شامی اپوزیشن کا وفد دمشق حکومت کے نمائندوں سے براہ راست مذاکرات کے لیے قزاقستان کے دارالحکومت آستانہ پہنچ گیا ہے۔ شام میں قیام امن کی خاطر یہ نیا مذاکراتی عمل کل پیر کے دن سے شروع ہو رہا ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ شامی اپوزیشن کی طرف سے اعلیٰ مذاکرت کار محمد علوش اتوار کی صبح آستانہ پہنچ گئے ہیں۔ آستانہ کے ہوائی اڈے پر موجود اے ایف پی کے ایک نمائندے نے بتایا ہے کہ علوش کے ہمراہ ان کے ساتھی بھی تھے، جو پیر سے شروع ہونے والے اس مذاکراتی عمل میں دمشق حکومت کے نمائندوں سے براہ راست مذاکرات کریں گے۔
حلب، جو کبھی شام کا ایک کاروباری مرکز ہوا کرتا تھا، اب کھنڈرات پر مشتمل ایک صحرا میں تبدیل ہو چکا ہے۔ اسد کی فوج اور باغیوں کے درمیان لڑائی نے ایک ہنستے بستے شہر کو کیسے بدل ڈالا ہے، اس کی ایک جھلک، اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/WYD Krakow2016
بمباری کے ہولناک اثرات
جہاں حلب شہر کا ایک حصہ بدستور صدر بشار الاسد کی فوج کے کنٹرول میں ہے، وہاں باغی دوسرے حصے کا دفاع جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دونوں جانب بے پناہ تباہی ہوئی ہے۔ اس تصویر میں شہر کا بنی زید نامی علاقہ دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Ourfalian
کھنڈرات کے پہاڑ
دُور دُور تک پھیلی اور قطار در قطار بنی رہائشی عمارات راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکی ہیں۔ ہر بمباری کے بعد امدادی کارکن ملبے تلے دب جانے والے انسانوں کی تلاش میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AA/I. Ebu Leys
امدادی کارکن مسلسل مصروف
اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے اسد کے فوجی دستوں کی جانب سے کیے جانے والے ایک حملے کے بعد باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں میں ملبہ ہٹایا جا رہا ہے۔ بعض اوقات امدادی کارکن خالی ہاتھوں سے ملبہ ہٹا کر لوگوں کو باہر نکالنے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. Sultan
دھوئیں کے ساتھ اسد کی فوج کا مقابلہ
باغیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں میں حکومتی افواج کی پیشقدمی کو روکنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے مثلاً حلب کے مشہد نامی علاقے میں ٹائر جلائے جا رہے ہیں تاکہ دبیز دھواں حملہ آوروں کی دیکھنے کی صلاحیت کو کسی قدر محدود بنا سکے۔
تصویر: picture-alliance/AA/B. el Halebi
بے گھر لوگ سر پر چھت کی تلاش میں
سر پر چھت سے محروم ہو جانے والے شہری اپنے لیے کوئی نیا ٹھکانہ تلاش کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ بے گھر شہری خیموں میں ہی نہیں بلکہ تباہ شُدہ موٹر گاڑیوں میں بھی رات بسر کر لیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AA/A.H. Ubeyed
بھاگ کر آنے والوں کے لیے رہائشی مکانات
شامی حکومت نے باغیوں کے زیر انتظام علاقوں میں بسنے والے شہریوں سے یہ کہہ رکھا ہے کہ وہ اُن علاقوں کو چھوڑ کر نکل آئیں۔ ایسے شہریوں کے لیے حلب شہر کے شمال میں نئی رہائشی عمارات تعمیر کی جا رہی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP-Photo
مساجد بھی نشانہ
شام میں گزشتہ کئی سال سے جاری خانہ جنگی کے دوران عبادت خانے بھی محفوظ نہیں رہے۔ شہر حلب کے قفر حمرہ نامی علاقے کی عمر بن خطاب مسجد کا حال اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/T. el Halebi
رات کو بھی سکون نہیں
رات کو بھی لڑائی جاری رہتی ہے۔ وقفے وقفے سے سیاہ دھوئیں کے بادل آسمان کی جانب بلند ہوتے نظر آتے ہیں۔ اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے حکومتی افواج کے اسلحے کے ایک گودام کو تباہ کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. Kurab
