نو ڈیل بریگزٹ بہت بڑا زلزلہ ہو گا، کار سازی کی صنعت کی تنبیہ
23 ستمبر 2019
کار سازی کی یورپی صنعت نے خبردار کیا ہے کہ اکتوبر کے آخر میں برطانیہ کا یورپی یونین سے کسی ڈیل کے بغیر اخراج اس صنعت کے لیے بہت بڑا ’زلزلہ‘ ہو گا۔ اس انڈسٹری کے مطابق نوڈیل بریگزٹ کے اقصادی اثرات انتہائی تباہ کن ہوں گے۔
اشتہار
برسلز سے پیر تیئیس ستمبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق یہ بات کاروں کی تیاری اور ان کا کاروبار کرنے والے یورپ بھر کے 23 نمائندہ اداروں کی سربراہان کی طرف سے ایک ایسے مشترکہ بیان میں کہی گئی ہے، جو عام طور پر شاذ و نادر ہی جاری کیا جاتا ہے۔ اس بیان میں ان اداروں نے برطانیہ کے اکتوبر کے آخر میں یورپی یونین سے یکدم اور کسی ڈیل کے بغیر اخراج کے خلاف واضح طور پر تنبیہ کی ہے۔
یہ تنبیہ اس پس منظر میں بھی کی گئی ہے کہ ان اداروں میں بین الاقوامی سطح پر سرگرم وہ بہت بڑی بڑی کمپنیاں بھی شامل ہیں، جنہوں نے برسوں سے برطانیہ میں اپنی فیکٹریاں لگا رکھی ہیں۔ ان کمپنیوں میں جرمنی کی بی ایم ڈبلیو، فرانس کی پیجو پی ایس اے اور جاپان کی نسّان بھی شامل ہیں۔
کار سازی اور کاروں کی تجارت کے شعبے میں پورے یورپ میں کام کرنے والے ان دو درجن کے قریب اداروں کی نمائندگی کرتے ہوئے فرانس میں آٹوموبائل انڈسٹری کی ملکی تنظیم CCFA کے سربراہ کرسٹیان پیجو نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے، ''بریگزٹ صرف برطانیہ ہی کا مسئلہ نہیں ہے۔ اس پر کار سازی کی پوری یورپی صنعت میں تشویش پائی جاتی ہے۔‘‘
یورپی آٹو موبائل انڈسٹری کے ڈیٹا کے مطابق پوری یورپی یونین کے ایک مشترکہ کاروباری منڈی ہونے کی وجہ سے کار سازی کی یورپی صنعت اور اس کے لیے سپلائی کا نیٹ ورک انگلش چینل کے دونوں طرف پوری طرح پھیلا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ انتہائی اہم بات یہ بھی ہے کہ یورپی براعظم میں تیار کی جانے والے گاڑیوں کا تقریباﹰ 10 فیصد برطانیہ میں تیار کیا جاتا ہے۔
جرمن کار سازی کی صنعت
جرمنی کو عالمی سطح پر بھاری ٹیکنالوجی کے حوالے سے ایک خاص شہرت حاصل ہے۔ اس ملک کی کاروں کو اقوام عالم میں پسند کیا جاتا ہے اور اس کی بنیادی وجہ گاڑیوں کا پائیدار انجن خیال کیا جاتا ہے۔
تصویر: Gou Yige/AFP/Getty Images
جرمن کاروں کی مقبولیت
جرمنی کی کارساز صنعت کے مختلف برانڈز ہیں، جنہیں مختلف ممالک کے لوگ بہت پسند کرتے ہیں۔ ان میں مرسیڈیز، بی ایم ڈبلیو، پورشے، آؤڈی، فولکس ویگن خاص طور پر بہت اہمیت کے حامل ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
نوجوان نسل آؤڈی کو زیادہ پسند کرتی ہے
کسی دور میں جرمن عوام میں مرسیڈیز گاڑی کو اعلیٰ مقام حاصل تھا، ایسا آج بھی ہے لیکن حالیہ کچھ عرصے میں نوجوان نسل کو آؤڈی گاڑی نے اپنا دیوانہ بنا لیا ہے۔
تصویر: J. Eisele/AFP/Getty Images
پورشے
جرمن ساختہ پورشے کو لگژری کاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس کے مختلف ماڈل دنیا بھر کی اشرفیہ میں خاص طور پر مقبول ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Zucchi
ڈیزل گیٹ اسکینڈل
تقریباً دو برس قبل فوکس ویگن کاروں سے دھوئیں کے اخراج کا اسکینڈل سامنے آیا۔ یہ اسکینڈل عالمی سطح پر ڈیزل گیٹ اسکینڈل کے نام سے مشہور ہوا۔ اس دوران اس کی لپیٹ میں کئی کار ساز ادارے آ چکے ہیں۔
سن 2016 اور سن 2017 میں کاروں کی عالمی امپورٹ میں جرمنی کا حصہ بائیس فیصد تھا۔ یہ کاریں بنانے والے تمام ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S.Simon
مرسیڈیز: جرمنی کی پہچان
جرمنی سمیت دنیا بھر میں مرسیڈیز گاڑی کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ مرسیڈیز موٹر کار کو جرمنی کی ایک پہچان بھی سمجھا جاتا ہے۔
تصویر: Wang Zhao/AFP/Getty Images
چینی باشندے جرمن گاڑیوں کے دیوانے
جرمن کار صنعت کے لیے چین بھی اب بہت اہم ہو کر رہ گیا ہے۔ چین میں تیس فیصد کاریں جرمنی سے امپورٹ کی جاتی ہیں۔ چینی خریداروں میں کم اخراج کی حامل گاڑیوں کو بہت زیادہ پسند کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
تصویر: picture alliance
ماحول دوست کاری سازی
جرمنی میں بتدریج ماحول دوست کاروں کو پسندیدگی حاصل ہو رہی ہے۔ جرمن ادارہ ڈوئچے پوسٹ نے ترسیل کے لیے الیکٹرک گاڑیوں کا استعمال بڑھا دیا ہے۔
تصویر: Deutsche Post AG
8 تصاویر1 | 8
برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کہہ چکے ہیں کہ اگر لندن حکومت برسلز میں یورپی قیادت کے ساتھ بریگزٹ سے متعلق کوئی نیا معاہدہ طے نہ کر پائی، تو پھر 31 اکتوبر کو کسی بریگزٹ ڈیل کے ساتھ یا اس کے بغیر ہی برطانیہ یونین سے بہرحال نکل جائے گا۔
اس پر یورپی آٹو موبائل انڈسٹری نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے، ''کسی بریگزٹ ڈیل کے بغیر برطانیہ کے یورپی یونین سے نکل جانے سے اقتصادی حوالے سے ایک ایسے بڑے زلزلے کی سی صورت حال پیدا ہو جائے گی، جو موجودہ تجارتی حالات و شرائط میں تباہ کن تبدیلیوں کا سبب بنے گی۔
اس کے علاوہ اربوں یورو مالیت کے نئے محصولات عائد کیے جانے کا خطرہ بھی پیدا ہو جائے گا، جس کا نتیجہ انگلش چینل کے دونوں طرف کے یورپی صارفین کو برداشت کرنا پڑے گا۔‘‘
جرمن کار ساز اداروں کی ملکی تنظیم وی ڈی اے کے سربراہ بیرنہارڈ ماٹَیس کے مطابق، ''یورپی اور برطانوی کار ساز اداروں کو مستقبل میں بھی بغیر کسی کشیدگی اور کھچاؤ کے آپس میں مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن اگر بریگزٹ پر عمل درآمد بہت بے ہنگم انداز میں اور کسی باقاعدہ معاہدے کے بغیر کیا گیا، تو اس کے کار سازی کی یورپی صنعت پر منفی اثرات انتہائی شدید ہوں گے۔‘‘
برطانیہ میں کار سازی کی صنعت زیادہ تر غیر ملکی کمپنیوں کی ملکیت میں ہے اور وہاں نو ڈیل بریگزٹ کی وجہ سے پائے جانے والے خوف کے اثرات پہلے ہی سے محسوس کیے جا رہے ہیں۔ اسی وجہ سے یورپی کارساز اداروں نے برطانیہ میں اپنی نئی سرمایہ کاری بھی گزشتہ کافی عرصے سے بالکل روک رکھی ہے۔
م م / ع ا (اے ایف پی)
بائی بائی برطانیہ، ہم جا ر ہے ہیں
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