’نہ مر رہا ہوں، نہ کہیں جا رہا ہوں،‘ صدر موگابے کا اعلان
مقبول ملک روئٹرز
29 جولائی 2017
افریقی ملک زمبابوے کے ترانوے سالہ صدر رابرٹ موگابے نے کہا ہے کہ وہ نہ تو مر رہے ہیں اور نہ ہی کہیں جا رہے ہیں۔ موگابے انیس سو اسّی سے زمبابوے کے صدر چلے آ رہے ہیں اور اس ملک کی اقتصادی حالت انتہائی خراب ہے۔
اشتہار
افریقی ریاست زمبابوے کے شہر چنہوئی سے ہفتہ انتیس جولائی کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق بین الاقوامی سطح پر اگرچہ کئی برسوں سے یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ قریب چار عشروں سے برسراقتدار موگابے اپنے ملک کو مسلسل تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں تاہم خود صدر رابرٹ موگابے نے آج کہا کہ وہ ’نہ تو مر رہے ہیں، نہ ہی اپنے عہدے سے علیحدہ ہو رہے ہیں اور نہ ہی کہیں جا رہے ہیں‘۔
براعظم افریقہ کے علاوہ دنیا کے طویل ترین عرصے سے برسراقتدار حکمرانوں میں شمار ہونے والے رابرٹ موگابے اس دور سے اپنے ملک کے صدر چلے آ رہے ہیں، جب 1980ء میں زمبابوے نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی تھی۔
برطانیہ کی اس سابق نوآبادی میں چنہوئی کے شہر میں اپنے ہزارہا حامیوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے صدر موگابے نے آج کہا، ’’مسئلہ یہ ہے کہ کوئی دوسرا سیاستدان اتنے بڑے سیاسی قد کاٹھ کا ہے ہی نہیں، جو میرے جانشین کے طور پر یہ (صدارتی) ذمےد اریاں انجام دے سکے۔‘‘
روئٹرز کے مطابق موگابے کی عمر اس وقت 93 برس ہے، وہ 38 برسوں سے زمبابوے کے صدر چلے آ رہے ہیں اور ان کے ملک میں عوام اس لیے اپنے اس صدر کی صحت پر بڑی تشویش کے ساتھ نظریں جمائے بیٹھے ہیں کہ کسی واضح جانشین کی تقرری کے بغیر رابرٹ موگابے کی اگر اچانک موت ہو گئی، تو یہ ملک شدید حد تک بدامنی اور انتشار کا شکار ہو جائے گا۔
روئٹرز نے مزید لکھا ہے کہ موگابے نے اپنے آبائی صوبے کے شہر چنہوئی میں ہزارہا سیاسی حامیوں سے خطاب کے دوران یہ بھی کہا، ’’ابھی حال ہی میں ڈاکٹروں نے جب میرا معائنہ کیا، تو وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ میرے جسم میں ہڈیوں کا نظام انتہائی مضبوط ہے۔‘‘
گزشتہ کئی عشروں کے دوران بار بار کی خشک سالی، بہت زیادہ بے روزگاری اور مسلسل اقتصادی تنزلی کی وجہ سے زمبابوے کی معیشت کی حالت اتنی خراب ہو چکی ہے کہ حکومت کو کئی سال پہلے ہی ناقابل یقین حد تک زیادہ مالیت کے کرنسی نوٹ تک چھاپنا پڑ گئے تھے۔
ان میں ملکی کرنسی میں بہت زیادہ مالیت کے ایک کھرب یا 100 ارب ڈالر تک کے وہ نوٹ بھی شامل ہیں، جن کی ہزاروں گنا کی شرح والے افراط زر کی وجہ سے داخلی طور پر اور بین الاقوامی منڈیوں میں مالیاتی قدر بمشکل چند امریکی ڈالر کے برابر بنتی ہے۔
اِن خاندانوں کے شکنجے میں پورا افریقہ
براعظم افریقہ میں سیاست اکثر خاندان کے اندر ہی رہتی ہے: باپ کے بعد بیٹا عہدہٴ صدارت کا وارث بنتا ہے، بیٹی ریاستی اداروں کی سربراہی کرتی ہے اور اہلیہ وزیر کے منصب پر فائز ہوتی ہے۔ دیکھیے خاندانی سیاست کی چند ایک مثالیں۔
تصویر: DW/E. Lubega
میرا بیٹا، میرا باڈی گارڈ
یوویری موسوینی ایک طویل عرصے سے یوگنڈا کے صدر ہیں۔ یہ تصویر اُن کے سب سے بڑے بیٹے موھوزی کاینیروجابا کی ہے، جو ملکی فوج میں ایک بڑے افسر ہیں اور اُس خصوصی یونٹ کے کمانڈر بھی، جو صدر کی حفاظت پر مامور ہے۔ موسوینی کی اہلیہ جینٹ تعلیم و تربیت اور کھیلوں کی وزیر کے طور پر کابینہ میں شامل ہیں۔ اُن کے ہم زُلف سَیم کُٹیسا وزیر خارجہ ہیں۔
تصویر: DW/E. Lubega
صدر کی بیٹی، اربوں کی مالک
