نگورنو کاراباخ، ہیڈ اسکارف، ہاتھ میں بندوق: جنگ کیا ہوتی ہے؟
مقبول ملک
6 اکتوبر 2020
جنگ کسے کہتے ہیں؟ سر پر اسکارف پہنے اور ہاتھ میں بندوق لیے اپنے گھر کی دہلیز پر بیٹھی یہ بزرگ خاتون یہ بات اچھی طرح جانتی ہے۔ آذربائیجان اور آرمینیا کے مابین نگورنو کاراباخ کا تنازعہ پھر سینکڑوں انسانی جانیں لے چکا ہے۔
اشتہار
سابق سوویت یونین کی تقسیم کے بعد جو دو درجن کے قریب آزاد ریاستیں وجود میں آئیں، ان میں سے آذربائیجان اور آرمینیا دو ایسے ممالک ہیں، جن کے مابین نگورنو کاراباخ کا تنازعہ نوے کی دہائی کے اوائل میں ہی شروع ہو گیا تھا، جو آج تک ختم نہیں ہوا۔
اشتہار
تازہ لڑائی میں سینکڑوں ہلاکتیں
مسلم اکثریتی آبادی والے آذربائیجان کا علیحدگی پسند خطہ نگورنو کاراباخ ایک ایسا علاقہ ہے، جس پر مسیحی اکثریتی آبادی والے ہمسایہ ملک آرمینیا کے حامی علیحدگی پسندوں کا کنٹرول ہے اور یہ تنازعہ ہر چند سال بعد پھر سے خونریز ہو جاتا ہے۔ نگورنو کاراباخ، جس نے ماضی میں یکطرفہ طور پر اپنی آزادی اور خود مختاری کا اعلان بھی کر دیا تھا، ایک بار پھر گزشتہ ماہ کے اواخر سے جنگ اور شدید لڑائی کی لپیٹ میں ہے۔ بین الاقوامی برادری اسے آج بھی آذربائیجان کا حصہ سمجھتی ہے۔
آرمینیائی نسل کے علیحدگی پسند اس خطے پر اپنی گرفت مضبوط رکھنا چاہتے ہیں اور آذربائیجان کی کوشش ہے کہ وہ اپنے اس خصے پر دوبارہ اپنا کنٹرول یقینی بنا لے۔ نتیجہ یہ کہ اب یہ دونوں ملک ایک دوسرے پر ٹینکوں اور راکٹوں سے حملے بھی کر رہے ہیں اور خود نگورنو کاراباخ بھی میدان جنگ بن چکا ہے۔ تازہ لڑائی اب تک اطراف کے ڈھائی سو سے زائد فوجیوں، جنگجوؤں اور عام شہریوں کی ہلاکت کا باعث بن چکی ہے۔
نگورنو کاراباخ کے تنازعے کی سب سے تکلیف دہ تصویر
اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری اس تنازعے کے فریقین سے بار بار مطالبے کر رہی ہے کہ وہ لڑائی بند کریں اور اس تنازعے کو مذاکرات کے ذریعے حل کریں۔ لیکن جنگی فریقین کی طرف سے ایک دوسرے پر ٹینکوں اور راکٹوں سے کیے جانے والے حملوں کی وجہ سے اور کئی علاقوں میں زمینی لڑائی کے باعث نگورنو کاراباخ کے باشندوں کو کس طرح کے خطرات لاحق ہیں، اس کا اندازہ اوپر نظر آنے والی تصویر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔
نگورنو کاراباخ کے تقریباﹰ 50 ہزار کی آبادی والے علاقائی دارالحکومت سٹیپاناکَیرٹ کی رہنے والی اس برزگ خاتون کو شاید اپنے گھر میں آرام کرتے ہونا چاہیے تھا۔ لیکن روز بروز قریب آتے جا رہے موسم سرما میں اپنے سر پر رومال باندھے اور ہاتھوں میں بندوق لیے، دہلیز پر بیٹھی یہ ضعیف خاتون اپنے گھر کے اندر کے بجائے باہر اس لیے ہے کہ اپنی اور اپنے گھر کی حفاظت کر سکے۔
سوویت یونین کا زوال اوراس کے بعد وجود میں آنے والی ریاستیں
11 مارچ 1990 کو لیتھوانیا نے سوویت یونین سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ تاہم سویت یونین نے اس جمہوریہ کو طاقت سے دبانے کی کوشش کی۔ اس کا نہایت سخت ردعمل سامنے آیا اور یکے بعد دیگرے سوویت یونین کی 15 ریاستیں الگ ممالک بن گئیں۔
بدامنی کے دور میں امن پسند انسان بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اگر کوئی دوسرا ان کی مدد کو نہ آئے تو وہ اپنی مدد آپ کیسے کر سکتے ہیں؟ سٹیپاناکَیرٹ کی یہ بزرگ شہری بھی بخوبی واقف ہیں کہ جنگ کسے کہتے ہیں اور وہ اپنے ساتھ کس طرح کے خطرات لے کر آتی ہے۔