کھنڈرات کے پاس ہی باغیچہ
اس ساری تباہی کے بیچوں بیچ اپنے کھانے پینے کا انتظام کرنا بھی انسانوں کی مجبوری ہے مثلاً عبداللہ الکتماوی نے یہ ایک چھوٹا سا کچن گارڈن بنا رکھا ہے، جہاں وہ اپنے استعمال کی سبزی ترکاری پیدا کر لیتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. El Halabi
روٹی کے انتظار میں
شہر میں ایسے مناظر اکثر دکھائی دیتے ہیں۔ یہ منظر حلب کے ایک شمالی علاقے کا ہے، جس پر باغیوں کا کنٹرول ہے۔ یہ لوگ روٹی جیسی بنیادی اَشیائے خوراک کے حصول کے لیے دیر تک قطاریں بنائے کھڑے رہتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. Al-Masri
جنگ میں وقفہ
اس طرح کے جھولے شہر میں کبھی ایک جگہ دکھائی دیتے ہیں تو کبھی کسی دوسری جگہ۔ یہ جھولے غنیمت ہیں کہ ان کی وجہ سے بچے تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی لیکن جنگ کو بھول جاتے ہیں۔ یہ تصویر اس سال جولائی کے اوائل میں اُتاری گئی۔
تصویر: picture-alliance/AA/A.H. Ubeyed
جنگ کا کھیل
بچے جنگ کے مناظر کے عادی ہو چکے ہیں، اتنا زیادہ کہ وہ کھیل میں بھی جنگ کرتے نظر آتے ہیں۔ اس تصویر میں حلب شہر کے باغیوں کے زیر انتظام علاقے کے بچے پلاسٹک کے ہتھیاروں سے کھیل رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Alhalbi
گرجا گھرمیں عبادت
لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ سب کچھ ہی تباہ ہو چکا ہے۔ کیتھولک مسیحیوں کا یہ عبادت خانہ ابھی تک بمباری کا نشانہ بننے سے محفوظ رہا ہے۔ اسی گرجا گھر میں حال ہی میں سینکڑوں نوجوانوں نے ورلڈ یوتھ کانگریس کا جشن منایا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/WYD Krakow2016
13 تصاویر1 | 13
روس اور ترکی کی ثالثی کے نتیجے میں منعقد ہونے والے ان مذاکرات میں شامی اپوزیشن کا اتحاد ملک میں قیام امن کی خاطر صدر بشار الاسد کے وفد کے ساتھ متعدد پہلوؤں پر گفتگو کرے گا۔ شامی اپوزیشن کے وفد میں پہلی مرتبہ ادلب آرمی، جنوبی محاذ اور صقرالشام جیسے کئی اہم باغی گروہوں کے نمائندے بھی شامل ہیں۔
شامی باغیوں سے رابطے میں ایک سفارتکار نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا ہے کہ شامی اپوزیشن کے وفد میں آٹھ باغی رہنما شامل تھے، جس میں اب اضافہ کر کے اس کی تعداد چودہ کر دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ اس مذاکراتی ٹیم میں اکیس قانونی اور سیاسی مشیر بھی شامل ہیں۔
دوسری طرف دمشق حکومت کا وفد دس ارکان پر مشتمل ہے، جس کی سربراہی بشار الجعفری کر رہے ہیں، جو اقوام متحدہ میں شام کے سفیر کے طور پر بھی اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ یہ وفد بھی اتوار کے دن آستانہ پہنچ جائے گا۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس مذاکراتی عمل کے دوران باغیوں کا اصرار ہو گا کہ شام میں گزشتہ ماہ طے پانے والے جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد ممکن بنایا جائے۔ یہ سیز فائر روس اور ترکی کی کوششوں کے باعث ممکن ہوا تھا تاہم اس کے باوجود شام کے مختلف علاقوں میں تشدد کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
آستانہ مذاکرات کو منعقد کرانے میں شامی صدر بشار الاسد کا حامی ملک ایران بھی تعاون کر رہا ہے۔ ناقدین کے مطابق یہ مذاکراتی عمل اس نئی پارٹنر شپ کے لیے ایک امتحان ثابت ہو گا۔ اقوام متحدہ کے مندوب برائے شام اسٹیفان ڈے مستورا بھی ان مذاکرات میں شریک ہیں۔ روسی میڈیا کے مطابق ڈے مستورا نے اس نئے امن عمل کو شام کی خانہ جنگی کے خاتمے کی کوشش کے لیے ایک ’اچھا آغاز‘ قرار دیا ہے۔
حلب ’’ایک بڑے قبرستان‘‘ میں بدل جانے کے خطرے سے دو چار