناہ گزین رحمان علی کئی ہفتوں سے مہاجر کیمپ میں اپنے آٹھ سالہ بیٹے سفاد کو تلاش کر رہا ہے۔ علی کو خدشہ ہے کہ اس کے کمسن بیٹے کو انسانی اسمگلروں نے اغوا کر لیا ہے۔ رحمان علی کا کہنا ہے،’’ نہ میں کھا پی سکتا ہوں نہ ہی سو سکتا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ بیٹے کے غم میں میں پاگل ہو جاؤں گا۔‘‘