پاکستان: نہ ہسپتالوں میں جگہ اور نہ ہی آکسیجن سلنڈر میسر
بینش جاوید
15 جون 2020
پاکستانی ڈاکٹرز کا مطالبہ ہے کہ ملک میں لاک ڈاؤن نافذ کیا جائے۔ ہسپتالوں میں کورونا سے متاثرہ مریضوں کے لیے مزید بستر میسر نہیں ہیں۔ گھر بھیجے جانے والے مریض بھی آکسیجن سلنڈر کی کمی کے باعث اپنی دیکھ بھال نہیں کر پا رہے۔
اشتہار
پاکستانی شہر لاہور سے ڈاکٹر عمر شفیق نے فون پر گفتگو کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''حکومت نے لاہور میں کووڈ انیس کے مریضوں کے لیے 241 وینٹیلیٹرز مختص کیے تھے۔ آج کی تاریخ میں نوے فیصد وینٹیلیٹرز زیر استعمال ہیں۔ اس وقت مایو ہسپتال کے علاوہ لاہور کے تمام بڑے ہسپتالوں میں نہ ہی مزید مریضوں کے لیے وینٹیلیٹرز دستیاب ہیں اور نہ ہی بیڈز۔‘‘ ڈاکٹر شفیق کے مطابق مالی استطاعت رکھنے والے گھرانے اپنے مریضوں کو پرائیویٹ ہسپتالوں میں داخل کرا رہے ہیں جہاں وہ یومیہ ایک سے ڈیڑھ لاکھ روپے ہسپتال کی فیس دے رہے ہیں۔ لاہور کی صورتحال بتاتے ہوئے ڈاکٹر شفیق کا کہنا تھا کہ جن مریضوں کو ہسپتال میں بیڈز کی کمی کے باعث گھر بھیجا جا رہا ہے وہ بھی آکسیجن سلنڈرز کی کمی اور ان کی مہنگی قیمتوں کے باعث اپنا خیال نہیں رکھ پا رہے۔
ڈاکٹر شفیق نے بتایا، ''تین سے چار ہزار روپے میں فروخت ہونے والا سلنڈر اس وقت مارکیٹ میں بیس ہزار روپے میں فروخت کیا جا رہا ہے۔ کووڈ انیس کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی بارہ ہزار روپے کی دوائی بلیک میں چھ لاکھ روپے تک میں فروخت کی گئی ہے۔‘‘ ڈاکٹر شفیق نے کہا کہ ملک میں پلازمہ عطیہ کرنے کی مہم اور غریب مریضوں کی مالی امدد کرنے کی مہم ڈاکٹر اور سول سوسائٹی کے اراکین مل کر چلا رہے ہیں۔ حکومت ہسپتالوں کی استطاعت نہیں بڑھا سکتی تو کم از کم مہنگے داموں طبی ساز سامان فروخت کرنے والوں پر تو قابو پانے کی کوشش کر سکتی ہے۔
خیبر پختونخوا کی صورتحال پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر رضوان کنڈی نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ''کورونا وبا کی صورتحال شدت اختیار کر گئی ہے۔ ہسپتالوں میں جو بیڈز کورونا وائرس سے متاثرہ مریضوں کے لیے مختص کیے گئے تھے وہ ختم ہو چکے ہیں۔ آئی سی یو میں بھی بیڈز میسر نہیں ہیں۔‘‘ ڈاکٹر کنڈی نے کہا کہ صوبے کا قریب تیس سے چالیس فیصد طبی عملہ کووڈ انیس سے متاثر ہو چکا ہے جن میں ساڑھے پانچ سو ڈاکٹرز شامل ہیں اور اب تک تین ڈاکٹرز ہلاک بھی ہو چکے ہیں۔
خیبر پختونخوا کے ایک اور ڈاکٹر فہیم اللہ محسود کا کہنا ہے کہ ڈاکٹرز کا شروع سے یہی مطالبہ تھا کہ کورونا وائرس کے زور کو توڑنے کے لیے لاک ڈاون ضروری ہے۔ عید کے دنوں میں لاک ڈاون میں نرمی کی گئی اب حال یہ ہے کہ بیڈز ہی نہیں مل رہے۔ ڈاکٹر فہیم کے مطابق اسمارٹ لاک ڈاون اثر نہیں کرے گا کیوں کہ لوکل ٹرانسمیشن بڑھ چکا ہے اب ملک میں مکمل لاک ڈاون کی ضرروت ہے۔
لاک ڈاؤن کو ممکن بنانے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں کی کارروائیاں
کورونا وائرس کی وجہ دنیا بھر کے متعدد ممالک میں لاک ڈاؤن کیا گیا ہے تاکہ اس عالمی وبا کے پھیلاؤ کے عمل میں سستی پیدا کی جا سکے۔ کئی ممالک میں اس لاک ڈاؤن کو یقینی بنانے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں کی مدد بھی طلب کرنا پڑی ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
