معروف امریکی ریَپ سنگر نکی مناج کے مطابق وہ خواتین کے حقوق اور مختلف جنسی میلانات اور رجحانات رکھنے والوں کی خاطر سعودی عرب میں پرفارم نہیں کریں گی۔
اشتہار
معروف امریکی ریَپ سنگر نکی مناج نے آئندہ ہفتے سعودی شہر جدہ میں منعقد ہونے والے ایک میوزیکل کنسرٹ میں حصہ لینا تھا۔ نکی مناج نے کہا ہے کہ اس عرب ریاست میں انسانی حقوق کے ریکارڈ پر احتجاج کے طور پر وہ جدہ نہیں جائیں گی۔
چھتیس سالہ مناج نے منگل کے دن کہا کہ خواتین اور LGBTQ یعنی مختلف جنسی میلانات اور رجحانات رکھنے والوں کی حمایت کی خاطر اٹھارہ جولائی کو جدہ میں ہونے والے کنسرٹ کو منسوخ کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ محتاط انداز میں سوچنے کے بعد انہوں نے 'جدہ ورلڈ فیسٹ‘ کا احتجاجی طور پر بائیکاٹ کیا ہے۔
نکی مناج کی طرف سے سعودی عرب میں پرفارم کرنے کی رضا مندی ظاہر کرنے پر انسانی حقوق کے کئی سرکردہ علمبرداوں نے انہیں تنقید کا نشانہ بھی بنایا تھا۔
ہیومن رائٹس فاؤنڈیشن نے مناج سے اپیل کی تھی کہ وہ 'سعودی حکومت کی طرف سے دی جانے والی رقوم‘ مسترد کر دیں اور اپنے عالمی تاثر کا استعمال کرتے ہوئے ریاض حکومت پر زور دیں کہ وہ سعودی عرب میں قید انسانی حقوق کی خواتین کارکنان کو رہا کر دے۔
نکی مناج کی طرف سے سعودی عرب نہ جانے کے فیصلے پر نیو یارک میں قائم اس ادارے کے صدر تھور ہالوریسن نے ریَپ سنگر کو سراہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ریاض حکومت کی پیشکش کو مسترد کر کے نکی مناج نے پیغام دیا ہے کہ اس خاتون سنگر کو 'تعلقات عامہ کے کرتب‘ کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق سعودی عرب میں انسانی حقوق کی صورتحال 'انتہائی پستی‘ کا شکار ہے اور اس ملک میں 'حکومت کے ناقدین کے خلاف سخت کریک ڈاؤن‘ کیا جاتا ہے۔
سعودی عرب میں عوام بالخصوص خواتین کو متعدد پابندیوں کا سامنا ہے جب کہ وہاں سخت سماجی ضوابط نافذ ہیں، تاہم شہزادہ محمد بن سلمان نے ملک میں کئی شعبوں میں سماجی آزادی سے متعلق اہم اقدامات اٹھائے ہیں۔
اسی تناظر میں سعودی عرب میں سنیما گھر تعمیر ہو رہے ہیں، کنسٹرس کا اہتمام کیا جا رہا ہے اور کھیلوں کے مقابلے بھی منعقد ہو رہے ہیں۔
ع ب / ع ا / خبر رساں ادارے
سعودی عرب میں خواتین کے حقوق کی جدوجہد: ایک جائزہ
سعودی عرب نے اعلان کیا ہے کہ خواتین کو قانونی سرپرست کی اجازت کے بغیر ہی ڈرائیونگ لائسنس جاری کیے جائیں گے۔ آئیے نظر ڈالتے ہیں کہ اس اسلامی جمہوریہ میں خواتین کے حقوق کی صورتحال کس طرح مثبت انداز میں بدل رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سن 1955: لڑکیوں کے لیے پہلا اسکول
سعودی عرب میں لڑکیاں اس طرح کبھی اسکول نہیں جا سکتی تھیں، جیسا کہ ریاض میں لی گئی اس تصویر میں نظر آ رہا ہے۔ سعودی عرب میں لڑکیوں کو اسکولوں میں داخلے کا موقع پہلی مرتبہ سن 1955 میں ملا تھا۔ اسی طرح سعودی عرب میں خواتین کی اعلیٰ تعلیم کا پہلا ادارہ سن 1970 میں قائم کیا گیا تھا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Nureldine
سن2001 : شناختی کارڈز کا اجراء
اکیسویں صدی کے آغاز پر سعودی عرب میں خواتین کے لیے پہلی مرتبہ شناختی کارڈز کا اجراء شروع کیا گیا۔ کسی مشکل صورت میں مثال کے طور پر وارثت یا جائیداد کے کسی تنازعے میں ان خواتین کے لیے یہ کارڈ ہی ایک واحد ایسا ثبوت تھا کہ وہ اپنی شناخت ظاہر کر سکیں۔ آغاز میں یہ کارڈز صرف مرد سرپرست کی اجازت سے ہی جاری کیے جاتے تھے۔ تاہم سن دو ہزار چھ میں اس پابندی کا خاتمہ بھی کر دیا گیا۔
تصویر: Getty Images/J. Pix
سن2005 : جبری شادیوں کا اختتام ( کاغذی سطح پر)
سعودی عرب میں سن دو ہزار پانچ میں قانونی طور پر خواتین کی جبری شادیوں کا خاتمہ کر دیا گیا۔ تاہم آج بھی اس اسلامی ریاست میں حقیقی طور پر کسی خاتون کا اپنی رضا مندی سے شادی کرنا ناممکن ہی معلوم ہوتا ہے۔ اب بھی سعودی عرب میں شادیوں کے حتمی فیصلے لڑکیوں کے والد اور ان کے ہونے والے شوہر ہی کرتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/A.Hilabi
سن 2009 : پہلی وزیر خاتون
سن دو ہزار نو میں شاہ عبداللہ نے ملک کی پہلی خاتون حکومتی وزیر کو چنا۔ تب نورہ بنت عبد الله الفايز کو نائب وزیر برائے تعلیم نسواں مقرر کیا گیا تھا۔
تصویر: Foreign and Commonwealth Office
سن 2012 : اولمپک مقابلوں کے لیے پہلی خاتون ایتھلیٹ
سعودی عرب نے سن دو ہزار بارہ میں پہلی مرتبہ اجازت دے دی کہ اولمپک مقابلوں کے لیے ملکی خواتین ایتھلیٹس کا دستہ بھی بھیجا جائے گا۔ اس دستے میں سارہ عطار بھی شامل تھیں، جنہوں نے اس برس لندن منعقدہ اولمپک مقابلوں میں ہیڈ اسکارف کے ساتھ آٹھ سو میٹر ریس میں حصہ لیا۔ تب ایسے خدشات تھے کہ اگر ریاض حکومت نے ملکی خواتین کو ان مقابلوں میں شریک ہونے کی اجازت نہ دی تو سعودی عرب پر پابندی عائد کی جا سکتی ہے۔
تصویر: picture alliance/dpa/J.-G.Mabanglo
سن 2013: موٹر سائیکل اور بائیسکل چلانے کی اجازت
سعودی عرب کی حکومت نے سن دو ہزار تیرہ میں پہلی مرتبہ خواتین کو موٹر سائیکل اور بائیسکل چلانے کی اجازت دے دی۔ تاہم اس کے لیے سیر و سیاحت کے کچھ مقامات کو مختص کیا گیا۔ خواتین باقاعدہ مکمل لباس کے ساتھ اپنے مرد رشتہ داروں کے ساتھ ہی وہاں جا کر اپنا یہ شوق پورا کر سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
سن 2013: مشاورتی شوریٰ میں خواتین کی نمائندگی
فروری سن دو ہزار تیرہ میں شاہ عبداللہ نے سعودی عرب کی مشاورتی کونسل کے لیے تیس خواتین کا انتخاب کیا۔ تب اس قدامت پسند ملک میں خواتین کے لیے ان اہم عہدوں پر فائز ہونے کو ایک اہم پیشرفت قرار دیا گیا تھا۔
تصویر: REUTERS/Saudi TV/Handout
سن 2015: ووٹ ڈالنے اور الیکشن لڑنے کا حق
سعودی عرب میں سن دو ہزار پندرہ میں پہلی مرتبہ خواتین کو حق رائے دہی استعمال کرنے کی اجازت ملی۔ اسی برس اس ملک میں منعقدہ بلدیاتی انتخابات میں خواتین پہلی مرتبہ الیکشن میں حصے لینے کی بھی اہل قرار پائیں۔ نیوزی لینڈ وہ پہلا ملک تھا، جس نے خواتین کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا تھا، یہ بات ہے سن 1893 کی۔ جرمنی میں خواتین کو ووٹ کا حق 1919ء میں ملا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Batrawy
سن 2017: سعودی اسٹاک ایکسچینج کی خاتون سربراہ
فروی سن دو ہزار سترہ میں سعودی اسٹاک ایکسچینج کی سربراہ کے طور پر سارہ السحیمی کا انتخاب کیا گیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ سعودی عرب میں اس اہم عہدے پر کسی خاتون کا تقرر عمل میں آیا۔
تصویر: pictur- alliance/abaca/Balkis Press
سن 2018: ڈرائیونگ کی اجازت
چھبیس ستمبر سن دو ہزار سترہ کو سعودی حکومت نے اعلان کیا کہ خواتین کو گاڑی چلانے کی قانونی اجازت دی جا رہی ہے۔ جون سن دو ہزار اٹھارہ سے سعودی خواتین کو ضرورت نہیں رہے گی کہ وہ ڈرائیونگ لائسنس کے لیے اپنے کسی مرد سرپرست سے اجازت لیں یا گاڑی چلاتے ہوئے مرد سرپرست کو بھی ساتھ بٹھائیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
سن 2018: اسٹیڈیمز میں جانے کی اجازت
انتیس اکتوبر سن دو ہزار سترہ کو سعودی عرب کی ’جنرل اسپورٹس اتھارٹی‘ نے اعلان کیا کہ خواتین کو کھیلوں کے اسٹیڈیمز میں جانے کی اجازت دی جا رہی ہے۔ سن دو ہزار اٹھارہ سے سعودی خواتین ملک میں قائم تین بڑے اسپورٹس اسٹیڈیمز میں جا کر وہاں منعقد ہونے والے کھیلوں کے مقابلوں سے لطف انداز ہو سکیں گی۔