طالبان نے کہا ہے کہ نہ تو امریکی کینیڈین جوڑے کی ایک نوزائیدہ بچی کو ہلاک کیا گیا تھا اور نہ ہی دوران قید اس امریکی عورت کو جنسی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔ یہ جوڑا گزشتہ ہفتے ہی پاکستان سے آزاد کرایا گیا تھا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے طالبان کی طرف سے جاری کردہ ایک ای میل کے حوالے سے بتایا ہے کہ اغوا کی جانے والی امریکی خاتون کا دوران قید ریپ نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی اس کی نوزائیدہ بچی کو ہلاک کیا گیا تھا۔ پندرہ اکتوبر بروز اتوار جاری کی گئی اس ای میل میں مزید کہا گیا ہے کہ اب یہ جوڑا ’دشمن کے ہاتھوں میں ہے‘ اور اسے مجبور کیا جا رہا ہے کہ ’وہ وہی کہے جو اسے بتایا جا رہا ہے‘۔
طالبان کے مطابق ان الزامات کا مقصد صرف انہیں بدنام کرنا ہے۔ مزید کہا گیا ہے کہ دوران قید اس امریکی کینیڈین جوڑے کو ایک منٹ کے لیے بھی ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا گیا تھا۔ امریکی خاتون کیتلان کولمین اور ان کے کینیڈین شوہر جوشوا بوئل کو اکتوبر سن دو ہزار بارہ میں افغان صوبے وردک سے اغوا کیا گیا تھا۔ تب کولمین سات ماہ کی حاملہ تھیں۔ اس پانچ سالہ قید کے دوران ان کے ہاں تین بچے پیدا ہوئے تھے۔
پاکستانی فوج کے ایک بیان کے مطابق جب اس گھرانے کو افغانستان سے پاکستان لایا گیا تو مخبری پر ایک کارروائی کرتے ہوئے انہیں طالبان کی قید سے رہا کرا لیا گیا تھا۔ اس پیش رفت پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ اس فیملی کو حقانی نیٹ ورک کی قید سے آزاد کرانے سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جاری کارروائی میں زیادہ بہتر کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔
رہائی کے بعد کینیڈا پہنچنے پر جوشوا بوئل نے جمعے کی رات صحافیوں کو بتایا تھا کہ اغوا کی واردات کے بعد طالبان نے ان کی ایک نوزائیدہ بچی کو ہلاک کر دیا تھا جبکہ ان کی بیوی کو جنسی زیادتی کا نشانہ بھی بنایا گیا تھا۔ تاہم طالبان کا کہنا ہے کہ کولمین بیمار تھیں اور اس علاقے میں طبی امداد کی عدم موجودگی کے باعث پیدائش کے بعد بچی جانبر نہ ہو سکی تھی۔ طالبان نے ایسے الزامات کو بھی مسترد کر دیا کہ انہوں نے کولمین کو ریپ کیا۔
امریکی میڈیا کے مطابق جب اس جوڑے کو طالبان کی قید سے آزاد کرا لیا گیا تھا تو بوئل نے امریکی ہوائی جہاز میں سفر کرنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ انہیں خوف تھا کہ ان کی سابقہ اہلیہ کی وجہ سے امریکی حکام انہیں سزا بھی سنا سکتے ہیں۔ جوشوا بوئل کی سابقہ بیوی زینب خضر تھیں، جو کینیڈا میں پیدا ہونے والے گوآنتانامو بے کے سابق قیدی عمر خضر کی بہن ہیں۔ القاعدہ سے مبینہ روابط پر عمر خضر کو آٹھ برس اس حراستی مرکز میں گزارنا پڑے تھے۔
افغانستان کے بڑے جنگی سردار
کئی سابق جنگی سردار اب ملکی سیاست میں بھی فعال ہیں یا ہو رہے ہیں۔ ایک نظر ڈالتے ہیں ایسے ہی کچھ اہم افغان جنگی سرداروں پر، جن میں سے چند اب اس دنیا میں نہیں رہے اور کچھ تاحال ملک میں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
ملا داد اللہ
انیس سو اسی کی دہائی میں سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں ملا داد اللہ کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تھی۔ مجاہدین کے اس کمانڈر کو طالبان کی حکومت میں وزیر تعمیرات مقرر کیا گیا تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ملا محمد عمر کا قریبی ساتھی تھا۔ داد اللہ سن دو ہزار سات میں امریکی اور برطانوی فورسز کی ایک کارروائی میں مارا گیا تھا۔
تصویر: AP
عبدالرشید دوستم
افغانستان کے نائب صدر عبدالرشید دوستم افغان جنگ کے دوران ایک ازبک ملیشیا کے کمانڈر تھے، جنہوں نے اسی کی دہائی میں نہ صرف مجاہدین کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا اور نوے کے عشرے میں طالبان کے خلاف لڑائی میں بھی بلکہ انہیں طالبان قیدیوں کے قتل عام کا ذمہ دار بھی قرار دیا جاتا ہے۔ سن دو ہزار تین میں انہوں نے خانہ جنگی کے دوران کی گئی اپنی کارروائیوں پر معافی بھی مانگ لی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. Kaynak
محمد قسيم فہیم
