’نہیں چاہتا کہ میرے بچے جوہری ہتھیاروں کا بوجھ اٹھائیں‘
23 فروری 2019
کم جونگ اُن کے مطابق وہ نہیں چاہتے کہ اُن کے بچے جوہری ہتھیاروں کا بوجھ برداشت کریں۔ یہ بات انہوں نے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو سے گزشتہ برس ہونے والی ایک ملاقات میں کہی تھی۔
اشتہار
نیوز ایجنسی روئٹرز نے اپنی ایک رپورٹ میں امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے ایک سابق اہلکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جونگ اُن نے امریکی وزیر خارجہ سے ملاقات میں کہا تھا کہ وہ نہیں چاہتے کہ ان کے بچے جوہری ہتھیاروں کا بوجھ اٹھائیں۔
روئٹرز نے اس بات کو افشا کرنے والے کا نام اینڈریو کِم بتایا ہے جو امریکی خفیہ ادارے کا ایک سابق اہلکار بھی ہیں۔ روئٹرز کے مطابق اینڈریو کم نامی یہ سابق امریکی اہلکار واشنگٹن اور پیونگ یونگ حکومتوں کے درمیان شروع ہونے والی اعلیٰ سطحی سفارت کاری میں شریک رہ چکے ہیں۔
اینڈریو کم کے مطابق شمالی کوریائی لیڈر نے یہ کلمات اپنے ملکی دارالحکومت پیونگ یونگ میں گزشتہ برس اپریل میں امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں کہے تھے۔ سابق اہلکار نے واضح کیا کہ جب شمالی کوریائی لیڈر سے پوچھا گیا کہ وہ حقیقت میں جوہری ہتھیاروں کا خاتمہ چاہتے ہیں تو انہوں نے جواباً کہا، ’’میں ایک باپ اور شوہر ہوں۔ میرے بچے ہیں۔‘‘ کم جونگ اُن نے گفتگو کو بڑھاتے ہوئے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ اُن کے بچے ساری زندگی جوہری ہتھیاروں کا بوجھ اٹھائے پھریں۔
اینڈریو کم نے یہ تفصیلات معتبر امریکی اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے ایشیا پیسیفک ریسرچ سینٹر میں منعقدہ ایک خصوصی تقریب میں کہے۔ اینڈریو کِم تواتر کے ساتھ یونیورسٹی کے اس مرکز میں منعقدہ تقاریب میں شریک ہونے کے ساتھ ساتھ جزوقتی اسکالر بھی ہیں۔
سنگا پور میں کم جونگ ان نے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ امن کے حصول کی مشترکہ کوششوں میں شامل ہونے کا اظہار بھی کیا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ سنگا پور میں ٹرمپ اور اُن کی ملاقات کے بعد امن کے حصول کی جانب بہت کم پیش رفت دیکھی گئی اور جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کا خواب ابھی تک خواب ہی ہے۔
اب ہنوئی میں ستائیس اور اٹھائیس فروری کو امریکی صدر اور شمالی کوریائی لیڈر کے درمیان ایک اور سمٹ ہونے والی ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ یہ سمٹ امن کے حصول کی کاوشوں میں بھرپور کردا کرنے کی حامل ہو گی۔
امریکی خفیہ ادارے سے ریٹائرمنٹ سے قبل اینڈریو کم نے امریکی خفیہ ایجنسی میں اپریل سن 2017 میں کوریا مشن سینٹر کو تشکیل دیا تھا۔ موجودہ وزیر خارجہ مائیک پومپیو، اُس وقت سی آئی اے کے سربراہ تھے اور انہوں نے بھی اس خصوصی مشن سینٹر کا دورہ کیا تھا۔
امریکی پابندیوں کا نشانہ بننے والے ممالک
امریکا عالمی تجارت کا اہم ترین ملک تصور کیا جاتا ہے۔ اس پوزیشن کو وہ بسا اوقات اپنے مخالف ملکوں کو پابندیوں کی صورت میں سزا دینے کے لیے بھی استعمال کرتا ہے۔ یہ پابندیاں ایران، روس، کیوبا، شمالی کوریا اور شام پر عائد ہیں۔
تصویر: Imago
ایران
امریکا کی ایران عائد پابندیوں کا فی الحال مقصد یہ ہے کہ تہران حکومت سونا اور دوسری قیمتی دھاتیں انٹرنیشنل مارکیٹ سے خرید نہ سکے۔ اسی طرح ایران کو محدود کر دیا گیا ہے کہ وہ عالمی منڈی سے امریکی ڈالر کی خرید سے بھی دور رہے۔ امریکی حکومت ایرانی تیل کی فروخت پر پابندی رواں برس نومبر کے اوائل میں عائد کرے گی۔
کمیونسٹ ملک شمالی کوریا بظاہراقوام متحدہ کی پابندیوں تلے ہے لیکن امریکا نے خود بھی اس پر بہت سی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ امریکی پابندیوں میں ایک شمالی کوریا کو ہتھیاروں کی فروخت سے متعلق ہے۔ ان پابندیوں کے تحت امریکا ایسے غیر امریکی بینکوں پر جرمانے بھی عائد کرتا چلا آ رہا ہے، جو شمالی کوریائی حکومت کے ساتھ لین دین کرتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/S. Marai
شام
واشنگٹن نے شام کے صدر بشارالاسد کی حکومت پر تیل کی فروخت پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ امریکا میں شامی حکومت کے اہلکاروں کی جائیدادیں اور اثاثے منجمد کیے جا چکے ہیں۔ امریکی وزارت خزانہ نے ساری دنیا میں امریکی شہریوں کو شامی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے کاروبار یا شام میں سرمایہ کاری نہ کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Esiri
روس
سن 2014 کے کریمیا بحران کے بعد سے روسی حکومت کے کئی اہلکاروں کو بلیک لسٹ کیے جانے کے بعد ان کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کریمیا کی کئی مصنوعات بھی امریکی پابندی کی لپیٹ میں ہیں۔ اس میں خاص طور پر کریمیا کی وائن اہم ہے۔ ابھی حال ہی میں امریکا نے ڈبل ایجنٹ سکریپل کو زہر دینے کے تناظر میں روس پرنئی پابندیاں بھی لگا دی ہیں۔
تصویر: Imago
کیوبا
سن 2016 میں سابق امریکی صدرباراک اوباما نے کیوبا پر پابندیوں کو نرم کیا تو امریکی سیاحوں نے کیوبا کا رُخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکی شہریوں پر کیوبا کی سیاحت کرنے پر پھر سے پابندی لگا دی گئی ہے۔ اوباما کی دی گئی رعایت کے تحت کیوبا کے سگار اور شراب رَم کی امریکا میں فروخت جاری ہے۔