انگولا کے صدر کی سب سے بڑی صاحبزادی ازابیل دوس سانتوس افریقہ کی دولت مند ترین خواتین میں سے ایک ہیں۔ وہ ملک کی سب سے بڑی فرنیچر ساز کمپنی اور سرکاری تیل کمپنی سون انگول کی بھی مالک ہیں اور اُن کی سُپر مارکیٹ کی شاخیں ملک بھر میں ہیں۔ اُن کا بھائی انگولا کے پانچ ارب ڈالر سے زیادہ کے سرمایے کے حامل ریاستی فنڈ FSDEA کا سربراہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
باپ صدر، بیٹا نائب صدر
یہ ہیں، تیودور انگوئما اوبیانگ مانگُو، اُستوائی گنی کے دوسرے نائب صدر۔ اُن کے والد تیودور اوبیانگ مباسوگُو 1979ء سے ملک کے صدر چلے آ رہے ہیں۔ صدر کا سوتیلا بیٹا گیبریئل ایمبیگا اوبیانگ تیل کے امور کا وزیر ہے۔ صدر کا سالا اینسُو اوکومو تیل کے کاروبار سے متعلق سرکاری ادارے GEPetrol کا سربراہ ہے۔
تصویر: Picture-alliance/AP Photo/F. Franklin II
انتہائی با اثر جڑواں بہن
یہ ہیں، کانگو کے سابق صدر لاؤراں کابیلا کی صاحبزادی جینٹ دیسیرے کابیلا کیونگُو، جن کے بھائی جوزیف کابیلا آج کل ملک کے صدر ہیں۔ جینٹ ملکی پارلیمان کی بھی رکن ہیں اور ایک میڈیا کمپنی کی بھی مالک ہیں۔ ’پانامہ لِیکس‘ سے پتہ چلا کہ وہ ایک ایسی آف شور کمپنی کی سربراہ بھی ہیں، جو کانگو کی سب سے بڑی موبائل فون کمپنی کے شیئرز کی مالک ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. D. Kannah
کل سیکرٹری، آج خاتون اوّل
گریس مُوگابے زمبابوے میں ایک طویل عرصے سے صدر چلے آ رہے رابرٹ مُوگابے کی دوسری اہلیہ ہیں۔ ان دونوں کا معاشقہ اُس وقت شروع ہوا تھا، جب گریس ابھی صدر کی سیکرٹری تھیں۔ اب گریس مُوگابے حکومتی پار ٹی کی ’خواتین کی لیگ‘ کی چیئر پرسن ہیں اور انتہائی با اثر ہیں۔ گو وہ اس کی تردید کرتی ہیں تاہم اُنہیں اپنے 92 سالہ شوہر کی جانشین تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Mukwazhi
سابقہ اہلیہ کے بڑے سیاسی عزائم
نکوسازانا دلامینی زُوما پہلی خاتون ہیں، جنہیں افریقی یونین کا سربراہ چُنا گیا ہے۔ اس سے پہلے وہ جنوبی افریقہ کے اُس دور کے صدر تھابو ایم بیکی کی کابینہ میں وزیر خارجہ تھیں اور پھر اپنے سابق شوہر جیکب زُوما کی حکومت میں وزیر داخلہ۔ وزارت کا قلمدان سنبھالنے سے پہلے ہی نکوسازانا کی اپنے شوہر جیکب زُوما سے علیحدگی ہو چکی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Prinsloo
ریاست بہ طور فیملی بزنس
ری پبلک کانگو کے صدر ڈینس ساسُو اینگوئیسو کے خاندان کے ارکان کئی بڑے سیاسی عہدوں پر فائز ہیں اور متعدد اہم کمپنیوں کے مالک ہیں۔ اُن کی بیٹی کلاؤڈیا (تصویر میں) اپنے والد کے مواصلاتی شعبے کی نگران ہیں، اُن کے بھائی ماؤریس متعدد کمپنیوں کے مالک ہیں جبکہ صدر کے بیٹے ڈینس کرسٹل کے بارے میں سننے میں آیا ہے کہ اُسے جانشینی کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Gervais
نصف صدی سے حکمران خاندان
گیبون میں عمر بونگو اوندیمبا نے اکتالیس برس تک حکومت کی، یہاں تک کہ 2009ء میں اُن کا بطور صدر ہی انتقال ہو گیا۔ بعد ازاں متنازعہ انتخابات میں اُن کے بیٹے علی بونگو سترہ دیگر امیدواروں کو واضح طور پر شکست دے کر کامیاب ٹھہرے۔ 2016ء میں ایک بار پھر انتخابات جیت گئے۔ یوں یہ خاندان گیبون پر گزشتہ نصف صدی سے برسرِاقتدار ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Longari
جیسا باپ، ویسا بیٹا
غناسینغبی ایادیما ٹوگو میں طویل عرصے تک صدر کے عہدے پر براجمان رہے۔ اُن کے تقریباً پچاس بچوں میں سے صرف ایک یعنی فور غناسینغبی (تصویر میں) نے سیاست میں قدم رکھا۔ آج کل وہی ملک کے حکمران ہیں۔ کینیا اور بوتسوانہ میں بھی آج کل جو شخصیات حکمرانی کر رہی ہیں، اُن سے پہلے اُن کے باپ ملک کے حکمران تھے۔