نیا سال منانے کے چند عمومی اُصول
31 دسمبر 2015الکوحل کی بجائے چائے، میٹھی چیزوں کی جگہ سبزیاں، ٹیلی وژن اور کمپیوٹر گیمز کی بجائے فٹنس اور کتابیں: نئے سال کی آمد پر بہت سے افراد اپنے لائف اسٹائل میں مثبت تبدیلی کا خود سے عہد کرتے ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ نیا سال ابھی ایک دو ہفتے ہی پُرانا ہوا ہوتا ہے کہ یہ تمام جوُش و ولولہ ماضی کی طرح بالکل ٹھنڈا پڑ جاتا ہے۔
تل ابیب سے تعلق رکھنے والی ایک 16 سالہ زوئے کا کہنا ہے، ’’کئی مہینوں سے میں مکمل طور پر سبزی خور بننے کی کوشش کر رہی ہوں، مجھے یہ علم ہے کہ یہ ضروری اور درست عمل ہوگا تاہم ہر بار جب میں دودھ کی بنی اشیاء دیکھتی ہوں تو میرے عزائم ڈگمگا جاتے ہیں‘‘۔
پرہیز اور انعام
ایک ماہر نفسیات یاکی زاگی کے بقول،’’اپنی عادتوں پر خود عائد کردہ حدود کہیں زیادہ اطمینان بخش ہوتی ہیں تاہم یہ بہت مشکل عمل بھی ہے۔ خاص طور پر بغیر کوئی براہ راست فائدہ حاصل کیے کسی لطف اندوزی کو ترک کرنا نہایت دشوار ہوتا ہے‘‘۔ اس ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ ممکنہ طور پر زوئے کو جانوروں سے حاصل کردہ اجزائے ترکیبی سے بنی ہوئی اشیاء ترک کرنے میں اُس وقت دقت نہ ہوتی جب ان اشیاء پر پابندی لگی ہوتی یا ان کا استعمال قابل جرمانہ عمل ہوتا۔
ماہر نفسیات یاکی زاگی کا کہنا ہے،’’ خود عائد کردہ حدود کی بہتر تعمیل اُس وقت سہل لگتی ہے جب اس عمل کے براہ راست فوائد سامنے رکھے جائیں‘‘۔ مثال کے طور پر کسی چھوٹے بچے کی انگلیوں سے کھانا کھانے کی عادت چھُڑانے کا سب سے موثر طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اُس سے یہ کہا جائے کہ وہ اب بڑا ہو گیا ہے اور بڑا ہو کر اور خوبصورت لگنے لگا ہے۔ اس طرح بچہ بڑے ہو جانے کی خوشی میں اپنی عادت تبدیل کرنے میں بھی خوشی محسوس کرنے لگتا ہے۔
کسی عادت کو ترک کرنے کے فوائد زیادہ تر طویل مدت سخت نظم و ضبط پر قائم رہنے کے بعد ہی نظر آنا شروع ہوتے ہیں۔ اکثر و بیشر یہ فوائد فعال طریقے سے سامنے بھی نہیں آتے۔ جیسے کے ذیابیطس، دل کے امراض، عمل تنفس میں نقص وغیرہ کی علامات کا نہ ہونا محض اس بات کا ثبوت نہیں ہوتا کہ آپ صحت بخش زندگی گزار رہے ہیں۔
تقریب کی اہمیت
ماہر نفسیات زاگی کا کہنا ہے کہ روزمرہ زندگی کی عادات میں تبدیلی لانے کے لیے اس عمل کا کسی نا کسی روایتی موقع سے آغاز کرنا ہمیشہ مدد گار اور موثر ثابت ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے نئے سال کا آغاز ایک اچھا موقع ہوتا ہے ان فیصلوں کا۔ تب بھی یہ موقع اس امر کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی۔
ایک دلچسپ امر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس ماہر نفسیات نے کہا کہ خاص مواقع پر زیادہ لوگوں کے سامنے کیے جانے والے عہد و پیما یقیناً پائیدار ثابت ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر 500 مہمانوں کے سامنے ازدواج کے بندھن میں بندھنے کا اقرار کرنے والے جوڑوں کے لیے علیحدگی یا ایک دوسرے کے ساتھ بے وفائی کرنا اُن جوڑوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ مشکل ہوتا ہے جو خاموشی سے آپس میں ہی شادی کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