1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیا فرانسیسی قانون امتیازی رویے کا باعث ہو گا

9 دسمبر 2020

فرانسیسی حکومت بنیاد پرستانہ اسلامی طرز عمل کو کنٹرول کرنے کا ایک مسودہءقانون پارلیمنٹ میں پیش کرنے والی ہے۔ ناقدین کا خیال ہے کہ اس قانون سازی سے مسلمان مزید امتیازی سلوک کا نشانہ بنیں گے۔

Frankreich Anschlag auf Moschee in Bayonne
تصویر: picture-alliance/dpa/Chopin Jean Daniel

صدر ایمانوئل ماکروں کی حکومت کے قانونی مسودے کی بنیاد گذشتہ چند ہفتوں میں ہونے والے تین دہشت گردانہ حملے ہیں۔ ان حملوں میں حملہ آوروں نے چار افراد کا قتل کیا اور دو افراد کو شدید زخمی بھی کیا۔ یہ حملے دارالحکومت پیرس اور اس کے نواح کے علاوہ جنوبی شہر نیس میں کیے گئے تھے۔ ان حملوں کے بعد پیرس حکومت نے ایسی قریب پچاس مسلم تنظیموں کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ پچھتر مساجد کی نگرانی میں شدت پیدا کر رکھی ہے، جن پر الزام ہے کہ وہ انتہاپسندی کی افزائش میں مصروف ہیں۔ فرانسیسی حکومت دو سو سے زائد مشتبہ غیر فرانسیسیوں کو ملک بدر کرنے کی سوچ رکھتی ہے کیونکہ یہ بنیاد پرستانہ عقائد کے حامل ہو چکے ہیں۔

فرانس: نیس حملے میں حراست میں لیے جانے والے تین مشتبہ افراد کو رہا کردیا گيا

نگرانی کا عمل

صدر ماکروں کی کابینہ بدھ نو دسمبر کو اپنی ایک میٹنگ میں قانونی مسودے کی منظوری دینے والی ہے۔ اس میں خاص طور پر ایسی مسلم تنظیموں اور مساجد کی نگرانی کو ضرور قرار دیا گیا ہے، جو انتہا پسندانہ عقیدے کو فروغ دینے میں مصروف ہیں اور ان تعلیمات سے خاص طور پر نوجوان جہادی مسلمان بننے کی راہ کو اپنا رہے ہیں۔ حکومت نے تجویز کیا ہے کہ مساجد کے آئمہ کی تربیت کو بھی اہم قرار دیا ہے۔ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ گھروں پر تعلیم و تربیت کے سلسلے کو بھی محدود کر دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ نفرت کی مذہبی بنیاد پر شروع کی جانے والی آن لائن مہمات اور حکومتی ملازمین کو ڈرانے دھمکانے والے افراد کو جیل میں ڈالنا بھی شامل ہے۔ اس کا امکان ہے کہ یہ قانونی مسودہ سن دو ہزار اکیس کے اوائل میں پارلیمنٹ میں منظوری کے لیے پیش کر دیا جائے گا اور پھر چند مزید ماہ کے بعد اس کا نفاذ کر دیا جائے گا۔

حالیہ حملوں کے بعد فرانس کی ستر سے زائد مساجد کی کڑی نگرانی کی جا رہی ہےتصویر: Ait Adjedjou Karim/Avenir Pictures/picture alliance

حکومت اسلام سے خوفزدہ نہیں

ماکروں حکومت نے اُس تاثر کی تردید کی ہے کہ نئی قانون سازی 'اسلامو فوبیا‘ کا نتیجہ ہے۔ اس مناسبت سے فرانسیسی صدارتی محل کے ترجمان نے واضح کیا کہ حکومت قطعی طور پر اسلامو فوبیا کی شکار نہیں ہے۔ ترجمان نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ قانون سازی کا مقصد ملکی اقدار کا نفاذ ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بعض مساجد آن لائن نفرت انگیز مواد پھیلانے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس کی مثال انہوں نے پیرس کے شمال مشرقی نواحی علاقے کی بڑی مسجد کی دی۔ ترجمان کے مطابق اس مسجد نے ایک ایسی ویڈیو اپ لوڈ کی تھی جس میں اس ٹیچر کے بارے میں مذمتی مواد شامل تھا، جس نے کلاس روم میں پیغمبر اسلام کے خاکے دکھائے تھے۔ اس ٹیچر کو رواں برس اکتوبر میں ایک اٹھارہ سالہ چیچن نوجوان نے قتل کر دیا تھا۔

فرانس: استاد کا سر کاٹنے والا مبینہ حملہ آور 18 سالہ چیچن تھا

حکومت جانبدار نہیں

فرانسیسی صدر کی رہائش گاہ کے ترجمان کا ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ حکومت کسی بھی صورت میں ملک دشمن قوتوں کو فرانس کے اندر جمع ہونے کی اجازت نہیں دے گی۔ ترجمان کے جواب میں سیاسیات کے ایک ماہر فرانسوا بورگاٹ کا خیال ہے کہ انہیں یقین نہیں کہ مذہب کے معاملے پر ماکروں حکومت  مکمل غیر جانبدار ہے۔ بورگاٹ فرانس کے جنوبی شہر مارسے میں عرب اور مسلم دنیا کے ایک تحقیقی ادارے کے ساتھ بھی منسلک ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ ملکی صدر ایک ایک نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں اور وہ ایسے اقدامات لینا چاہتے ہیں جو بظاہر وقت کی ضرورت ہیں تا کہ سن دو ہزار بائیس کے صدارتی انتخابات میں دائیں اور انتہا پسند دائیں بازو کے حلقوں کو اپنی جانب اغب کر کے ان کے ووٹ حاصل کر سکیں۔

فرانسیس مسلمانوں کے نمائندہ افراد کا خیال ہے کہ نیا فرانسیسی قانون امتیازی ہو گاتصویر: picture-alliance/AP Photo/Str

 

ماکروں کی سوچ کا دائرہ

پیرس کے اسکول برائے ایڈوانسڈ سوشل سائنسز سے وابستہ ماہر عمرانیات فرہاد خسروخاور کا کہنا ہے کہ حکومت جو اقدامات اٹھانے جا رہی ہے، ان کا مقصد عام فرانسیسی لوگوں کو خوش کرنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے تناظر میں کرائے گئے ایک تازہ سروے میں نوے فیصد افراد کا کہنا تھا کہ ان کو خوف ہے کہ اس قانون سازی سے فرانس کے اندر دہشت گردی کی نئی لہر پیدا ہو سکتی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے خسروخاور کا کہنا تھا کہ اس وقت حکومت ایسے گروپوں کو بھی ہدف بنائے ہوئے ہے، جن کا بنیاد پرستی کے ساتھ کوئی تعلق یا نسبت نہیں ہے اور اب وہ صوفی اسلام کو ٹارگٹ کرنے کی کوشش میں ہیں۔ خسرو خاور کے مطابق صوفی مسلمان امن پسند تحریک ہے اور یہ انتہائی امتیازی رویہ ہے۔ خسرو خاور ماکروں حکومت کی سیکولرازم کی تعریف کے ساتھ بھی متفق نہیں اور سخت پابندیوں کے بھی مخالف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس قانون ساز کا مطمعء نظر مسلمانوں کو ہدف بنانا ہے اور یہ بنیاد پرستی کا باعث بنے گا۔

 

لیزا لوئیس (ع ح، ع ت)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں