سائنس دانوں نے لیبارٹری میں بغیر انڈے اور اسپرم کے اختلاط کے صرف اسٹیم سیلز لے کر ایک چوہے کا ایک پروٹو ایمبریو تیار کر لیا ہے۔ ایمبریو کی طرز کا یوں ایک اسٹرکچر تیار کر لینے کو ایک بڑی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے۔
اشتہار
دو مئی بدھ کے روز جاری کردہ ایک سائنسی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس پروٹو ایمبریو کی تیاری اسپرم یا انڈے کے اختلاط کے بغیر نہایت مشکل تصور کی جاتی تھی، تاہم سائنس دانوں نے اس کا حل نکال لیا ہے۔
جرمنی: نت نئی منشیات کی ’تجربہ گاہ‘
آج کل دنیا بھر کی خفیہ لیبارٹریوں میں جو منشیات تیار کی جا رہی ہیں، اُن میں سے بیشتر کے پیچھے جرمن سائنسدانوں، فوج اور کاروباری اداروں کی اختراعی اور تخلیقی قوتیں اور جوش و جذبہ کارفرما رہا ہے۔
منشیات کے ذریعے حملہ
1939ء میں پولینڈ پر اور 1940ء میں فرانس پر کیے جانے والے حملوں میں ہٹلر نے ایسے فوجی سرگرمِ عمل کیے، جن کی استعدادِ کار کو کیمیاوی مادوں کی مدد سے بڑھایا گیا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ صرف فرانس پر حملے کے دوران لڑنے والے دستے کو ہی پیرویٹین کی ’ٹینک چاکلیٹ‘ کہلانے والی پینتیس ملین گولیاں کھلائی گئی تھیں۔ دوسری طرف اتحادی افواج بھی کچھ ایسا ہی کر رہی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa-Bildarchiv
بیدار، نڈر اور بھوک سے بے نیاز
نازی جرمن فوج کی اس حیران کُن گولی کو سب سے پہلے ایک جاپانی نے مائع شکل میں تیار کیا تھا۔ برلن کی ٹیملر ورکس کمپنی کے کیمیا دانوں نے اس پر تحقیق کو آگے بڑھایا اور 1937ء میں ایک پیٹنٹ کا اندراج کروایا۔ ایک ہی سال بعد یہ باقاعدہ ایک دوا کے طور پر بازار میں آ گئی۔ اس دوا سے تھکاوٹ، بھوک، پیاس اور ڈر جاتا رہتا تھا۔ آج یہی ’پیرویٹین‘ غیر قانونی طور پر ایک اور نام ’کرسٹل مَیتھ‘ کے تحت فروخت کی جاتی ہے۔
خود ہی سب سے بڑا گاہک؟
مؤرخین کے مابین اس بات پر اختلاف پایا جاتا ہے کہ آیا اڈولف ہٹلر خود بھی پیرویٹین کا نشہ کرتا تھا۔ ان کے ذاتی معالج تھیو موریل کی فائلوں میں اکثر نمایاں طور پر حرف ’ایکس‘ لکھا دکھائی دیتا ہے۔ یہ بات واضح نہیں ہو سکی ہے کہ یہ کس دوا کی جگہ لکھا جاتا ہو گا۔ اتنی بات یقینی تصور کی جاتی ہے کہ ہٹلر کو بہت ہی سخت قسم کی ادویات دی جاتی تھیں، جن میں سے زیادہ تر آج کل کے ضوابط کی رُو سے ممنوع قرار پائیں گی۔
نت نئی منشیات بنانے والوں کی سرگرمیاں نازی دور سے بھی بہت پہلے شروع ہو چکی تھیں۔ جرمنی کی بائر کمپنی آج ایک عالمی ادارہ ہے۔ اس کمپنی نے اُنیس ویں صدی کے اواخر میں اپنی ایک بہت زیادہ بکنے والی دوا کا اشتہار کچھ ان الفاظ کے ساتھ دیا تھا: ’’ہیروئن کی بدولت کھانسی ختم۔‘‘ اس کے فوراً بعد مرگی، دمے، شیزوفرینیا اور دل کے عوارض کے لیے بچوں تک کو ہیروئن دی جانے لگی۔ اس دوا کا ضمنی اثر قبض بتایا گیا تھا۔
تخلیقی ذہن کے حامل کیمیا دان
فیلکس ہوفمان کو خاص طور پر اُن کی ایجاد کردہ اسپرین کی وجہ سے سراہا جاتا ہے۔ ان کا دوسرا کارنامہ یونہی سرِ راہے وجود میں آیا، جب وہ سرکے کے تیزاب کے ساتھ تجربات کر رہے تھے۔اسپرین کے برعکس اس بار اس کیمیا دان نے اس تیزاب کو مارفین یعنی پوست کے خشک ہو چکے جوس کے ساتھ ملا کر دیکھا۔ اُن کی بنائی ہوئی ’ہیروئن‘ جرمنی میں 1971ء میں پابندی لگنے سے پہلے تک قانونی طور پر فروخت ہوتی رہی۔
آنکھوں کے ڈاکٹروں کے لیے کوکین
جرمن شہر ڈارم اشٹٹ کے ادارے مَیرک نے 1862ء ہی میں کوکین کی پیداوار شروع کر دی تھی، تب آنکھوں کا علاج کرنے والے ڈاکٹر اسے اپنے مریض کو بے ہوش کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اس کی تیاری کے لیے البرٹ نیمان نامی جرمن محقق ایک عرصے تک جنوبی امریکا سے آئے ہوئے کوکا کے پتوں کے ساتھ تجربات کرتا رہا تھا۔ نیمان کوکین تیار کرنے کے کچھ ہی عرصے بعد انتقال کر گیا تھا لیکن کوکین سے نہیں بلکہ نمونیے سے۔
تصویر: Merck Corporate History
’جوش اور کام کرنے کی صلاحیت‘
بابائے نفسیات سگمنڈ فرائیڈ نے اپنی تحریروں میں کوکین کو بے ضرر قرار دیا اور کہا کہ اسے استعمال کرنے سے انسان کے اندر جوش بھر جاتا ہے، وہ زندگی کی حرارت محسوس کرتا ہے اور اُس میں کام کرنے کی قوت آ جاتی ہے۔ بعد میں ایک دوست کے منشیات کے استعمال کے نتیجے میں انتقال کے بعد فرائیڈ کے کوکین کے بارے میں جوش و خروش میں بھی کمی آئی۔ تب ڈاکٹر سر درد اور پیٹ درد کے لیے بھی کوکین کے استعمال کی ہدایت کرتے تھے۔
تصویر: Hans Casparius/Hulton Archive/Getty Images
ایکسٹیسی کا فراموش کردہ پیٹنٹ
امریکی کیمسٹ الیگزینڈر شَلگن کو آج کے دور میں بہت زیادہ استعمال ہونے والی نشہ آور دوا ایکسٹیسی کا موجد سمجھا جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس رنگا رنگ ٹیبلٹ کی تیاری کا ابتدائی نسخہ جرمن دوا ساز ادارے مَیرک نے تیار کیا تھا۔ 1912ء میں اس ادارے نے ایک بے رنگ تیل کو ایم ڈی ایم اے کے نام سے پیٹنٹ کروایا تھا۔ اُس دور میں کیمیا دانوں نے اس مادے کو کاروباری مقاصد کے لیے بے فائدہ قرار دیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/epa/Barbara Walton
جرمن کیمیا دانوں کے کارناموں کی باز گشت آج بھی
اقوام متحدہ کے اندازوں کے مطابق سن 2013ء میں دنیا بھر میں تقریباً ایک لاکھ نوّے ہزار انسان غیر قانونی منشیات کے استعمال کے نتیجے میں موت کے منہ میں چلے گئے۔ قانونی نشے الکوحل کے حوالے سے دیکھا جائے تو اعداد و شمار اور بھی زیادہ تشویشناک ہیں: عالمی ادارہٴ صحت ڈبلیو ایچ او کے 2012ء کے لیے اندازوں کے مطابق 5.9 فیصد یعنی تقریباً 3.3 ملین اموات الکوحل کے استعمال کا نتیجہ تھیں۔
اس تجربے میں چوہے کے اسٹیم سیلز کے ذریعے پلیسینٹا اور ایمبریو تیار کیے گئے۔ اس طریقے کے تحت خود سے پیدا ہونے والے پروٹو ایمبریوز بنانا اور پھر انہیں رحم مادر میں رکھ دینا ممکن بنا دیا گیا ہے۔
سائنسی جریدے نیچر میں شائع ہونے والی اس رپورٹ کے مطابق اس طریقے کے تحت ایمبریو کی تخلیق نہیں کی گئی اور نہ ہی اس تجربے کا یہ مقصد تھا، تاہم اس سے حمل اور زندگی کے ابتدائی مراحل سے متعلق انتہائی اہم معلومات حاصل ہو سکتی ہیں۔
اس تحقیقی رپورٹ کے مصنف ہالینڈ کے شہر اُٹریشٹ میں واقع ہیربریشٹ انسٹیٹیوٹ اور MERLN کے محقق نیکولاس ریورون کے مطابق، ’’یہ پیش رفت حمل کے ابتدائی مراحل کے نادیدہ جہاں وا کر رہی ہے۔‘‘
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایمبریو اپنی تیاری کے وقت انسانی بال کی چوڑائی کے برابر تھا اور اسے رحم مادر میں رکھا گیا۔ ریورون نے بتایا کہ ابتدا میں ایمبریو کو تمام طرح کے خلیات کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ وہ ایک مکمل جسم بنا سکے۔ ریورون کے مطابق، ’’اس سے ہم زندگی کی ابتدا کے لمحات اور پوشیدہ تفصیلات کو بہتر انداز سے جان سکیں گے۔ اس سے بانجھ پن سے جڑے مسائل کے حل میں بھی مدد ملے گی جب کہ ادویات کی تیاری میں جانوروں پر تجربات کیے بغیر بھی ان ادویات کے اثرات کو سمجھا جا سکے گا۔‘‘
