اس مرتبہ کورونا وائرس کا خوف عید پر بھی اپنوں کو اپنوں سے قریب نہ لاپایا۔ بہت سے لوگ اپنے والدین اور پیاروں کے تحفظ کی خاطر عید پر گھر میں ہی رہے اور رشتہ داروں سے ملاقاتیں نہ کیں۔
اشتہار
راولپنڈی کی ایک رہائشی علینہ فہد کا کہنا تھا،''میں دو ماہ سے اپنے گھر میں ہوں۔ میرے والد کی عمر 65 سال سے زیادہ ہے اور والدہ تھائیروڈ کی مریضہ ہیں۔ لاک ڈاؤن سے قبل میں ان سے باقاعدگی سے ملنے جاتی تھی۔ لیکن قریب دو ماہ سے میں نے ان سے ملاقات نہیں کی تھی صرف اس لیے کہ کہیں میرے ملنے سے ان تک وائرس منتقل نہ ہوجائے۔ لیکن عید پر علینہ کو اپنے والدین کی یاد ان کے گھر تک لے گئی۔ علینہ کا کہنا ہے۔ میں بہت اداس تھی فون پر بات کرنے سے تسلی نہیں ہوئی تھی۔ میرے شوہر، میں نے اور میرے بچوں نے ماسک پہنے، دستانے پہنے اور دور دور سے اپنے والدین سے ملاقات کی ، نہ ہاتھ ملائے، نہ گلے لگے اور نہ ہی وہ ہمارے سروں پر ہاتھ رکھ سکے۔ یہ بہت ہی عجیب تجربہ تھا۔‘‘
پاکستان سے علینہ فاروق شیخ نے اپنا تجربہ بتاتے ہوئے کہا،''گزشتہ برس میرے شوہر کے تایا کا انتقال ہوا تھا۔ ان کی وفات کے بعد ان کے گھر پہلی عید تھی۔ میرے شوہر اپنے مرحوم تایا کے گھر جانا چاہتے تھے، ان کے خاندان سے تعزیت کرنا چاہتے تھے لیکن وہ نہیں گئے۔ ہم نے ان کے اہل خانہ سے ویڈیو کال کے ذریعے گفتگو کی، سب کی آنکھیں نم تھیں لیکن ہم فاصلے کی بنا ایک دوسرے سے گلے نہیں مل سکے۔‘‘
کراچی کی رہائشی عنبرین نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا،''پاکستان میں دادی اور پھپو کے سوائے ہمارا کوئی بھی رشتے دار نہیں، مگر کورونا وائرس کی وجہ سے ہم ان سے ملاقات کے لیے نہیں جا سکے۔ وہ کافی ضعیف اور علیل ہیں اور فالج کے باعث چلنے پھرنے اور اٹھ بیٹھ بھی نہیں سکتے۔ پھپو نے چاند رات والے دن فون کر کے کہا کہ موجودہ صورت حال کے باعث آپ ان سے ویڈیو پر ہی عید مل لیں۔‘‘
صائمہ لیاقت نے کراچی سے ڈی ڈبلیو کو بتایا،'' میرے والد لاہور میں رہتے ہیں۔ انہیں اس سال جنوری میں برین ہیمریج ہوا۔ میں جب بھی ان سے بات کرتی ہوں وہ کہتے ہیں کہ انہیں میں بہت یاد آتی ہون۔ دل چاہتا ہے کہ اڑ کے ان کے پاس چلی جاؤں۔ لیکن نہ وہ آسکتے ہیں اور نہ میں جا سکتی ہوں۔''
پاکستانی صحافی رینا سعید خان نے عید گزارنے کے تجربے پر گفتگو کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''میری والدہ لاہور میں ہیں۔ میں ان سے گزشتہ دو ماہ سے نہیں مل سکی۔ میری بہنوں نے انہیں ایک الگ کمرے میں رکھا ہوا ہے تاکہ وہ اس وبا کے دوران محفوظ رہیں۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ اسلام آباد سے سفر کر کے میں لاہور جاؤں اور اپنی والدہ کی زندگی کو خطرے میں ڈالوں۔‘‘رینا کا کہنا تھا کہ یہ وقت پاکستان میں سب سے خطرناک ہے، کورونا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔ امید کے جون کے وسط تک اس وبا کے پھیلاؤ میں کچھ کمی آئے۔
پاکستان میں کورونا وائرس کے کیسز میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ ملک میں 56,762 افراد میں اس مرض کی تشخیص ہوئی ہے اور قریب ڈیڑھ ہزار افراد کووڈ انیس مرض کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں۔
ہوائی سفر کی اب ممکنہ شکل کیا ہو گی؟
کورونا وائرس کی وبا نے دنیا بھر کو اور زندگی کے قریب ہر شعبے کو متاثر کیا ہے۔ اسی سبب ہوائی سفر بھی ابھی تک شدید متاثر ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کہ مستقبل میں ہوائی سفر ممکنہ طور پر کس طرح ہو گا۔
تصویر: Aviointeriors
بجٹ ایئرلائنز
بجٹ ایئر لائنز جو دنیا بھر میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو سفری سہولیات فراہم کرتی ہیں وہ خاص طور پر کورونا لاک ڈاؤن کے سبب تحفظات کا شکار ہیں۔ ایسی تمام ایئرلائنز جن کے زیادہ تر جہاز چند منٹ ہی زمین پر گزارتے تھے اور پھر مسافروں کو لے کر محو پرواز ہوجاتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/epa/Airbus