مارشل فہیم کے نام سے مشہور اس جنگی سردار نے احمد شاہ مسعود کے نائب کے طور پر بھی خدمات سر انجام دیں۔ سن 2001 میں مسعود کی ہلاکت کے بعد انہوں نے شمالی اتحاد کی کمان سنبھال لی اور طالبان کے خلاف لڑائی جاری رکھی۔ وہ اپنے جنگجوؤں کی مدد سے کابل فتح کرنے میں کامیاب ہوئے اور بعد ازاں وزیر دفاع بھی بنائے گئے۔ وہ دو مرتبہ افغانستان کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے۔ ان کا انتقال سن دو ہزار چودہ میں ہوا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
گلبدین حکمت یار
افغان جنگ کے دوران مجاہدین کے اس رہنما کو امریکا، سعودی عرب اور پاکستان کی طرف سے مالی معاونت فراہم کی گئی تھی۔ تاہم اپنے حریف گروپوں کے خلاف پرتشدد کارروائیوں کے باعث حکمت یار متنازعہ ہو گئے۔ تب انہوں نے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی خاطر یہ کارروائیاں سر انجام دی تھیں۔ حزب اسلامی کے رہنما گلبدین حکمت یار کو امریکا نے دہشت گرد بھی قرار دیا تھا۔ اب وہ ایک مرتبہ پھر افغان سیاست میں قدم رکھ چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/K. Jebreili
محمد اسماعیل خان
محمد اسماعیل خان اب افغان سیاست میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے صوبے ہرات پر قبضے کی خاطر تیرہ برس تک جدوجہد کی۔ بعد ازاں وہ اس صوبے کے گورنر بھی بنے۔ تاہم سن 1995 میں جب ملا عمر نے ہرات پر حملہ کیا تو اسماعیل کو فرار ہونا پڑا۔ تب وہ شمالی اتحاد سے جا ملے۔ سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کے اہم رکن اسماعیل خان موجودہ حکومت میں وزیر برائے پانی اور توانائی کے طور پر فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔
تصویر: AP
محمد محقق
محمد محقق نے بھی اسّی کی دہائی میں مجاہدین کے ساتھ مل کر سوویت فورسز کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا۔ سن 1989 میں افغانستان سے غیر ملکی فوجیوں کے انخلا کے بعد انہیں شمالی افغانستان میں حزب اسلامی وحدت پارٹی کا سربراہ مقرر کر دیا گیا۔ ہزارہ نسل سے تعلق رکھنے والے محقق اس وقت بھی ملکی پارلیمان کے رکن ہیں۔ وہ ماضی میں ملک کے نائب صدر بھی منتخب کیے گئے تھے۔
تصویر: DW
احمد شاہ مسعود
شیر پنجشیر کے نام سے مشہور احمد شاہ مسعود افغان جنگ میں انتہائی اہم رہنما تصور کیے جاتے تھے۔ انہوں نے طالبان کی پیشقدمی کو روکنے کی خاطر شمالی اتحاد نامی گروہ قائم کیا تھا۔ انہیں سن انیس سو بانوے میں افغانستان کا وزیر دفاع بنایا گیا تھا۔ انہیں نائن الیون کے حملوں سے دو دن قبل ہلاک کر دیا گیا تھا۔ تاجک نسل سے تعلق رکھنے والے مسعود کو ایک اہم افغان سیاسی رہنما سمجھا جاتا تھا۔
تصویر: AP
ملا محمد عمر
افغان جنگ میں مجاہدین کے شانہ بشانہ لڑنے والے ملا عمر طالبان کے روحانی رہنما تصور کیا جاتے تھے۔ وہ سن 1996تا 2001 افغانستان کے غیر اعلانیہ سربراہ مملکت رہے۔ تب انہوں کئی اہم افغان جنگی سرداروں کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے ’اسلامی امارات افغانستان‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ سن دو ہزار ایک میں امریکی اتحادی فورسز کے حملے کے بعد ملا عمر روپوش ہو گئے۔ 2015 میں عام کیا گیا کہ وہ 2013 میں ہی انتقال کر گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
گل آغا شیرزئی
مجاہدین سے تعلق رکھنے والے سابق جنگی سردار شیرزئی نے نجیب اللہ کی حکومت کا تختہ الٹنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ دو مرتبہ قندھار جبکہ ایک مرتبہ ننگرہار صوبے کے گورنر کے عہدے پر فائز رہے۔ طالبان نے جب سن انیس سو چورانوے میں قندھار پر قبضہ کیا تو وہ روپوش ہو گئے۔ سن دو ہزار ایک میں انہوں نے امریکی اتحادی فورسز کے تعاون سے اس صوبے پر دوبارہ قبضہ کر لیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
عبدالرب رسول سیاف
سیاف ایک مذہبی رہنما تھے، جنہوں نے افغان جنگ میں مجاہدین کا ساتھ دیا۔ اس لڑائی میں وہ اسامہ بن لادن کے قریبی ساتھیوں میں شامل ہو گئے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ سیاف نے پہلی مرتبہ بن لادن کو افغانستان آنے کی دعوت دی تھی۔ افغان جنگ کے بعد بھی سیاف نے اپنے عسکری تربیتی کیمپ قائم رکھے۔ انہی کے نام سے فلپائن میں ’ابو سیاف‘ نامی گروہ فعال ہے۔ افغان صدر حامد کرزئی نے انہیں اپنی حکومت میں شامل کر لیا تھا۔