نیا اسرائیلی قانون ’نسلی بنیادوں پر امتیازی‘ ہے، سعودی عرب
21 جولائی 2018
سعودی عرب نے اسرائیلی پارلیمان کی طرف سے ملک کو یہودیوں کی قومی ریاست قرار دینے کے متنازعہ قانون کی منظوری کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ریاض حکومت کے مطابق یہ قانون فلسطینیوں کے خلاف نسلی امتیاز کی وجہ بنے گا۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے سعودی حکومت کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ اسرائیل کو یہودیوں کی قومی ریاست قرار دینے کے قانون کی منظوری کے سبب فلسطینیوں کے خلاف ’نسلی بنیادوں پر امتیازی سلوک کو تقویت‘ ملے گی۔ اسرائیلی پارلیمان نے اس متنازعہ قانون کو جمعرات کے دن منظور کیا تھا، جس کے تحت یہودی بستیوں کی تعمیر کو ’قومی مفاد‘ قرار دیا گیا ہے۔
اس قانون کے مطابق اسرائیل میں عربی کے سرکاری زبان کے درجے کو بھی ختم کر دیا گیا ہے اور اس زبان کو ایک ’خصوصی درجہ‘ دیا گیا ہے۔ سعودی عرب کی سرکاری نیوز ایجنسی نے سعودی وزارت خارجہ کے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا ہے کہ ریاض حکومت اسرائیل کی طرف سے منظور کیے گئے اس نئے قانون کو ’مسترد‘ کرتی ہے۔ ساتھ ہی یہ دلیل بھی دی گئی ہے کہ یہ قانون بین الاقوامی قوانین سے بھی متصادم ہے۔
سعودی پریس ایجنسی نے ذرائع کے حوالے سے مزید کہا کہ بین الاقوامی برادری کو چاہیے کہ وہ ’اس قانون اور ایسی دیگر اسرائیلی کوششوں کو چیلنج کرے، جن سے فلسطینیوں کے ساتھ امتیازی سلوک کے امکانات بڑھ سکتے ہیں۔ مزید یہ کہ اس طرح کے قوانین اسرائیل اور فلسطینی تنازعے کے حل کی راہ میں بھی رکاوٹ ہیں۔
اسرائیل کو یہودیوں کی ایک قومی ریاست قرار دینے کا بل دائیں بازو کے قانون سازوں کی طرف سے پیش کیا گیا تھا جبکہ سول آزادی اور بالادستی کی تنظمیوں کی طرف سے اس کی شدید مخالفت کی گئی تھی۔ جمعرات کو ہونے والی پارلیمانی ووٹنگ میں پچپن اراکین نے اس بل کی مخالفت جبکہ باسٹھ ممبران نے اس کی حمایت کی تھی۔
اسرائیلی پارلیمان کی طرف سے منظور کیے گئے اس قانون پر گلف کوآپریشن کونسل (جی سی سی ) کے رکن ممالک بحرین، کویت، عمان، قطر اور متحدہ عرب امارات نے بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
نیوز ایجنسی SPA نے جی سی سی کے ترجمان الزیانی کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل کی کوشش ہے کہ وہ فلسطینیوں کی قومی شناخت کو ختم کر دے۔ اس بیان میں الزیانی نے الزام عائد کیا کہ ایسے اسرائیلی اقدامات کی وجہ سے فلسطینی باشندے اپنے ہی وطن میں جائز شہری اور انسانی حقوق سے محروم ہو جائیں گے۔
مصر نے بھی اسرائیلی پارلیمان کی طرف سے ملک کو یہودیوں کی قومی ریاست قرار دینے کے اس متنازعہ قانون کی منظوری کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے۔ قاہرہ حکومت نے ہفتے کے روز خبردار کیا کہ یہ اسرائیلی قانون خطے میں امن کوششوں کے لیے نقصان دہ ہو گا۔ اسی طرح یورپی یونین اور دیگر عرب ریاستوں نے بھی اس پیشرفت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ع ب / م م / خبر رساں ادارے
یروشلم سن 1967 میں اور اب سن 2017 میں؟
فلسطینی اسرائیلی تنازعے میں یروشلم ایک اہم وجہ اختلاف قرار دیا جاتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ سن 1967 کی چھ روزہ جنگ میں یہ شہر کیسا تھا اور اب تقریبا پچاس برس بعد یہ کیسا دکھتا ہے؟
تصویر: Reuters/A. Awad
آج کا ’جبل زیتون‘
’ماؤنٹ آف اولیوَز‘ یا جبل زیتون سے لی گئی اس تصویر میں یروشلم کا منظر نمایاں ہے۔ سنہری رنگت والا ’گنبد الصخرا‘ قدیمی شہر کے مشرق میں واقع ہے۔ اس مقام پر یہودیوں کا قدیمی قبرستان بھی ہے۔ یہاں زیتون کے درخت بہتات میں پائے جاتے تھے، اس مقام کا نام اسی نسبت سے رکھا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’جبل زیتون‘
