’نہ کام، نہ پیسہ‘: یمن میں پھنسے صومالی مہاجرین کی بے بسی
2 دسمبر 2025
یمن جزیرہ نما عرب کا غریب ترین ملک ہے۔ یہ ملک مہاجرین کی آخری منزل نہیں بلکہ مشرقی افریقہ سے نکل کر تیل کی دولت سے مالا مال امیر خلیجی ممالک تک پہنچنے کے خواہش مندوں کے لیے صرف ایک راستہ ہے، جہاں وہ عمارت سازی یا گھریلو ملازمت کے شعبوں میں کام کی تلاش میں ہوتے ہیں۔
لیکن سرحدوں پر سخت سکیورٹی کی وجہ سے بہت سے یمن سے نکل ہی نہیں پاتے۔
مرد دن بھر شہر میں پھیل جاتے ہیں اور سڑکوں کے کنارے کھڑے ہو کر کام کی تلاش میں رہتے ہیں۔ یمن کی حکومت کے زیرِ کنٹرول دارالحکومت عدن میں دس سال سے زائد عرصے پر محیط جنگ نے بے روزگاری اور خوراک کی قلت کو جنم دیا ہے۔
اکثر لوگ گزر بسر کے لیے چھوٹے موٹے کام ڈھونڈتے یا کوڑے کے ڈھیروں میں کھانے پینے کی کوئی چیز تلاش کرتے ہیں تاکہ خود بھی کچھ کھا سکیں اور گھر والوں کو بھی کھلا سکیں۔
صومالیہ کے عدن میں موجود 29 سالہ عبداللہ عمر کے چار بچے ہیں اور وہ بتاتے ہیں، ”کبھی کھانا مل جاتا ہے اور کبھی اللہ کے بھروسے، یہی زندگی ہے۔‘‘
ایک برس قبل عمر نے صومالیہ کی غیر مستحکم صورتحال سے نجات اور بہتر زندگی کی امید میں اسمگلروں کو 500 ڈالر ادا کر کے اپنے اہلخانہ سمیت کشتی پر سوار ہونے کا فیصلہ کیا تھا مگر یمن میں انہیں صرف دکھ ہی ملا۔
زندہ رہنے کے لیے عمر گاڑیاں دھوتا رہا اور دن بھر کی محنت سے چند ڈالر ہی کما پاتا تھا۔ موغادیشو میں برسوں تعمیراتی کام کرنے والے عمر کو امید تھی کہ یمن میں (جہاں وہ نوعمری کے دوران سعودی عرب جاتے ہوئے گزر چکے تھے) بہتر حالات اور تنخواہ ملے گی۔
مگر یہ اس وقت کی بات تھی، جب کئی برسوں پر محیط خانہ جنگی نے لاکھوں شہریوں کی جانیں نہیں لی تھیں، بنیادی ڈھانچہ تباہ نہیں ہوا تھا اور ملک حوثی باغیوں اور بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ حکومت کے درمیان تقسیم نہیں ہوا تھا۔
عبداللہ عمر نے اقوام متحدہ کے اس پروگرام میں اندراج کے بارے میں بھی بتایا، جو ان کی صومالیہ واپسی کا راستہ ہموار کر رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ''یہاں میرے پاس کچھ بھی نہیں، نہ کام ہے، نہ پیسہ، نہ بچوں کے لیے سکول۔"
بے روزگاری اور مشکل حالات
حالانکہ حالات انتہائی خراب ہیں لیکن پھر بھی رواں سال اکتوبر میں تقریباً 17 ہزار افریقی یمن پہنچے، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق جبوتی اور صومالیہ سے ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ گزشتہ ماہ کے مقابلے میں 99 فیصد اضافہ ہے۔
یمن میں رجسٹرڈ 61 ہزار مہاجرین اور پناہ گزینوں میں سے تقریباً 63 فیصد صومالی ہیں۔
عدن میں، جہاں یمنیوں میں بھی بے روزگاری آسمان کو چھو رہی ہے، افریقی مہاجرین کے لیے کوئی جگہ بنانا تقریباً ناممکن ہے۔
اقوام متحدہ کے 2025ء کے ابتدائی اعداد و شمار کے مطابق یمن کے 19.5 ملین سے زائد افراد (یعنی آبادی کا آدھے سے زیادہ حصہ) انسانی ہمدردی کی امداد کے محتاج ہیں اور ان میں 48 لاکھ اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے افراد بھی شامل ہیں۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران اس ملک کی معاشی صورتحال کرنسی کی قدر میں کمی، تیل کی برآمدات کے رکنے اور عالمی امداد میں کمی کی وجہ سے مزید خراب ہوئی ہے۔
دوسری طرف صومالیہ بھی اپنی خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے اور القاعدہ سے وابستہ شدت پسند گروپ الشباب اب بھی ملک کے بڑے حصوں پر قابض ہے۔ تاہم دارالحکومت موغادیشو میں گزشتہ چند برسوں سے نسبتاً امن کی وجہ سے استحکام آیا ہے اور شہر کے کچھ حصوں میں تعمیراتی سرگرمیوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے، اگرچہ صورتحال اب بھی نازک ہے۔
'اگر امن ہو جائے‘
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے ایک سروے کے مطابق یمن سے واپس جانے والے 56 فیصد صومالیوں نے ”آمدنی کے مواقع نہ ہونا" اپنی واپسی کی بنیادی وجہ قرار دیا۔
اقوام متحدہ کے رضاکارانہ واپسی پروگرام کے سربراہ اویس العزان بتاتے ہیں، ''بہت سے مہاجرین صومالیہ واپس جانا چاہتے ہیں مگر اسمگلروں کے لیے پیسے یا ہوائی ٹکٹ کا خرچہ اٹھانے کی استطاعت نہیں رکھتے۔‘‘ اقوام متحدہ کا یہ پروگرام خاندانوں کو مفت سفری سہولت اور واپسی کے بعد ابتدائی امداد کے لیے نقدی فراہم کرتا ہے۔
رواں سال اب تک اقوام متحدہ 500 سے زائد صومالیوں کو واپس بھیج چکا ہے اور سال کے آخر تک مزید تین پروازوں کے ذریعے تقریباً 450 افراد کو واپس بھیجنے کا منصوبہ ہے۔
ان میں ایک نام احمد ابو بکر مرزوق کا بھی ہے، جو 25 سال پہلے یمن آئے، وہاں دو شادیاں کیں اور فیملی بڑھائی۔ کئی سالوں تک خوشحال رہے، باقاعدگی سے گھر پیسے بھیجتے رہے اور موغادیشو میں دو گھر بھی بنوائے۔ لیکن پھر یمن میں جنگ شروع ہو گئی۔ 58 سالہ مرزوق کہتے ہیں، ''گزشتہ تین چار سال سے کوئی کام نہیں۔‘‘ ان کا کہنا ہے کہ اب یمن کی بجائے صومالیہ کے حالات بہتر ہیں۔
ان کا کہنا تھا، ”میرے بھائی وہاں کاشتکاری کر رہے ہیں۔ اگر امن ہو گیا تو یمن واپس آ جاؤں گا، ورنہ نہیں آؤں گا۔‘‘