لاہور، پاکستان
لاک ڈاؤن کے باوجود پاکستان کے متعدد شہروں میں لوگوں کو سڑکوں پر دیکھا جا سکتا ہے۔ لاہور میں پولیس اہلکاروں کی کوشش ہے کہ لوگوں کو باہر نہ نکلنے دیا جائے تاہم ان کی یہ کوشش کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔
تصویر: DW/T. Shahzad
موغادیشو، صومالیہ
افریقی ملک صومالیہ میں بھی نئے کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا ہے۔ تاہم دارالحکومت موغادیشو میں لوگ معاملے کی نزاکت کو نہیں سمجھ پا رہے۔ اس لاک ڈاؤن کو مؤثر بنانے کے لیے کئی مقامات پر سکیورٹی اہلکاروں نے شہریوں کو اسلحہ دکھا کر زبردستی گھر روانہ کیا۔
تصویر: Reuters/F. Omar
یروشلم، اسرائیل
اسرائیل میں بھی کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر لاک ڈاؤن کیا جا چکا ہے۔ تاہم اس یہودی ریاست میں سخت گیر نظریات کے حامل یہودی اس حکومتی پابندی کے خلاف ہیں۔ بالخصوص یروشلم میں ایسے لوگوں کو گھروں سے باہر نکلنے سے روکنے کی خاطر پولیس کو فعال ہونا پڑا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
برائٹن، برطانیہ
برطانیہ بھی کورونا وائرس سے شدید متاثر ہو رہا ہے، یہاں تک کے اس ملک کے وزیر اعظم بورس جانسن بھی اس وبا کا نشانہ بن چکے ہیں۔ برطانیہ میں لاک ڈاؤن کيا گیا ہے لیکن کچھ لوگ اس پابندی پر عمل درآمد کرتے نظر نہیں آ رہے۔ تاہم پولیس کی کوشش ہے کہ بغیر ضرورت باہر نکلنے والے لوگوں کو واپس ان کے گھر روانہ کر دیا جائے۔
تصویر: Reuters/P. Cziborra
گوئٹے مالا شہر، گوئٹے مالا
گوئٹے مالا کے دارالحکومت میں لوگ کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سڑکوں پر نکلنے سے نہیں کترا رہے۔ گوئٹے مالا شہر کی پولیس نے متعدد لوگوں کو گرفتار بھی کر لیا ہے۔
تصویر: Reuters/L. Echeverria
لاس اینجلس، امریکا
امریکا بھی کورونا وائرس کے آگے بے بس نظر آ رہا ہے۔ تاہم لاک ڈاؤن کے باوجود لوگ سڑکوں پر نکلنے سے گریز نہیں کر رہے۔ لاس اینجلس میں پولیس گشت کر رہی ہے اور لوگوں کو گھروں میں رہنے کی تاکید کی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Grillot
چنئی، بھارت
بھارت میں بھی لاک ڈاؤن کیا گیا ہے لیکن کئی دیگر شہروں کی طرح چنئی میں لوگ گھروں سے باہر نکلنے سے باز نہیں آ رہے۔ اس شہر میں پولیس اہلکاروں نے لاک ڈاؤن کی خلاف وزری کرنے والوں پر تشدد بھی کیا۔
تصویر: Reuters/P. Ravikumar
کھٹمنڈو، نیپال
نیپال میں بھی لوگ حکومت کی طرف سے جاری کردہ حفاظتی اقدامات پر عمل کرتے نظر نہیں آ رہے۔ کھٹمنڈو میں پولیس اہلکاروں کی کوشش ہے کہ لوگ نہ تو گھروں سے نکليں اور نہ ہی اجتماعات کی شکل میں اکٹھے ہوں۔
تصویر: Reuters/N. Chitrakar
احمد آباد، بھارت
بھارتی شہر احمد آباد میں لاک ڈاؤن کو مؤثر بنانے کے لیے خصوصی پولیس کے دستے تعینات کر دیے گئے ہیں۔ یہ اہلکار سڑکوں پر گشت کرتے ہیں اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Dave
ماسکو، روس
روسی دارالحکومت ماسکو میں بھی جزوی لاک ڈاؤن کیا جا چکا ہے تاکہ نئے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد مل سکے۔ تاہم اس شہر میں بھی کئی لوگ اس لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرتے دیکھے گئے ہیں۔ ریڈ اسکوائر پر دو افراد کو پولیس کی پوچھ گچھ کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
بنکاک، تھائی لینڈ