عرب اسرائیل چھ روزہ جنگ پانچ سے دس جون تک جاری رہی تھی۔ یہ تصویر سات جون سن 1967 کو لی گئی تھی۔ اگر اس تصویر میں قدیمی شہر واضح نہ ہوتا تو دیکھنے والا شائد سمجھ نہ سکتا کہ یہ کون سا مقام ہے۔
تصویر: Government Press Office/REUTERS
آج کی الاقصیٰ مسجد
یہ مسجد ٹمپل ماؤنٹ میں واقع ہے۔ یہ مقام نہ صرف مسلمانوں کے لیے انتہائی مقدس ہے بلکہ یہودیت میں بھی اسے بہت زیادہ احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ یہودی روایات کے مطابق اسی مقام پر دو انتہائی مقدس ٹمپل تھے، جن کا تذکرہ بائیبل میں بھی ملتا ہے۔ مکہ اور مدینہ کے بعد اسلام میں یہ تیسرا سب سے زیادہ مقدس مقام ہے۔ اسی طرح مسیحیت میں بھی ٹمپل ماؤنٹ مذہبی اعتبار سے بہت مقدس ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کی الاقصیٰ مسجد
الاقصیٰ مسجد یروشلم کی سب سے بڑی مسجد ہے۔ چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اسرائیل نے اس علاقے کا کنٹرول بھی سنبھال لیا تھا۔ تب سے یہاں اسرائیلی حکومت کا سخت کنٹرول ہے۔ تاہم اتفاق کیا گیا تھا کہ یروشلم میں واقع ٹمپل ماؤنٹ کا انتظام ’وقف‘ نامی ایک مسلم مذہبی ٹرسٹ چلائے گی۔
تصویر: Reuters/
آج کا ’باب دمشق‘
یروشلم کا یہ تاریخی دروازہ قدیمی شہر میں داخل ہونے کا ایک انتہائی اہم راستہ ہے۔ گزشتہ دو برسوں سے اسی علاقے میں فلسطینوں کی طرف سے اسرائیلیوں پر کیے جانے والے حملوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج کل یہ مقام سکیورٹی کے حوالے سے انتہائی اہم تصور کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کا ’باب دمشق‘
یہ دروازہ جولائی سن 1537 میں عثمانیہ دور کے سلطان سلیمان نے بنوایا تھا۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لے گئی ہے، جس میں یہ دروازہ واضح دکھائی دے رہا ہے۔ قدیمی شہر میں داخل ہونے کے سات دروازے ہیں، جن میں سے یہ ایک ہے۔
تصویر: Reuters/
آج کا قدیمی شہر
یروشلم کا قدیمی شہر سن انیسو اکیاسی سے یونیسکو کی عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ یہ مختلف مذاہب کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔ مسلمانوں کی مسجد الاقصیٰ اور گنبد الصخرہ کے علاوہ یہودیوں کا ٹمپل ماؤنٹ اور ویسٹرن وال بھی یہیں واقع ہیں جبکہ مسیحیوں کا مقدس ترین مقام ’چرچ آف دی ہولی سپلکر‘ بھی یروشلم میں ہے۔
تصویر: Reuters/A. Awad
تب کا قدیمی شہر
یہ مقام ہمیشہ سے ہی انتہائی مصروف رہا ہے، جہاں دکانیں بھی ہیں اور سیاحوں کے لیے دلکش مناظر بھی۔ یہ تصویر جولائی سن 1967 میں لی گئی تھی۔ پچاس سال بعد بھی یروشلم کے اس قدیمی بازار میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے۔ یہ تب بھی انتہائی شاندار تھا اور اب بھی ویسا ہی ہے۔
تصویر: Reuters/Fritz Cohen/Courtesy of Government Press Office
آج کی ’مغربی دیوار‘
ویسٹرن وال (مغربی دیوار) یا دیوار گریہ یہودی مذہب میں بہت زیادہ مقدس تصور کی جاتی ہے۔ یہودی مذہب کے ماننے والے اس دیوار کو چھو کر اور اس کے ساتھ کھڑے ہو کر عبادت بھی کرتے ہیں۔ اس دیوار کی زیارت کی خاطر خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ مقامات تفویص بھی کیے گئے ہیں تاہم یہاں ہر کوئی سکیورٹی چیک کے بعد جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
تب کی ’مغربی دیوار‘
مغربی دیوار (ویسٹرن وال) کو دیوار گریہ بھی کہا جاتا ہے لیکن یہودی مذہب میں اسے حقارت آمیز اصطلاح تصور کیا جاتا ہے اور یہودی اسے اس نام سے نہیں پکارتے۔ یہ تصویر یکم ستمبر سن 1967 میں لی گئی تھی۔