گراؤنڈ پر زیادہ وقت
کورونا لاک ڈاؤن کے بعد جب ایسے ہوائی جہاز اڑنا شروع کریں گے تو انہیں دو پروازوں کے درمیان اب زیادہ دیر تک گراؤنڈ پر رہنا پڑے گا۔ طویل فاصلوں کی دو پروازوں کے درمیان یہ لازمی ہو گا کہ اس دوران جہاز کو جراثیم کش مصنوعات سے مکمل طور پر صاف کیا جائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H.A.Q. Perez
سست رفتار بورڈنگ
سماجی فاصلے کو یقینی بنانے کے سبب مسافروں کو ایک دوسرے سے فاصلے پر رہنا ہو گا اور اسی سبب بورڈنگ کا عمل بھی سست رہے گا اور لوگوں کو زیادہ دیر تک انتظار کرنا پڑے گا۔
تصویر: imago images/F. Sorge
سیٹوں کے درمیان فاصلہ
ابھی تک یہ بات ثابت نہیں ہوا کہ دو سیٹوں کے درمیان ایک سیٹ خالی چھوڑنے سے کورونا کے انفیکشن کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ جرمن ایئرلائن لفتھانزا جو یورو ونگز کی بھی مالک ہے، ابھی تک اس طرح کی بُکنگ فراہم نہیں کر رہی۔ ایک اور بجٹ ایئرلائن ایزی جیٹ البتہ ابتدائی طور پر اس سہولت کے ساتھ بُکنگ شروع کرنا چاہتی ہے کہ ہر دو مسافروں کے درمیان ایک سیٹ خالی ہو گی۔
ایوی ایشن کنسلٹنگ کمپنی ’’سمپلیفائنگ‘‘ کا خیال ہے کہ دیگر حفاظتی اقدامات کے علاوہ مسافروں کے لیے یہ بھی لازمی ہو گا کہ وہ چیک اِن سے قبل اپنا امیونٹی پاسپورٹ بھی اپ لوڈ کریں جس میں یہ درج ہو گا کہ آپ کے جسم میں اینٹی باڈیز یا کورونا کے خلاف قوت مدافعت موجود ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Soeder
ایئرپورٹس پر طویل وقت
مسافروں کو ممکنہ طور پر اپنی پرواز سے چار گھنٹے قبل ایئرپورٹ پر پہنچنا ہو گا۔ انہیں ممکنہ طور پر ڈس انفیکٹینٹس ٹنل سے بھی گزرنا ہو گا اور چیک ان ایریا میں داخلے سے قبل ایسے اسکینرز میں سے بھی جو ان کے جسم کا درجہ حرارت نوٹ کریں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Marks
جہاز میں بھی ماسک کا استعمال
جرمنی ایئرلائن لابی BDL نے تجویز دی ہے کہ جہاز میں سوار تمام مسافروں کے لیے ناک اور منہ پر ماسک پہنا لازمی ہو سکتا ہے۔ لفتھانزا پہلے ہی اسے لازمی قرار دے چکی ہے۔ جیٹ بلو ایئرلائن بھی امریکا اور کینڈا میں دوران پرواز ماسک پہنے رکھنا لازمی قرار دے چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
سامان کی بھی پریشانی
یہ بھی ممکن ہے کہ مسافروں کے ساتھ ساتھ مسافروں کے سامان کو الٹرا وائلٹ شعاؤں کے ذریعے ڈس انفیکٹ یا جراثیم وغیرہ سے پاک کیا جائے۔ لینڈنگ کے بعد بھی کنویئر بیلٹ پر رکھے جانے سے قبل اس سامان کو دوبارہ جراثیم سے پاک کیا جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Stolyarova
مختلف طرح کی سیٹیں
جہازوں کی سیٹیں بنانے والے مختلف طرح کی سیٹیں متعارف کرا رہے ہیں۔ اٹلی کی ایک کمپنی نے ’گلاس سیف‘ ڈیزائن متعارف کرایا ہے جس میں مسافروں کے کندھوں سے ان کے سروں کے درمیان ایک شیشہ لگا ہو گا جو دوران پرواز مسافروں کو ایک دوسرے سے جدا رکھے گا۔
تصویر: Aviointeriors
کارگو کیبن کا ڈیزان
ایک ایشیائی کمپنی ’ہیکو‘ نے تجویز دی ہے کہ مسافر کیبن کے اندر ہی کارگو باکس بھی بنا دیے جائیں۔ ابھی تک کسی بھی ایئرلائن نے اس طرح کے انتظام کے لیے کوئی آرڈر نہیں دیا۔ اس وقت مسافر سیٹوں کی نسبت سامان کے لیے زیادہ گنجائش پیدا کرنے کی طلب بڑھ رہی ہے۔
تصویر: Haeco
فضائی میزبانوں کے لیے بھی نیا تجربہ
کیبن کریو یا فضائی میزبان بھی دوران پرواز خصوصی لباس زیب تن کریں گے اور ساتھ ہی وہ دستانے اور چہرے پر ماسک کا استعمال بھی کریں گے۔ اس کے علاوہ انہیں ہر نصف گھنٹے بعد اپنے ہاتھوں وغیرہ کو سینیٹائز کرنا ہو گا۔ بزنس اور فرسٹ کلاس کے لیے محفوظ طریقے سے سیل شدہ کھانے دستیاب ہوں گے۔