نیا قانون: جرمن سیکھو، معاشرے میں ضم ہو جاؤ، ورنہ واپس جاؤ
شمشیر حیدر28 مارچ 2016
جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایسے نئے قانون پر کام کر رہے ہیں جس کے مطابق جرمن زبان نہ سیکھنے اور سماجی انضمام نہ کرنے والے مہاجرین جرمنی میں نہیں رہ سکیں گے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز کی جرمن دارالحکومت برلن سے موصول ہونے والی رپورٹوں کے مطابق وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر کا کہنا ہے کہ وہ ملک میں ایک نیا قانون متعارف کروانا چاہ رہے ہیں۔ اس قانون کے مطابق جرمنی میں نئے آنے والے تارکین وطن کے لیے جرمن زبان سیکھنے کے علاوہ سماجی انضمام بھی لازمی ہو گا۔
ڈے میزیئر کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایسا نہ کرنے والے مہاجرین اور تارکین وطن سے جرمنی میں قیام کا حق واپس لے لیا جائے گا۔
جرمنی کے عوام نے رواں ماہ کے اوائل میں چند وفاقی ریاستوں میں منعقد ہونے والے مقامی انتخابات کے دوران جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی جماعت کو مہاجر دوست پالیسی اختیار کرنے کی وجہ کم ووٹ دیے تھے۔ اس کے مقابلے میں دائیں بازو کی مہاجر مخالف اور عوامی مقبولیت کی حامل جماعت اے ایف ڈی کو توقعات سے زیادہ کامیابی حاصل ہوئی تھی۔
’ہم واپس ترکی نہیں جانا چاہتے‘
02:29
ان انتخابی نتائج کے بعد میرکل حکومت کی جانب سے بھی مہاجر دوست پالیسی اب نسبتاﹰ سخت ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ ڈے میزیئر کا تعلق بھی انگیلا میرکل کی سیاسی جماعت سی ڈی یو سے ہے اور نئے قوانین کو بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے کہ سی ڈی یو اپنی کم ہوتی ہوئی مقبولیت میں از سر نو اضافہ حاصل کرنے کی خواہش مند ہے۔
شام اور مشرق وسطیٰ کے جنگ زدہ علاقوں سے گزشتہ برس کے دوران جرمنی میں گیارہ لاکھ کے قریب تارکین وطن آئے تھے۔ ڈے میزیئر کا کہنا ہے کہ رواں برس کے آغاز سے اب تک مزید ایک لاکھ تارکین وطن جرمنی پہنچ چکے ہیں۔
جرمن وزیر داخلہ نے اے آر ڈی ٹی وی سے کی گئی اپنی ایک گفتگو میں کہا کہ جرمنی کو امید ہے کہ ملک میں نئے آنے والے تارکین وطن رہائش، سماجی سہولیات اور زبان سیکھانے کی کلاسوں کے بدلے میں خود بھی جرمن معاشرے میں ضم ہونے کی کوشش کریں گے۔
ڈے میزیئر کا کہنا تھا، ’’جو لوگ جرمن زبان سیکھنے سے انکار کریں گے، یا خاص طور پر خاندان کی عورتوں اور لڑکیوں سمیت اپنے اہل خانہ اور عزیز و اقارب کو جرمن معاشرے میں ضم ہونے سے روکیں گے یا پھر نوکری کرنے سے انکار کریں گے، ان لوگوں کو جرمنی میں لامحدود مدت کے لیے رہنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔‘‘
جرمنی کے نائب چانسلر زیگمار گابریئل نے بھی اس مجوزہ قانونی مسودے کا خیر مقدم کیا ہے۔ نیا قانون مئی کے مہینے میں متعارف کرایا جائے گا۔ گابریئل نے کثیر الاشاعتی جرمن اخبار ’بلڈ‘ سے کی گئی اپنی ایک گفتگو میں کہا، ’’ہمیں تارکین وطن کو صرف سماجی انضمام کے لیے سہولیات ہی فراہم نہیں کرنا چاہییں بلکہ اس کا مطالبہ بھی کرنا چاہیے۔‘‘
پاکستانی تارک وطن، اکبر علی کی کہانی تصویروں کی زبانی
اکبر علی بھی ان ہزاروں پاکستانی تارکین وطن میں سے ایک ہے جو مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران جرمنی اور دیگر یورپی ممالک پہنچے۔ اس پرخطر سفر کے دوران علی نے چند مناظر اپنے موبائل فون میں محفوظ کر لیے۔
تصویر: DW/S. Haider
ایران کا ویزہ لیکن منزل ترکی
علی نے پاکستان سے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے ایران کا ویزہ لیا۔ ایران سے انسانوں کے اسمگلروں نے اسے سنگلاخ پہاڑوں کے ایک طویل پیدل راستے کے ذریعے ترکی پہچا دیا۔ تین مہینے ترکی کے مختلف شہروں میں گزارنے کے بعد علی نے یونان کے سفر کا ارادہ کیا اور اسی غرض سے وہ ترکی کے ساحلی شہر بودرم پہنچ گیا۔
تصویر: Akbar Ali
میدانوں کا باسی اور سمندر کا سفر
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر سینکڑوں تارکین وطن کو نگل چکا ہے۔ یہ بات علی کو بھی معلوم تھی۔ پنجاب کے میدانی علاقے میں زندگی گزارنے والے علی نے کبھی سمندری لہروں کا سامنا نہیں کیا تھا۔ علی نے اپنے دل سے سمندر کا خوف ختم کرنے کے لیے پہلے سیاحوں کے ساتھ سمندر کی سیر کی۔ پھر درجنوں تارکین وطن کے ہمراہ ایک چھوٹی کشتی کے ذریعے یونانی جزیرے لیسبوس کے سفر پر روانہ ہو گیا۔
تصویر: Akbar Ali
دیکھتا جاتا ہوں میں اور بھولتا جاتا ہوں میں
سمندر کی خونخوار موجوں سے بچ کر جب علی یونان پہنچا تو اسے ایک اور سمندر کا سامنا تھا۔ موسم گرما میں یونان سے مغربی یورپ کی جانب رواں مہاجرین کا سمندر۔ علی کو یہ سفر بسوں اور ٹرینوں کے علاوہ پیدل بھی طے کرنا تھا۔ یونان سے مقدونیا اور پھر وہاں سے سربیا تک پہنچتے پہنچتے علی کے اعصاب شل ہو چکے تھے۔ لیکن منزل ابھی بھی بہت دور تھی۔
تصویر: Akbar Ali
کھنچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سمت فصیل
ہزاروں مہاجرین کی روزانہ آمد کے باعث یورپ میں ایک بحرانی کیفیت پیدا ہو چکی تھی۔ علی جب سربیا سے ہنگری کے سفر پر نکلا تو ہنگری خاردار تاریں لگا کر اپنی سرحد بند کر چکا تھا۔ وہ کئی دنوں تک سرحد کے ساتھ ساتھ چلتے ہنگری میں داخل ہونے کا راستہ تلاشتے رہے لیکن ہزاروں دیگر تارکین وطن کی طرح علی کو بھی سفر جاری رکھنا ناممکن لگ رہا تھا۔
تصویر: Akbar Ali
متبادل راستہ: ہنگری براستہ کروشیا
کروشیا اور ہنگری کے مابین سرحد ابھی بند نہیں ہوئی تھی۔ علی دیگر مہاجرین کے ہمراہ بس کے ذریعے سربیا سے کروشیا کے سفر پر روانہ ہو گیا، جہاں سے وہ لوگ ہنگری میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ہنگری سے بذریعہ ٹرین علی آسٹریا پہنچا، جہاں کچھ دن رکنے کے بعد وہ اپنی آخری منزل جرمنی کی جانب روانہ ہو گیا۔
تصویر: Akbar Ali
جرمنی آمد اور بطور پناہ گزین رجسٹریشن
اکبر علی جب جرمنی کی حدود میں داخل ہوا تو اسے پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کے مرکز لے جایا گیا۔ علی نے جرمنی میں پناہ کی باقاعدہ درخواست دی، جس کے بعد اسے جرمنی کے شہر بون میں قائم ایک شیلٹر ہاؤس پہنچا دیا گیا۔ علی کو اب اپنی درخواست پر فیصلہ آنے تک یہاں رہنا ہے۔ اس دوران جرمن حکومت اسے رہائش کے علاوہ ماہانہ خرچہ بھی دیتی ہے۔ لیکن علی کا کہنا ہے کہ سارا دن فارغ بیٹھنا بہت مشکل کام ہے۔
تصویر: DW/S. Haider
تنہائی، فراغت اور بیوی بچوں کی یاد
علی جرمن زبان سے نابلد ہے۔ کیمپ میں کئی ممالک سے آئے ہوئے مہاجرین رہ رہے ہیں۔ لیکن علی ان کی زبان بھی نہیں جانتا۔ اسے اپنے بچوں اور بیوی سے بچھڑے ہوئے سات ماہ گزر چکے ہیں۔ اپنے خاندان کا واحد کفیل ہونے کے ناطے اسے ان کی فکر لاحق رہتی ہے۔ اس کا کہنا ہے، ’’غریب مزدور آدمی ہوں، جان بچا کر بھاگ تو آیا ہوں، اب پچھتاتا بھی ہوں، بیوی بچوں کے بغیر کیا زندگی ہے؟ لیکن انہی کی خاطر تو سب کچھ کر رہا ہوں۔‘‘