1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیا سال اور عالمی اقتصادیات: پانچ بڑے خطرے یا چیلنج

21 دسمبر 2021

کورونا ویریئنٹس سے عالمی اقتصادیات کو خطرات لاحق رہ سکتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ختم ہونے والے سال میں عالمی معیشت تھوڑی سی سنبھلی ضرور ہے۔

Maske und Euro Scheine
تصویر: Zoonar/picture alliance

 عالمی معیشت کی سست انداز میں ریکوری کی وجہ سے عالمی مالیاتی ادارے یا انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ اور تنظیم برائے اقتصادی تعاون و ترقی (OECD) سے منسلک ماہرین نے رواں برس کی آخری سہ ماہی میں عالمی پیدوار کی شرح میں کمی کر دی تھی۔

کورونا وبا کے دوران بھی اسلحے کی دوڑ بدستور جاری رہی

دوسری جانب وہ نئے سال کے لیے طے کردہ شرح پیداواری افزائش پر یقین رکھتے ہیں کہ معاشی حالات میں سدھار پیدا ہو سکتا ہے اور عالمی اقتصادیات کا پہیہ اپنی سابقہ رفتار سے گھومنا شروع کر دے گا۔

ویکسین کا مقابلہ کرنے والے کورونا ویریئنٹس کی افزائش اقتصادی ترقی کے عمل کو مزید کمزور کر دیں گےتصویر: Petr Stojanovski/DW

اس خوش آئند اپروچ کے باوجود کووڈ انیس وبا کے ویریئنٹس معاشی پہیے کو پٹری سے اتار بھی سکتے ہیں۔ اسی ایک بڑے خطرے کی وجہ سے سرمایہ کار نئے سال کی آمد سے قبل فکرمند ہیں کہ وہ کوئی قدم اٹھائیں یا وبا کے پھیلاؤ میں میں کمی کا مزید انتظار کریں۔

ویکسین کا مقابلہ کرنے والے ویریئنٹس

سن 2021 کے مہینے نومبر میں مالی منڈیوں کو کورونا وائرس کے نئے ویریئنٹ اومی کرون نے شدید دہچکا پہنچایا۔ اومی کرون کی جنوبی افریقہ میں پہلی دفعہ نشاندہی ہوئی تھی اور اب مختلف ممالک میں یہ پھیل چکا ہے۔ اس ویرئنٹ کی وجہ سے مالی منڈیوں کو شدید مندی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

مہنگائی کے سبب بھارتی خواتین اپنے سہاگ کی نشانی فروخت کر رہی ہیں

اس وقت بھی کورونا وائرس کے اومی کرون ویریئنٹ پر عالمی مالی منڈیوں کے سرمایہ کاروں کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ یہ منڈیاں بدستور اوپر نیچے ہو رہی ہیں اور اس کے منفی اثرات عالمی اقتصادیات پر پڑ رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اومی کرون بظاہر ڈیلٹا ویریئنٹ سے زیادہ خطرناک نہیں لیکن اس کا پھیلاؤ بہت تیز ہوتا ہے۔ جے پی مورگن کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ اومی کرون خطرناک نہیں تو پھر وبا کے ختم یا کمزور ہونے کا بھی امکان بڑھ جائے ہے۔

ماہرین بدستور مستقبل میں سامنے آنے والے ممکنہ نئے ویریئنٹس پر بھی نگاہیں جمائے ہوئے ہیں اور کسی ایک خطرناک ویرئنٹ کی پیدائش سے اقتصادی ریکوری کی سب کوششیں ضائع ہو سکتی ہیں۔

سمندری مال برداری میں پیدا سست روی بھی معاشی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہےتصویر: picture alliance / ASSOCIATED PRESS

سپلائی میں کمی

عالمی معیشت کی بحالی میں ایک اور رکاوٹ اشیا کی قلت اور سپلائی یا رسد میں واضح کمی ہے۔ سمندری مال برداری کا عمل سست ہو چکا ہے۔ وبا کی وجہ سے امریکی اور یورپی بندرگاہوں پر سامان سے بھرے کنٹینر جمع ہیں۔ وبا کی وجہ سے سمندری مال برداری کے کرایوں میں بے پناہ اضافہ ہو گیا ہے۔ اس اضافے کی وجہ سے اقوام عالم کو اشیاء کی قلت کا سامنا ہے اور اس قلت کے باعث مہنگائی بڑھ رہی ہے۔

عالمی معیشت میں ممکنہ شرح نمو گزشتہ اندازے سے کم، آئی ایم ایف

کار انڈسٹری شدید متاثر ہے اور اس کی سپلائی بھی کئی رکاوٹوں کی وجہ سے انتہائی سست ہو چکی ہے۔ کئی کار ساز اداروں نے پیداواری عمل انتہائی سست کر دیا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ایک خاص چِپ یا سیمی کنڈکٹرز کی شدید قلت بتائی جاتی ہے۔ جرمن کار ساز اداروں نے بھی پروڈکشن کے عمل کو کم کر دیا ہے کیونکہ سیمی کنڈکٹرز دستیاب ہی نہیں ہو رہے۔ سمندری مال برداری میں پیدا مشکلات بھی عالمی معیشت کا پہیہ سست کیے ہوئے ہے۔

افراطِ زر میں غیر معمولی اضافہ

اشیا کی قلت، خام مال کی کمی اور فیول کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے یورو زون اور امریکا میں افراطِ زر میں اضافہ ہو چکا ہے۔ موجودہ افراطِ زر کو بھی عالمی معیشت کی بحالی میں ایک بڑی رکاوٹ خیال کی جاتی ہے۔ اس تناظر میں ماہرین کو خدشہ لاحق ہے کہ مختلف ملکوں کے مرکزی بینکس قبل از وقت شرحِ سود میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو عام اشیاء کی قیمتیں اور زیادہ ہو جائیں گی۔

بڑے چینی کاروباری ادارےعلی بابا کے بانی جیک ما کو چینی کریک ڈاؤن کا سامنا ہے تصویر: Liewig Christian/ABACA/picture alliance

یورپی سینٹرل بینک کا خیال ہے کہ اس وقت اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کم مدتی فیکٹرز کا نتیجہ ہے۔ ان میں اشیا کی قلت ایک اہم فیکٹر ہے۔ یورپی مرکزی بینک کو یقین ہے کہ افراطِ زر میں اس وقت کمی واقع ہو جائے گی جب طلب اور رسد میں عدم توازن ختم ہو جائے گا۔

بھارت: کووڈ کی وجہ سے نوجوانوں کی امیدیں چَکنا چُور

کئی ماہرین کا خیال ہے کہ سن 2022 کے بیشتر مہینوں میں افراطِ زر میں کمی کا امکان کم دکھائی دیتا ہے۔ اس تناظر میں امریکا میں پائے جانے والے خدشات زیادہ شدید ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا اور دوسری ترقی یافتہ ممالک کو اقتصادی رفتار کو بہتر کرنے کے لیے مالی امدادی پیکجز متعارف کرانے ہوں گے اور روزگار کی منڈی کو بھی بہتر کرنا ہو گا۔

چین میں کریک ڈاؤن

دنیا کی دوسری بڑی معیشت کے حامل ملک چین میں بھی پیداواری عمل سست روی کا شکار ہے۔ اس سست روی کی وجہ سے بھی سرمایہ کاروں کو سن 2022 کی معاشی آؤٹ پُٹ کے حوالے سے بھی فکرمند ہیں۔ چینی معیشت سن 2020 میں تیزی کے ساتھ وسعت اختیار کرنے میں کامیاب رہی تھی اور اس کی وجہ الیکٹرانک اور طبی سامان کی عالمی طلب تھی۔ چین نے وبا کے دوران اقوام عالم کی طلب کو پورا کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

اومی کرون ویریئنٹ کی نشاندہی جنوبی افریقہ ممیں ہوئی تھیتصویر: picture alliance / Zoonar

اب چین میں وبا تو کسی حد تک کنٹرول میں ہے لیکن بیجنگ کا ٹیکنیکل کمپنیوں اور دوسری پیداواری شعبوں پر کیے گئے کریک ڈاؤن نے پیداواری عمل کو سست کر دیا ہے۔ اس کریک ڈاؤن میں ٹیکنیکل ادارے علی بابا اور ٹین سینٹ کے مالکان خاص طور پر شامل ہیں۔

جرمنی کو وبا کے باعث سالانہ بجٹ میں 190 بلین یورو کا خسارہ

اسی طرح ریئل اسٹیٹ کے بڑے نام ایورگرانڈے اور کیئسا کو بھی کریک ڈاؤن کا سامنا رہا ہے۔ چین کے پرائویٹ ایجوکیشن سیکٹر کو بھی حکومتی کارروائیوں نے شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ان حالات نے چینی معیشت کو سست کر رکھا ہے اور سن 2022 میں بیجنگ کو ملکی اقتصاد کو متحرک کرنے کے لیے مالی امدادی پیکج متعارف کرانا ضروری ہو سکتا ہے۔

آشوتوش پانڈے (ع ح/ ع ت)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں