نیا ایرانی لڑاکا طیارہ ’قاہر‘ اگلے ہفتے متعارف کرایا جائے گا
19 اگست 2018
ایرانی وزیر دفاع نے کہا ہے کہ تہران اپنا ایک نیا لڑاکا طیارہ اگلے ہفتے متعارف کرائے گا۔ امیر حاتمی کے مطابق ملکی فوج اپنی دفاعی میزائل صلاحیتوں کو بہتر بناتے ہوئے ان میں اضافہ بھی کرتی رہے گی، جو اولین ریاستی ترجیح ہے۔
تصویر: picture-alliance/abaca/Parspix/P. Isna
اشتہار
متحدہ عرب امارات میں دبئی سے موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران کا آئندہ ہفتے ایک نیا لڑاکا طیارہ متعارف کرانے اور مسقبل میں اپنے میزائل پروگرام پر بھی کام جاری رکھنے کا یہ اعلان خاص طور پر امریکا کی سیاسی اور عسکری خواہشات کے عین برعکس ہے۔
امریکا میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ چاہتی ہے کہ ایران کا علاقائی اثر و رسوخ کم کیا جائے اور تہران کو اپنے میزائلوں کی تیاری سے متعلق سرگرمیاں بھی محدو دکر دینا چاہییں۔ یہی نہیں بلکہ صدر ٹرمپ بین الاقوامی برادری کے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے امریکا کے اخراج کے اعلان کے بعد واشنگٹن کی طرف سے تہران پر اقتصادی پابندیاں بھی بحال کر چکے ہیں، جن کی وجہ سے ان دونوں بڑے حریف ممالک کے مابین کشیدگی اس وقت دوبارہ بہت زیادہ ہو چکی ہے۔
ایرانی وزیر دفاع بریگیڈیئر جنرل امیر حاتمی کے ملکی نیوز ایجنسی فارس کے ساتھ ایک انٹرویو میں کیے گئے اس اعلان کے علاوہ کل ہفتہ اٹھارہ اگست کو ایرانی بحریہ نے بھی یہ اعلان کر دیا تھا کہ اس نے اپنے جنگی بحری جہازوں میں سے ایک پر ایک نیا اور جدید تر دفاعی نظام نصب کرنا شروع کر دیا ہے۔
جب ایرانی بحریہ کا اعلان کردہ یہ عمل مکمل ہو گیا، تو یہ ایسا پہلا موقع ہو گا کہ ایران کے بڑے جنگی بحری جہازوں میں سے ایک پر ایک ایسا جدید تر دفاعی نظام نصب ہو گا، جو مکمل طور پر اندرون ملک ہی تیار کردہ ہو گا۔
ایران پر امریکی پابندیوں کا نفاذ، کیا کچھ ممکن ہے!
ٹرمپ انتظامیہ نے ایران پر پابندیوں کے پہلے حصے کا نفاذ کر دیا ہے۔ بظاہر ان پابندیوں سے واشنگٹن اور تہران بقیہ دنیا سے علیحدہ ہو سکتے ہیں۔پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ نومبر میں کیا جائے۔
تصویر: Reuters/TIMA/N. T. Yazdi
ٹرمپ نے پابندیوں کے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے
پابندیوں کے صدارتی حکم نامے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پانچ اگست کو دستخط کیے۔ ٹرمپ کے مطابق ایران پر اقتصادی دباؤ انجام کار اُس کی دھمکیوں کے خاتمے اور میزائل سازی کے علاوہ خطے میں تخریبی سرگرمیوں کے خاتمے کے لیے ایک جامع حل کی راہ ہموار کرے گا۔ ٹرمپ کے مطابق جو ملک ایران کے ساتھ اقتصادی رابطوں کو ختم نہیں کرے گا، اُسے شدید نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔
تصویر: Shealah Craighead
رقوم کہاں جائیں گی؟
پانچ اگست کو جاری کردہ پابندیوں کے حکم نامے پر عمل درآمد سات اگست سے شروع ہو گیا ہے۔ اس پابندی کے تحت ایران کی امریکی کرنسی ڈالر تک رسائی کو محدود کرنا ہے تاکہ تہران حکومت اپنی بین الاقوامی ادائیگیوں سے محروم ہو کر رہ جائے اور اُس کی معاشی مشکلات بڑھ جائیں۔ اسی طرح ایران قیمتی دھاتوں یعنی سونا، چاندی وغیرہ کی خریداری بھی نہیں کر سکے گا اور اس سے بھی اُس کی عالمی منڈیوں میں رسائی مشکل ہو جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Kenare
ہوائی جہاز، کاریں اور قالین
سات اگست سے نافذ ہونے والی پابندیوں کے بعد ایران ہوائی جہازوں کے علاوہ کاریں بھی خریدنے سے محروم ہو گیا ہے۔ ایران کی امپورٹس، جن میں گریفائٹ، ایلومینیم، فولاد، کوئلہ، سونا اور بعض سوفٹ ویئر شامل ہیں، کی فراہمی بھی شدید متاثر ہو گی۔ جرمن کار ساز ادارے ڈائملر نے ایران میں مرسیڈیز بینز ٹرکوں کی پروڈکشن غیر معینہ مدت کے لیے معطّل کر دی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
جلتی آگ پر تیل ڈالنا
ایران پر پابندیوں کے دوسرے حصے کا نفاذ رواں برس پانچ نومبر کو ہو جائے گا۔ اس پابندی سے ایران کی تیل کی فروخت کو کُلی طور پر روک دیا جائے گا۔ تیل کی فروخت پر پابندی سے یقینی طور پر ایرانی معیشت کو شدید ترین دھچکا پہنچے گا۔ دوسری جانب کئی ممالک بشمول چین، بھارت اور ترکی نے عندیہ دے رکھا ہے کہ وہ توانائی کی اپنی ضروریات کے مدِنظر اس پابندی پر پوری طرح عمل نہیں کر سکیں گے۔
تصویر: Reuters/R. Homavandi
نفسیاتی جنگ
ایران کے صدر حسن روحانی نے امریکی پابندیوں کے حوالے سے کہا ہے کہ واشنگٹن نے اُن کے ملک کے خلاف نفسیاتی جنگ شروع کر دی ہے تا کہ اُس کی عوام میں تقسیم کی فضا پیدا ہو سکے۔ روحانی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں چین اور روس پر تکیہ کرتے ہوئے اپنے تیل کی فروخت اور بینکاری کے شعبے کو متحرک رکھ سکتا ہے۔ انہوں نے ایران میں امریکی مداخلت سے پہنچنے والے نقصان کا تاوان بھی طلب کیا ہے۔
یورپی یونین کی خارجہ امور کی چیف فیڈیریکا موگیرینی کا کہنا ہے کہ اُن کا بلاک ایران کے ساتھ چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی کرے گا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ تہران سن 2015 کی جوہری ڈیل کے تحت دی گئی کمٹمنٹ کو پورا نہ کرنے پر بھی شاکی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ یورپی یونین یورپی تاجروں کے تحفظ کا خصوصی قانون متعارف کرا رکھا رکھا ہے۔
وزیر دفاع حاتمی اور اس سے قبل ایرانی بحریہ کا اعلان، یہ دونوں معاملات ایسے ہیں، جو امریکا کی ناخوشی کا سبب بنیں گے، کیونکہ خاص طور پر خلیج فارس کے علاقے میں امریکی فوجی موجودگی کی وجہ سے بھی پہلے ہی کافی کشیدگی پائی جاتی ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ نے ایرانی جوہری معاہدے سے واشنگٹن کے اخراج کا اعلان کرتے ہوئے تہران پر یہ الزام لگایا تھا کہ اس نے معاہدے کے باوجود، ٹرمپ کے مطابق، اپنا بیلسٹک میزائل پروگرام بند نہیں کیا تھا اور وہ شام، عراق اور یمن کے جنگی تنازعوں میں بھی نہ صرف مداخلت کر رہا ہے بلکہ ان میں بالواسطہ طور پر ملوث بھی ہے۔
ملکی میزائل پروگرام کے بارے میں وزیر دفاع امیر حاتمی نے کہا، ’’اپنا میزائل پروگرام مزید بہتر بناتے رہنا ہماری اولین ترجیح ہے۔ اس میدان میں ہم پہلے بھی اچھی پوزیشن میں ہیں اور ہم اپنی اپوزیشن کو مزید بہتر بنانا چاہتے ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ بائیس اگست کو منائے جانے والے ایران کے ’یوم قومی دفاعی صنعت‘ کے موقع پر تہران اپنا جو نیا لڑاکا طیارہ متعارف کرائے گا، ایرانی عوام اسے ایک فضائی مظاہرے میں پرواز کرتے ہوئے دیکھ سکیں گے۔
ایران نے پہلی بار اپنے اس طیارے کے بارے میں کچھ تفصیلات 2013ء میں جاری کی تھیں اور کہا تھا کہ یہ ایک مکمل طور پر اندرون ملک تیار کردہ جنگی طیارہ ہو گا۔ اس لڑاکا ہوائی جہاز کو ’قاہر 313‘ کا نام دیا گیا ہے۔
م م / ع ت / روئٹرز
امریکی پابندیوں کا نشانہ بننے والے ممالک
امریکا عالمی تجارت کا اہم ترین ملک تصور کیا جاتا ہے۔ اس پوزیشن کو وہ بسا اوقات اپنے مخالف ملکوں کو پابندیوں کی صورت میں سزا دینے کے لیے بھی استعمال کرتا ہے۔ یہ پابندیاں ایران، روس، کیوبا، شمالی کوریا اور شام پر عائد ہیں۔
تصویر: Imago
ایران
امریکا کی ایران عائد پابندیوں کا فی الحال مقصد یہ ہے کہ تہران حکومت سونا اور دوسری قیمتی دھاتیں انٹرنیشنل مارکیٹ سے خرید نہ سکے۔ اسی طرح ایران کو محدود کر دیا گیا ہے کہ وہ عالمی منڈی سے امریکی ڈالر کی خرید سے بھی دور رہے۔ امریکی حکومت ایرانی تیل کی فروخت پر پابندی رواں برس نومبر کے اوائل میں عائد کرے گی۔
کمیونسٹ ملک شمالی کوریا بظاہراقوام متحدہ کی پابندیوں تلے ہے لیکن امریکا نے خود بھی اس پر بہت سی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔ امریکی پابندیوں میں ایک شمالی کوریا کو ہتھیاروں کی فروخت سے متعلق ہے۔ ان پابندیوں کے تحت امریکا ایسے غیر امریکی بینکوں پر جرمانے بھی عائد کرتا چلا آ رہا ہے، جو شمالی کوریائی حکومت کے ساتھ لین دین کرتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/S. Marai
شام
واشنگٹن نے شام کے صدر بشارالاسد کی حکومت پر تیل کی فروخت پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ امریکا میں شامی حکومت کے اہلکاروں کی جائیدادیں اور اثاثے منجمد کیے جا چکے ہیں۔ امریکی وزارت خزانہ نے ساری دنیا میں امریکی شہریوں کو شامی حکومت کے ساتھ کسی بھی قسم کے کاروبار یا شام میں سرمایہ کاری نہ کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Esiri
روس
سن 2014 کے کریمیا بحران کے بعد سے روسی حکومت کے کئی اہلکاروں کو بلیک لسٹ کیے جانے کے بعد ان کے اثاثے منجمد کر دیے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ کریمیا کی کئی مصنوعات بھی امریکی پابندی کی لپیٹ میں ہیں۔ اس میں خاص طور پر کریمیا کی وائن اہم ہے۔ ابھی حال ہی میں امریکا نے ڈبل ایجنٹ سکریپل کو زہر دینے کے تناظر میں روس پرنئی پابندیاں بھی لگا دی ہیں۔
تصویر: Imago
کیوبا
سن 2016 میں سابق امریکی صدرباراک اوباما نے کیوبا پر پابندیوں کو نرم کیا تو امریکی سیاحوں نے کیوبا کا رُخ کرنا شروع کر دیا ہے۔ اب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکی شہریوں پر کیوبا کی سیاحت کرنے پر پھر سے پابندی لگا دی گئی ہے۔ اوباما کی دی گئی رعایت کے تحت کیوبا کے سگار اور شراب رَم کی امریکا میں فروخت جاری ہے۔