نگورنو کاراباخ کی رہائشی اس خاتون نے سوویت دور بھی دیکھا تھا اور اس خطے پر کنٹرول کی وہ مسلح کشمکش بھی، جو تین عشرے پرانی تو ہو چکی ہے لیکن ابھی تک ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔
اس تصویر کو دیکھنے والا کوئی بھی امن پسند انسان صرف یہ خواہش ہی کر سکتا ہے کہ اس خاتون کو، جس نے اپنی بندوق دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اپنی گود میں رکھی ہوئی ہے، اپنی حفاظت کے لیے یہ بندوق کبھی استعمال نہ کرنا پڑے۔
سرد جنگ کی حیران کن باقیات
ہالینڈ کے فوٹوگرافر مارٹن روئمرز نے گزشتہ دو عشروں کے دوران سرد جنگ کے دور کے بچ جانے والے بنکرز، ٹینکوں، نگرانی اور عسکری تربیت کے مراکز کی بےشمار تصاویر اتاری ہیں۔ ان تصاویر کی نمائش برلن میں جاری ہے۔
تصویر: Martin Roemers
غرق ہونے کے قریب
سرد جنگ کے دور میں تعمیر کیا جانا والا یہ بنکر لیٹویا کے قریب بحیرہ بالٹک میں تعمیر کیا گیا تھا۔ تاہم اب وہ وقت دور نہیں، جب یہ پانی کے نیچے ہو گا۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے سے 1989ء میں دیوار برلن کے انہدام تک کا وقت سرد جنگ کا دور کہلاتا ہے۔ اس دوران سابق سوویت یونین اور اس کے حامی کمیونسٹ ممالک کے زیادہ تر مغربی ریاستوں کے ساتھ تعلقات انتہائی کشیدہ تھے۔
تصویر: Martin Roemers
بدترین صورت حال کی تیاری
مشرق اور مغرب، دونوں خطوں میں بنکرز بنائے گئے تھے، میزائل نصب کیے گئے تھے اور نگرانی کے مراکز قائم کیے گئے تھے تاکہ خود کو دشمنوں سے تحفظ فراہم کیا جائے۔ اس تصویر میں موجود یہ ایٹمی بنکر مغربی جرمن فوج نے کسی ممنکہ جوہری جنگ سے بچنے کے لیے لاؤراخ نامی علاقے میں تعمیر کیا تھا۔
تصویر: Martin Roemers
جنگی تربیت
1989ء سے 2009ء تک فوٹوگرافر مارٹن روئمرز نے دس مختلف ممالک میں سرد جنگ کی باقیات کو تلاش کیا۔ اس دوران انہوں نے 73 تصاویر بنائیں، جنہیں چار مارچ سے برلن کے تاریخی میوزیم میں شروع ہونے والی ایک نمائش میں رکھا گیا ہے۔ یہ تصویر سابق سوویت یونین میں ایک فوجی تربیت گاہ کی ہے۔
تصویر: Martin Roemers
نئی سرد جنگ؟
روسی وزیر اعظیم دیمتری میدویدیف نے گزشتہ ماہ میونخ میں سلامتی کے موضوع پر ہونے والی ایک کانفرنس میں ایک ’نئی سرد جنگ‘ کا ذکر کیا تھا۔ تاہم فوٹوگرافر روئمرز کا خیال ہے کہ اس طرح کی کسی دوسری جنگ کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ تصاویر کے ذریعے جنگ کے دوران تباہ ہونے والی جگہوں اور انسانی المیے کو واضح کرنا ان کا عزم ہے۔
تصویر: Martin Roemers
کئی دہائیوں تک تربیتی مرکز
سابقہ مشرقی جرمن ریاست کا الٹن گرابوو وہ مقام ہے، جہاں سابق سوویت دستوں کو تربیت دی جاتی تھی۔ تاہم اس جگہ کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں اس سے قبل جرمن سلطنت سے لے کر نازی دور تک بھی فوجیوں کو عسکری تربیت دی جاتی رہی تھی۔ بظاہر ویران دکھائی دینے والے اس مقام پر آج بھی وفاقی جرمن فوجی مختلف طرح کی تربیتی مشقیں کرتے ہیں۔
تصویر: Martin Roemers
آخر میں روشنی
فوٹوگرافر مارٹن روئمرز کی یہ تصاویر تاریخی نہیں ہیں۔ انہوں نے اس دوران ہر اس جگہ کا دورہ کیا، جہاں سے سرد جنگ کے خاتمے کے بعد فوجیوں کا انخلاء ہوا تھا۔ یہ برطانیہ میں موجود ایک زیر زمین بنکر سے نکلنے کے لیے بنائی گئی ایک سرنگ کی تصویر ہے۔ مارٹن روئمرز کی ان تصاویر کی نمائش رواں برس چودہ اگست تک جاری رہے گی۔