نیا ریکارڈ: صرف تین گھنٹوں میں زمین سے خلائی اسٹیشن تک
14 اکتوبر 2020
زمین سے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن تک سفر کا دورانیہ آدھا ہو گیا، جو ایک نیا ریکارڈ ہے۔ قزاقستان میں بیکانور کے مقام سے اس خلائی اسٹیشن کے لیے روانہ ہونے والے تینوں خلا باز صرف تقریباﹰ تین گھنٹے میں اپنی منزل پر پہنچ گئے۔
آئی ایس ایس کا نیا تین رکنی عملہ جو آج صرف تین گھنٹے میں زمین سے اس خلائی اسٹیشن تک پہنچ گیاتصویر: Russian space agency Roscosmos/Reuters
اشتہار
ان خلا بازوں میں سے دو روسی ہیں اور تیسری ایک امریکی خاتون ہیں، جو ایک مائیکرو بیالوجسٹ بھی ہیں۔ یہ تین رکنی ٹیم بدھ کے روز روسی ساخت کے سویوس کیپسول میں سوار ہو کر قزاقستان کے خلائی اڈے سے آئی ایس ایس کے لیے روانہ ہوئی۔
یہ خلا باز انسانی تاریخ میں پہلی بار صرف تین گھنٹوں میں اس وقت اپنی منزل پر پہنچ گئے، جب ان کا خلائی کیپسول بحفاظت آئی ایس ایس کے ساتھ جڑ گیا۔
اس کیپسول میں روسی خلا بازوں سیرگئی رِشیکوف اور سیرگئی کُوڈ سوَیرچکوف کے علاوہ ان کی امریکی ساتھی اور ناسا کی سائنسدان کیتھلین رُوبنز سوار تھیں۔ یہ کیپسول عالمی وقت کے مطابق بدھ کی دوپہر خلا میں آئی ایس ایس کے ساتھ جڑ گیا۔
مئی میں اسپیس ایکس کے مشن کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ روس کی قیادت میں کوئی نیا انسانی مشن آئی ایس ایس تک پہنچا ہے۔ اسپیس ایکس خلائی سفر کے شعبے میں کام کرنے والا ایک نجی ادارہ ہے۔ اس کی طرف سے پانچ ماہ قبل آئی ایس ایس کی طرف بھیجا جانے والا مشن کسی نجی اسپیس ٹریول کمپنی کا پہلا خلائی مشن تھا۔
روسی سویوس راکٹ جو ایک خلائی کیپسول میں سوار تینوں خلا بازوں کو لے کر ریکارڈ حد تک کم وقت میں خلا میں موجود آئی ایس ایس کے ساتھ جڑ گیاتصویر: Roscosmos Space Agency via AP/picture-alliance
صرف تین گھنٹے اور تین منٹ
بدھ کی صبح روانہ ہونے والے مشن کی آئی ایس ایس کے ساتھ کامیاب 'ڈوکِنگ‘ کے بعد روسی خلائی ادارے روسکوسموس کے سربراہ دیمیتری روگوسین نے ایک ٹویٹ میں اعلان کیا، ''صرف تین گھنٹے اور تین منٹ۔‘‘
اب تک زمین سے جتنے بھی انسان بردار مشن آئی ایس ایس کی طرف بھیجے گئے، وہ تقریباﹰ چھ گھنٹے بعد اپنی منزل پر پہنچتے تھے۔ اس مرتبہ روسکوسموس نے اس مشن کے سفر کا راستہ کچھ تبدیل کر دیا تھا، جس کے بعد امید تھی کہ سفر کا دورانیہ کافی کم ہو جائے گا۔
لیکن یہ مشن صرف تین گھنٹے اور تین منٹ میں ہی اپنی منزل پر پہنچ گیا۔ اس طرح نہ صرف سفر کا دورانیہ ماضی کے مقابلے میں تقریباﹰ آدھا رہ گیا جو ایک نیا ریکارڈ ہے، بلکہ یہ اسپیس مشن اپنے متوقع وقت سے بھی چار منٹ پہلے ہی منزل پر پہنچ گیا۔
خلائی سیاحت: اسپیس شپ ٹو ’ورجن گیلکٹک‘ کا اندرونی منظر
انگریز موجد رچرڈ برینسن نے خلائی جہاز ’ورجن گیلکٹک‘ کا اندرونی منظر دنیا کے لیے پیش کر دیا ہے۔ یہ خلائی جہاز مسافروں کو لے کر زمین کے مدار میں جائے گا۔ اس سیاحت کے لیے فی مسافر ڈھائی لاکھ ڈالر تک کرایہ ادا کرے گا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Virgin Galactic
