1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیا فوجی آپریشن کئی مہینوں تک جاری رہے گا، اسرائیل

2 جنوری 2024

اسرائیلی فوج کے مطابق مقبوضہ مغربی کنارے میں منگل کو فائرنگ کے تازہ ترین تبادلے میں پانچ فلسطینی عسکریت پسند ہلاک ہو گئے۔ ادھر اسرائیلی طیاروں اور ٹینکوں نے غزہ کے جنوبی حصے میں حملے تیز کر دیے ہیں۔

Gaza Krieg Israel Soldaten
تصویر: Israel Defense Forces/picture alliance

منگل کو اسرائیلی فوج کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا کہ انسداد دہشت گردی کی ایک کارروائی میں چار مسلح فلسطینی عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔ دریں اثناء فلسطینی حکام کی جانب سے فوری طور پر اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔ اسرائیلی فوج کے بیان کے مطابق مقبوضہ علاقے کے ایک فلسطینی گاؤں عزون میں ایک گھر کے اندر سے اس کے فوجیوں پر فائرنگ کی گئی۔ فائرنگ کے تبادلے میں ایک اسرائیلی فوجی زخمی ہوا ہے۔

اسرائیلی  فوج نے بتایا کہ قلقیلیہ میں اس کے فوجیوں نے اس مسلح شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دیا، جس نے ان پر اس وقت گولی چلائی، جب وہ ہتھیاروں پر قبضہ کرنے کے لیے چھاپے مار رہے تھے۔

سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل میں حماس کے دہشت گردانہ حملے اور اس کے نتیجے میں غزہ پٹی میں اب بڑھتے ہوئے اسرائیلی حملوں کے بعد اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے مغربی کنارے میں چھاپے مارنا بھی تیز کر دیے ہیں۔ غزہ کے رہائشیوں نے بتایا کہ اسرائیلی طیاروں اور ٹینکوں نے گزشتہ رات جنوبیغزہ کے  علاقے میں حملے تیز کر دیے۔

غزہ میں فائر بندی، متاثرین سکون کا سانس لینے لگے

02:22

This browser does not support the video element.

اسرائیلی فوج کی یہ کارروائی اس کی طرف سے اس علاقے سے اپنے کچھ فوجیوں کے  انخلاء کے منصوبے کے اعلان  کے بعد کی گئی۔ اسرائیل کے اس اقدام کو امریکہ نے شمالی علاقے میں جاری اسرائیلی فوج کی کارروائیوں میں بتدریج تبدیلی کا اشارہ قرار دیا ہے۔

غزہ کی جنگ نے اس پورے علاقے کو ملبے اور کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہےتصویر: Saleh Salem/REUTERS

غزہ میں جاری جنگ نے اس پورے علاقے کو ملبے اور کھنڈرات میں بدل ڈالا ہے۔ ہزاروں فلسطینیوں کی ہلاکت کے ساتھ ساتھ 2.3 ملین باشندوں کی زندگیاں انسانی المیے کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ غزہ کی جنگ مزید کئی ماہ تک جاری رہے گی اور اس نے اپنے فوجی آپریشن کے ایک نئے مرحلے میں داخل ہونے کا عندیہ بھی دیا ہے۔

 اسرائیلی  فوج کے مطابق غزہ کے اندر رواں ماہ اس کے فوجیوں کی تعداد کم کر دی جائے گی اور اس کی فوجی کارروائی کا مہینوں پر محیط ایک نیا آپریشن شروع ہو گا۔

اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟

02:23

This browser does not support the video element.

مزید برآں اسرائیل نے کہا ہے کہ غزہ میں اس کے فوجیوں کی تعداد میں کمی سے اس کے کچھ 'ریزرو فوجیوں‘ کو شہری زندگی کی طرف لوٹنے کا موقع ملےگا اور اس طرح اسرائیل کی جنگ زدہ معیشت کو کچھ راحت ملے گی۔ اس کے علاوہ کچھ فوجی یونٹ شمال میں لبنان کی ایرانی حمایت یافتہ حزب اللہ تحریک کے ساتھ جاری تنازعے کے ممکنہ طور پر وسیع ہو جانے کی صورت میں بروئے کار بھی لائے جا سکیں گے۔

جنوبی لبان کا اسرائیلی سرحد سے متصل علاقہ بھی ہفتوں سے جاری بمباری میں نیست و نابود ہو چُکا ہےتصویر: Mahmood Zayyat/AFP/Getty Images

حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان توپ خانے سے گولہ باری کے تبادلے کے آغاز کے بعد سے یہ سرحدی علاقہ شورش کی زد میں ہے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے پیر کو ایک فضائی حملہ کیا ہے۔ اسرائیل کے مطابق لبنان کی سرحد پر پائی جانے والی کشیدہ صورتحال کو مزید جاری رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور آئندہ چھ ماہ اس علاقے کے لیے انتہائی نازک اور غیر معمولی اہمیت کے حامل ہوں گے۔

غزہ کی جنگ میں ہلاکتوں کی تعداد کے مسلسل بڑھنے کے پیش نظر جنگ بندی کے بین الاقوامی مطالبات میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے پس منظر میں امریکہ اسرائیل پر زور دیتا رہا ہے کہ وہ اپنے فوجی آپریشن کی شدت کو کم کرے۔ لیکن غزہ کے مقامی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی طیاروں اور ٹینکوں نے خان یونس کے مشرقی اور شمالی علاقوں میں بمباری تیز تر کر دی ہے۔

ویسٹ بینک میں پرتشدد نقل مکانی کے خوف میں جیتے فلسطینی

05:18

This browser does not support the video element.

شمالی غزہ  میں اسرائیلی فوجی حملوں کی رفتار میں کمی کے اشارے ایک ایسے وقت پر ملے، جب امریکی بحریہ نے اعلان کیا کہ غزہ کی جنگ شروع ہونے کے بعد مشرقی بحیرہ روم کی طرف تعینات کیا گیا امریکی 'جیرالڈ آر فورڈ‘ نامی طیارہ بردار جنگی بحری جہاز ورجینیا کی بندرگاہ پر واپس آ رہا ہے۔

ادھر ایران کی نیم سرکاری ایجنسی تسنیم نے پیر کو ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ ایرانی جنگی بحری جہاز بحیرہ احمر میں داخل ہو گئے ہیں۔

 ک م/ ا ا، م م (روئٹرز، اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں