نگرانی سے متعلق پروگرام سودمند ثابت ہوا، امریکی جنرل
13 جون 2013گزشتہ ہفتے بیرون ملک جاسوسی کی غرض سے نگرانی کے پروگرام کے منظر عام پر آنے کے بعد سینیٹ کی ایک کمیٹی کے سامنے پہلی مرتبہ گواہی دیتے ہوئے امریکا کی قومی سلامتی سے متعلق ایجنسی کے سربراہ جنرل کیتھ الیگزینڈر نے فون اور انٹرنیٹ ڈیٹا کی نگرانی کا دفاع کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے سے امریکا اپنے خلاف متعدد حملے روکنے میں کامیاب ہوا ہے۔
اس امریکی جنرل کا کہنا تھا، ’’ایسا کرنے سے اندرون اور بیرون ملک دہشت گردی کے درجنوں واقعات روکے جا سکے۔‘‘
ہانگ کانگ میں پناہ حاصل کر لینے والے امریکا کی قومی سلامتی ایجنسی کے کنٹریکٹر ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے مہیا کی گئی دستاویز پر انحصار کرتے ہوئے برطانیہ کے ’گارڈین‘ اور امریکا کے ’واشنگٹن پوسٹ‘ اخبارات نے گزشہ ہفتے انکشاف کیا تھا کہ امریکی حکومت فون ڈیٹا کے علاوہ گوگل اور فیس بک جیسی انٹرنیٹ کمپنیوں کے ڈیٹا کی بھی نگرانی کر رہی ہے۔ ان انکشافات نے اوباما انتظامیہ پر قومی سلامتی سے متعلق پالیسیوں پر نظرثانی کے حوالے سے دباؤ میں اضافہ کر دیا ہے۔
اس تنازعے کی وجہ سے امریکا میں یہ بحث اب دوبارہ زور پکڑ گئی ہے کہ سلامتی کے امور اور شخصی آزادی اور نجی زندگی کے احترام کے درمیان توازن رکھنا ضروری ہے۔ جنرل الیگزینڈر کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ اس توازن کو ذہن میں رکھ کر کام کرتا ہے۔ ’’میں امریکی عوام کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہم شفاف طریقے سے کام کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نجی زندگی اور شخصی آزادی کا احترام کرتے ہیں، تاہم ہم امریکا کی سلامتی کو بھی ملحوظ خاطر رکھتے ہیں۔‘‘
امریکی کنٹریکٹر سنوڈن نے، جو پروگرام کے منظر عام پر آنے سے قبل ہانگ کانگ جا چکا تھا، بدھ کے روز شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ وہ ہانگ کانگ میں ہی رہنے کا ارادہ رکھتا ہے اور امریکی حکومت کے کسی بھی ایسے اقدام کی مزاحمت کرے گا جو اسے امریکا واپس پہنچانے کے لیے کی جائے گی۔
ایک چینی اخبار سے بات کرتے ہوئے سنوڈن نے کہا: ’’میں یہاں قانون سے فرار کے لیے نہیں بلکہ مجرموں کو بے نقاب کرنے کے لیے ٹھہرا ہوا ہوں۔‘‘
shs / mm Reuters