یہ بات اہم ہے کہ انسانوں میں مصنوعی انداز سے حمل ٹھہرانے کے لیے استعمال ہونے والے طریقہ کار IVF میں قریب دو تہائی صورتوں میں ناکامی ہوتی ہے اور زیادہ تر ناکامی بارآور انڈے کو رحم میں رکھنے کے عمل کے دوران ہوتی ہے۔ اس ناکامی کی وجوہات اب تک معلوم نہیں ہو سکیں۔
برفانی بندر، جاپان کے قدرتی حُسن کا حصّہ
میکاک بندروں کا شمار ان چند ممالیہ جانوروں میں کیا جاتا ہے، جو جاپان میں صدیوں سے انسانوں کے ہم زیست ہیں اور انتہائی منفرد برفانی دنیا کی ایک جھلک سے دنیا کو روشناس کرواتے ہیں۔
تصویر: AP
بندروں کا وطن
یامانوچی نامی جاپان کا ایک چھوٹا سا قصبہ اپنے گرم پانی کے تالابوں کے باعث مشہور ہے۔ لیکن اس جگہ کی اصل وجہ شہرت یہاں کا ’جیگو کُدانی سَنو منکی پارک‘ ہے جو دارالحکومت ٹوکیو سے ایک دن کی مسافت پر واقع ہے۔
تصویر: DW/Kai Dambach
برفانی بندروں کی ایک جھلک
یہ پارک انتہائی دلچسپ بندروں کی قسم ، جاپانی میکاک بندروں کی آماجگاہ ہے ۔ گرم پانی کے تالابوں اور جھرنوں میں پڑاؤ ڈالے ان برفانی بندروں کو دیکھنے کے لیے دنیا بھر سے ہر سال متعدد سیاح یہاں کا رخ کرتے ہیں۔
تصویر: DW/Kai Dambach
سیاحوں کی دلچسپی
اس پارک کی بنیاد سن 1964 میں اس وقت ڈالی گئی جب یہاں کی وادی میں ایک ہوٹل قائم ہوا اور یہاں آنے والوں نے سرخ چہرے والے بندروں کو گرم پانیوں میں آرام کرتے دیکھا۔ اب اس پارک میں سیاح آٹھ سوجاپانی ین یا ساڑھے سات ڈالر کی معمولی داخلہ فیس کے عوض ان بندروں کی دلچسپ حرکات سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
تصویر: DW/Kai Dambach
جھیل کے پانیوں میں آرام
ان برفانی بندروں کو پارک میں موجود گرم پانی کی جھیلوں میں آرام کرنا اور وقت گزارنا بہت پسند ہے۔ ان بندروں کو گرم موسم میں بھی دیکھا جا سکتا ہے لیکن اس وقت یہ ان پانیوں میں کم ہی نظر آتے ہیں۔ گرمیوں میں یہ بندر پورے علاقے میں بکھر جاتے ہیں لیکن ٹھنڈے موسم میں حرارت برقرار رکھنے کے لیے یہ قریب رہتے ہیں۔
تصویر: DW/Kai Dambach
سردی سے بچاؤ
میکاک بندروں کے جسم پر موجود بال انہیں ٹھنڈے موسم میں حرارت پہنچاتے ہیں۔ یہاں تک کہ گرم پانیوں سے دور رہنے پر بھی ان پر سردی زیادہ اثر انداز نہیں ہوتی۔
تصویر: Getty Images
بندر انسانوں کے دوست
برفانی بندروں کا یہ پارک سیاحوں کے لیے نہایت پُر کشش ہے۔ یہاں سیاح ان بندروں کے نہایت قریب آکر ان کے ساتھ تصاویر بھی بناتے ہیں۔ تاہم پارک کے قوانین کے مطابق ان بندروں کو سیاح نہ تو کھانے کے لیے کچھ دے سکتے ہیں اور نہ ہی کھلے عام پلاسٹک بیگ استعمال کر سکتے ہیں۔
تصویر: DW/Kai Dambach
6 تصاویر1 | 6
اس تازہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق ممالیہ جانوروں کے باورآور انڈے بلاسٹوسِسٹ میں تبدیل ہو جاتے ہیں، جو ایک دائرے کی شکل میں سو سے بھی کم خلیات کا مرقع ہوتے ہیں۔ پھر یہ دو حصوں میں تقسیم ہو کر بیرونی جھلی بناتے ہیں۔ یہی بعد میں پلیسینٹا (بچے کے لیے خوراک کا نظام) بنتا ہے جب کہ اندر کی طرف ایک نہایت چھوٹا سا حصہ ہوتا ہے، جو مستقبل کا ایمبریو ہوتا ہے۔