وسیع خلا کا ایک مختصر نظارہ
ممتاز انگریز موجد اور کاروباری شخصیت سَر رچرڈ برینسن خلائی سیاحت کے لیے متحرک ہیں۔ اس مقصد کے لیے وہ خلائی جہاز ’ورجن گیلکٹک‘ استعمال کریں گے۔ اب تک چھ سو امیر افراد نے بکنگ کروا رکھی ہے۔ ایک مسافر اس سیاحت کے لیے ڈھائی لاکھ ڈالر تک کرایہ ادا کرے گا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R. Drew
خلا میں تیرنا
ورجن گیلکٹک کی ہر پرواز پر صرف چھ مسافروں کی گنجائش ہے۔ یہ تمام مسافر مکمل خلائی لباس پہن کر اپنی سیٹ پر بیٹھیں گے۔ ایک مرتبہ جب جہاز مدار میں پہنچ جائے گا تب وہ پوری طرح الٹا ہو جائے گا تا کہ تمام مسفر خلا سے زمین کا نظارہ کر سکیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Virgin Galactic
انفرادی ضروریات کی حامل سیٹ
خلائی جہاز پر سیاحوں کی سیٹیں ہر وقت کشش ثقل قوت کو برقرار رکھنے کی حامل ہوں گی۔ ان سیٹوں پر بیٹھے خلائی سیاح لائیو فلائیٹ ڈیٹا کے ساتھ بھی منسلک رکھے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Virgin Galactic
واضح منظر
خلائی جہاز ورجن گیلکٹک میں بارہ کھڑکیاں ہیں۔ یہ کھڑکیاں تمام سیٹوں کو ایک طرح سے گھیرے ہوئے ہیں تا کہ تمام خلائی مسافر باہر کا مسلسل بھرپور نظارہ کرتے رہیں۔ اس خلائی سفر میں مسافروں کے مزاج کا بھی بہتر انداز میں خیال رکھنے کا اہتمام کیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Virgin Galactic
آدھا جہاز، آدھا راکٹ
ورجن گیلکٹک یا اسپیس شپ ٹُو ایک خصوصی جیٹ کے ساتھ جوڑا گیا ہے۔ یہ عمودی رخ پر سُپر سانک رفتار کے ساتھ اپنا سفر اختیار کرے گا۔ پائلٹ راکٹ چلانے کا بٹن دبائے گا تو اس کے ساتھ خلائی جہاز بھی حرکت میں آ جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Virgin Galactic
ہمیشہ رہنے والا نقش
اس خاص خلائی جہاز ورجن گیلکٹک میں سولہ کیمرے نصب ہوں گے۔ یہ کیمرے ہر مسافر کے تمام سفر کی کیفیات کو مسلسل ریکارڈ کرتے رہیں گے۔ اس میں ایک بڑا شیشہ بھی نصب کیا گیا ہے تا کہ جب خلائی مسافر خلا میں تیرنا شروع کریں تو وہ خود کو بھی دیکھ سکیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Virgin Galactic
ایک انتہائی مہنگا سفر
ورجن گیلکٹک کے تمام تر پرزے امریکی ریاست کیلیفورنیا کے ایک مقام موجاو میں قائم ایک فیکٹری میں جوڑ کر اسے خلائی جہاز کی شکل دیتے ہیں۔ تمام مسافروں کو سفر اختیار کرنے سے قبل خصوصی تربیت بھی دی جائے گی۔ بظاہر یہ ایک انتہائی منفرد اور بہت ہی مہنگا سفر ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Montoya Bryan
7 تصاویر1 | 7
اب تک اتنے تیز رفتار تو صرف اسپیس کارگو مشن تھے
روسی اور امریکی خلائی اداروں کے مطابق آج سے پہلے اتنے وقت میں اگر کوئی خلائی مشن آئی ایس ایس تک پہنچے تھے، تو ان میں کوئی انسان سوار نہیں ہوتا تھا۔ اس لیے اس نئے مشن کو زمین سے آئی ایس ایس تک انسان کا مختصر ترین دورانیے کا سفر قرار دیا جا رہا ہے۔
