نہ پڑھیں گے، نہ پڑھنے دیں گے
19 جنوری 2009مقامی طالبان عسکریت پسندوں نے اپنے حملوں میں پہلے ہی 172اسکول تباہ کیے ہیں، جن میں 96 گرلز اسکول بھی شامل ہیں۔ سرکاری اسکولوں کوتباہ کرنے کے بعد طالبان نے نجی شعبے میں قائم اسکولوں کو بھی پندرہ جنوری تک بند کرنے کی دھمکی دی تھی۔ مقامی طالبان نے مقررہ میعاد گُزرجانے کے بعد ان سکولوں کو بموں سے اڑانے کی دھمکی بھی دی تھی۔ اطلاعات کے مطابق اس سلسلے میں طالبان نے اپنے ایف ایم ریڈیو کی نشریات پر ایک اعلان بھی کیا گیا تھا۔
ان دھمکیوں کے بعد وادیء سوات میں360 نجی تعلیمی ادارے بھی بند کردیئے گئے ہیں، خواتین کی تعلیم پرپابندی کی وجہ سے جہاں تعلیم سے وابستہ ہزاروں افراد بے روزگار ہوگئے ہیں وہاں ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ بچوں پر تعلیم کے دروازے ایک طرح سے بند کردیئے گئے ہیں۔
طالبان کی جانب سے دی مقرر کی گئی ڈیڈلائن سے قبل پرائیوٹ اسکولز مینجمنٹ ایسوسی ایشن کے وفد نے سوات کے ضلعی رابطہ آفیسر شوکت علی یوسفزئی سے ملاقات کرکے تعلیمی اداروں کو تحفظ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔ ضلعی رابطہ آفیسر نے نجی اسکولز مالکان کو تحفظ کی یقین دہانی کراتے ہوئے کہاکہ حکومت تعلیمی اداروں کی حفاظت کیلئے تمام تر اقداما ت اٹھانے کا ارادہ رکھتی ہے تاہم نجی اسکول مالکان کو حکومتی یقین دہانیوں پر یقین نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب تک حکومت اپنے اسکول بچانے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے تو نجی اداروں کو کس طرح تحفظ فراہم کرسکے گی؟
نجی تعلیمی اداروں کے مالکان کاموٴقف ہے کہ حکومت نہ تواساتذہ اورنہ ہی اسکولوں میں زیر تعلیم طلباءاور باالخصوص طالبات کو تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔
بند کیے گئے جانیوالے 360نجی اسکولوں میں ستر ہزار سے زیادہ طلباء وطالبات رجسٹرڈ ہیں۔ پرائیوٹ اسکولز مینجمنٹ ایسوسی ایشن کے نمائندوں نے طالبان کے کئی اہم رہنماﺅں سے بھی رابطہ کرنے کی کوشش کی تاہم طالبان ان اداروں کو کھولنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں بلکہ انہوں نے چوتھی جماعت تک پڑھنے کی مشروط اجازت دے رکھی ہے۔
سوات میں سردی میں اضافے کی وجہ سے تعلیمی اداروں میں 31جنوری تک چھٹیاں دی جاتی ہیں تاہم اس مرتبہ سوات میں مسلسل کشیدگی کی وجہ سے یہ چھٹیاں منسوخ کردی گئیں تاکہ ضائع ہونیوالے وقت کاازالہ کیاجاسکے لیکن طالبان نے تعلیمی اداروں کے دروازے مکمل بند کرنے کاحکم دیا ہے۔