تھائی لینڈ میں بھی لاک ڈاؤن کر دیا گیا ہے، جہاں گھروں سے باہر نکلنے والے افراد کو پولیس کے سامنے بیان دینا پڑتا ہے کہ ایسی کیا وجہ بنی کہ انہیں گھروں سے نکلنا پڑا۔ ضروری کام کے علاوہ بنکاک کی سڑکوں پر نکلنا قانونی طور پر بند کر دیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Silva
ریو ڈی جینرو، برازیل
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر برازیل میں بھی پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں لیکن موسم گرما کے آغاز پر مشہور سیاحتی شہر ریو ڈی جینرو کے ساحلوں پر کچھ لوگ دھوپ سینکنے کی خاطر نکلتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو وہاں تعینات پولیس اہلکاروں کے سامنے جواب دینا پڑتا ہے۔
تصویر: Reuters/L. Landau
کیپ ٹاؤن، جنوبی افریقہ
جنوبی افریقہ میں بھی حکومت نے سختی سے کہا ہے کہ لوگ بلا ضرورت گھروں سے نہ نکلیں۔ اس صورت میں انہیں خصوصی سکیورٹی اہلکاروں کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کیپ ٹاؤن میں پولیس اور فوج دونوں ہی لاک ڈاؤن کو موثر بنانے کی کوشش میں ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Hutchings
ڈھاکا، بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش میں بھی سخت پابندیوں کے باوجود لوگ سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔ تاہم اگر ان کا ٹکراؤ پوليس سے ہو جائے تو انہیں وہیں سزا دی جاتی ہے۔ تاہم انسانی حقوق کے کارکن اس طرح کی سزاؤں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
تصویر: DW/H. U. R. Swapan
14 تصاویر1 | 14
اسی طرح پاکستانی صوبے بلوچستان سے ڈاکٹر رحیم خان کا کہنا تھا کہ طبی عملے کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ ہسپتالوں میں بنیادی سہولیات کی کمی اور عوام میں آگاہی کی کمی کے باعث ڈاکڑز کا مورال پستی کی طرف جا رہا ہے۔ ڈاکٹرز کے خلاف پروپگینڈا کیا جا رہا ہے اور کچھ ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔ ڈاکٹر رحیم نے بتایا کہ بلوچستان کے دو سو سے زائد ڈاکٹر کورونا وائرس ے متاثر ہوئے ہیں اور چار ڈاکٹرز اس مرض کے باعث ہلاک ہو چکے ہیں۔
پاکستان میں لاک ڈاون سے متعلق حکومتی پالیسی واضح نہیں رہی۔ گزشتہ ہفتے عالمی ادارہء صحت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ پاکستان کو فوری طور پر لاک ڈاون کرنا ہوگا۔ پاکستان لاک ڈاون اٹھانے کی کسی ایک شرط کو بھی پورا نہیں کرتا۔ گزشتہ روز پاکستانی وزیر اسد عمر کی جانب سے یہ اعلان کیا گیا کہ حکومت اسمارٹ لاک ڈاون کی حکمت عمل پر کام کر رہی ہے۔ لاک ڈاون ست متعلق حکومتی پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے سلمان صوفی فاونڈیشن کے بانی سلمان صوفی، جو خود بھی کورونا وائرس سے متاثر ہیں، نے ڈی ڈبلیو اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''لاک ڈاون نے پوری دنیا میں مثبت نتائج دیے ہیں۔ حکومت کا موقف رہا ہے کہ ملک میں غربت ہے عوام کے پاس کھانے پینے کے وسائل نہیں ہیں۔ لیکن اگر لوگ بیمار پڑیں گے تو وہ دوائیاں کیسے خریدیں گے اور علاج کیسے کرائیں گے۔ وہ گھر میں بھی اپنا خیال نہیں کر سکتے ہیں۔ لاک ڈاون فوری طور پر کیا جانا چاہیے معاشی نقصان تو ہوگا لیکن اگر بیماری بڑھے گی تو حکومت کو دوائیوں، طبی ساز وسامان کی بر آمد وغیرہ پر زیادہ پیسہ خرچ کرنا پڑے گا۔‘‘