اس سے پہلے گزشتہ مشنوں کے دوران روس کے رِشیکوف خلا میں 173 دن اور امریکا کی رُوبنز 115 دن گزار چکی ہیں۔ ان دونوں کے برعکس روس کے کُوڈ سوَیرچکوف پہلی مرتبہ خلا میں گئے ہیں۔
روس اور امریکا کے غیر معمولی تعاون سے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن اتنی کامیابی اور اتنے طویل عرصے سے کام کر رہا ہے کہ 2000ء سے لے کر آج تک وہاں خلا بازوں کی کوئی نہ کوئی بین الاقوامی ٹیم ہمیشہ موجود رہی ہے۔
م م / ش ج (اے ایف پی، روئٹرز)
ان سائیٹ کے مریخ پر اترنے کے لمحات
ناسا کے خلائی جہاز ان سائیٹ نے چار سو بیاسی ملین کلومیٹر (تین سو ملین میل) کا سفر طے کیا ہے۔ یہ روبوٹ کنٹرول خلائی جہاز مسلسل چھ ماہ تک سفر کرنے کے بعد مریخ کی سطح پر اترنے میں کامیاب ہوا ہے۔
ان سائیٹ خلائی مشن تقریباً ایک بلین امریکی ڈالر کا بین الاقوامی پراجیکٹ ہے۔ اس میں جرمن ساختہ مکینکل دھاتی چادر بھی استعمال کی گئی ہے، جو مریخ کی حدت برداشت کرنے کے قابل ہے۔ فرانس کے ایک سائنسی آلات بنانے والے ادارے کا خصوصی آلہ بھی نصب ہے، جو مریخ کی سطح پر آنے والے زلزلوں کی کیفیات کو ریکارڈ کرے گا۔ اس کے اترنے پر کنٹرول روم کے سائنسدانوں نے انتہائی مسرت کا اظہار کیا۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA/NASA/B. Ingalls
پہلی تصویر
تین ٹانگوں والا ان سائٹ مریخ کے حصے’الیسیم پلانیشیا‘ کے مغربی سمت میں اترا ہے۔ اس نے لینڈنگ کے بعد ابتدائی پانچ منٹوں میں پہلی تصویر کنٹرول ٹاور کو روانہ کی تھی۔ تین سو ساٹھ کلوگرام وزن کا یہ خلائی ریسرچ جہاز اگلے دو برسوں تک معلوماتی تصاویر زمین کی جانب روانہ کرتا رہے گا۔
تصویر: picture alliance/Zuma/NASA/JPL
ان سائنٹ مریخ کے اوپر
ان سائیٹ خلائی ریسرچ دو چھوٹے سیٹلائٹس کی مدد سے مریخ کی سطح تک پہنچنے میں کامیاب ہوا ہے۔ ان سیٹلائٹس کے توسط سے ان سائیٹ کی پرواز کے بارے میں معلومات مسلسل زمین تک پہنچتی رہی ہیں۔ اس خلائی مشن نے مریخ پر اترنے کے تقریباً ساڑھے چار منٹ بعد ہی پہلی تصویر زمین کے لیے روانہ کر دی تھی۔ اڑان سے لینڈنگ تک اِسے چھ ماہ عرصہ لگا۔ ناسا کے مریخ کے لیے روانہ کردہ خلائی مشن کی کامیابی کا تناسب چالیس فیصد ہے۔
ان سائیٹ مریخ کی سطح پر بارہ ہزار تین سو کلومیٹر کی رفتار سے پرواز کرتا ہوا اپنی منزل پر پہنچا۔ اترے وقت اس کو بریکوں کے علاوہ پیراشوٹس کی مدد بھی حاصل تھی۔ ان سائیٹ پراجیکٹ کے سربراہ سائنسدان بروس بینرٹ کا کہنا ہے کہ مریخ کی جانب سفر سے کہیں زیادہ مشکل امر لینڈنگ ہوتا ہے۔ سن 1976 کے بعد مریخ پر لینڈنگ کی یہ نویں کامیاب کوشش ہے۔
مریخ کی سطح پر ان سائیٹ نامی خلائی تحقیقی جہاز ایک ہی مقام پر ساکن رہتے ہوئے اگلے دو برس تک اپنا مشن جاری رکھے گا۔ اس مشن میں مریخ کی اندرونی سطح کا مطالعہ بھی شامل ہے۔ سرخ سیارے کے زلزلوں کی کیفیت کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔ یہ ریسرچ مشن مریخ پر زندگی کے ممکنہ آثار بارے کوئی معلومات جمع نہیں کرے گا۔