نو مئی: فوج کے غصے اور خان کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی
9 مئی 2024مئی سے پہلے کی جانے والی آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل احمد شریف چوہدری کی پریس کانفرنس کے بعد کئی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ فوج کے غصے میں ابھی کوئی کمی نہیں آئی۔ پاک فوج چاہتی ہے کہ نو مئی کے واقعات میں ملوث افراد کو سزا ملے کیونکہ ان کے نزدیک پچھلے سال نو مئی کو ہونے والے واقعات فوج کے خلاف سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ تھے۔
دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کا موقف ہے کہ ایک فالس فلیگ آپریشن کے ذریعے ان کو ان واقعات کی آڑ میں جان بوجھ کر جعلی مقدمات میں ملوث کیا گیا۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں کا خیال ہے کہ ان واقعات کی سی سی ٹی وی فوٹیج کا غائب ہو جانا، مظاہرین کے راستوں پر پولیس کا موجود نا ہونا اور اہم مقامات کی سکیورٹی ہٹا لینے سے ظاہر ہوتا ہے کہ صورتحال ویسی نہیں، جیسی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے عوام کو بتائی جا رہی ہے۔
نو مئی کے بعد ایک سال کیسا تھا؟
تجزیہ کار مظہر عباس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ سال کئی حوالوں سے غیر معمولی تھا، ''اس سال ہم نے وہ واقعات بھی دیکھے، جو اس سے پہلے ملکی سیاسی تاریخ میں نہیں دیکھے تھے۔‘‘ ان کے بقول فوجی تنصیبات پر حملہ اپنی نوعیت کا ایک غیر معمولی واقعہ تھا۔ اس واقعے کے خلاف اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کی طرف سے جو ردعمل دیکھنے کو ملا وہ بھی بہت شدید نوعیت کا تھا۔
پی ٹی آئی کے لیے بہت ہی برا سال
مظہر عباس کے بقول پی ٹی آئی کے لیے تو یہ ایک بہت ہی برا سال تھا۔ اس کے کارکن اور رہنما گرفتار کر لیے گئے ان پر درجنوں مقدمات بنادیے گئے۔ عمران خان کو سزا ہوئی وہ نا اہل ہو گئے، ''عام انتخابات کے دوران پی ٹی آئی کا نام اور انتخابی نشان بھی ان سے لے لیا گیا۔ پی ٹی آئی کی خواتین، مرد اور ان کے رشتہ داروں کو بدترین تشدد کا سامنا کرنا پڑا، پی ٹی آئی توڑ کر استحکام پاکستان پارٹی وجود میں لائی گئی۔ میڈیا کو پی ٹی آئی اور اس کے بانی کی کوریج سے روکا گیا۔ لیکن اس سب کے باوجود لوگوں نے انتخابات میں سب سے زیادہ ووٹ پی ٹی آئی کو دے کر اسے سنگل لارجسٹ پارٹی کے طور پر الیکشن میں کامیاب کروا دیا، جسے تسلیم نہیں کیا گیا۔ ‘‘
خواتین بھی محفوظ نہ رہیں
پی ٹی آئی کی گرفتار خواتین کی ایک وکیل بریسٹرخدیجہ صدیقی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ نو مئی کے واقعات کے الزام میں، جن خواتین پر مقدمات کیے گئے انہیں انصاف کے تقاضوں کے مطابق ڈیل نہیں کیا گیا، ''ان کی ضمانتوں کے لیے دائر درخواستوں کی سماعت میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں، سماعت میں تاخیری حربے استعمال کیے گئے، بلا ضرورت ان خواتین کے لمبے لمبے ریمانڈ لیے گئے، کبھی ان مقدمات میں پراسیکوٹر پیش نہیں ہوتا تھا۔ کبھی جج صاحب دستیاب نہیں ہوتے تھے۔ کبھی چالان مکمل کرنے میں غیر ضروری تاخیر کی جاتی تھی۔ ڈاکٹر یاسمین راشد، عالیہ حمزہ اور صنم جاوید تو اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد اب بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔‘‘
خدیجہ صدیقی کے بقول طیبہ راجہ کے کیس میں لمبی چوڑی تحقیقات ہوئیں لیکن جب عدالت نے اس سلسلے میں ثبوت مانگے تو پراسیکوشن کے پاس کوئی قابل اطمینان جواب نہ تھا، ''عالیہ حمزہ کا جرم ایک ٹویٹ کرنا تھا، وہ کور کمانڈر ہاؤس میں داخل بھی نہیں ہوئی تھیں۔ خدیجہ شاہ کو بلوچستان بھیج دیا گیا۔ اس کے رشتہ دار گرفتار ہوئے، اور ان کی فیکٹری سیل کر دی گئی۔‘‘
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
عمر ڈار کی والدہ سمیت پی ٹی آئی کے کارکنوں کی طرف سے یہ شکایات بھی سننے میں آئیں کہ پولیس اہلکاروں نے ان کے گھروں پر چھاپوں کے دوران خواتین کے ساتھ بدسلوکی کی۔ اس سال پی ٹی آئی کے کئی رہنما کسی نا معلوم مقام پر منتقل ہو گئے۔ پارٹی چھوڑنے والوں کی طرف سے ایک ہی قسم کی پریس کانفرنسز دیکھنے میں آئیں۔ مظہر عباس کے بقول ملٹری کورٹ کے قیام کو بھی سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے آئین سے ماورا قرار دیا۔
کیا ہونا چاہیے؟
مظہر عباس کی رائے میں اس وقت اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی میں تلخیاں شدت اختیار کر چکی ہیں۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ان میں مصالحت کے لیے ہونے والی خفیہ بات چیت کی افواہیں بھی دم توڑ چکی ہیں، لگتا ہے کہ آنے والے دنوں میں بھی پی ٹی آئی کی مشکلات کم نہیں ہو سکیں گی۔ ان کے خیال میں اصلاح احوال کے لیے سب کو ایک قدم پیچھے ہٹنا ہو گا، خاص طور پر پی ٹی آئی کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس کے پاس آپشنز اب محدود رہ گئے ہیں، ''اگر وہ سیاست دانوں کے ساتھ بھی بات چیت پر آمادہ نہیں ہوتی تو اس کی مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔ ابھی جماعت اسلامی اور جمعیت العلمائے اسلام ف بھی ان کے اتحاد میں شامل ہونے سے گریزاں ہیں۔ اس لیے پی ٹی آئی کو اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
دوسری طرف تجزیہ کار سلمان عابد کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو توڑنا آسان نہیں ہے ۔ ان کی رائے میں کسی سیاسی جماعت کو طاقت سے نہیں کچلا جا سکتا ماضی میں پیپلز پارٹی سمیت کئی جماعتوں کو ختم کرنے کی کوششیں ناکام ہوئی ہیں، ''اس لیے سارے اسٹیک ہولڈرز آپس میں بات چیت کرکے ہی اس بحران سے نکل سکتے ہیں وگرنہ موجودہ تناؤ کی ملک کے لیے درست نہیں ہے۔‘‘