نیا منفی ریکارڈ: اگلے سال سترہ کروڑ انسانوں کو مدد کی ضرورت
4 دسمبر 2019
اقوام متحدہ کے مطابق چار ہفتے بعد شروع ہونے والے سال دو ہزار بیس میں دنیا بھر میں بحرانوں اور تنازعات سے متاثرہ تقریباﹰ سترہ کروڑ افراد کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ہنگامی مدد کی ضرورت ہو گی، جو ایک نیا منفی ریکارڈ ہے۔
اشتہار
اقوام متحدہ نے عالمی برادری سے یہ اپیل بھی کی ہے کہ اسے ان تقریباﹰ 168 ملین انسانوں کی امداد کے لیے 29 ارب ڈالر کی ضرورت ہو گی، جو اس عالمی ادارے کو اس لیے مہیا کیے جانا چاہییں کہ وہ 2020ء میں بھی شدید نوعیت کے مسائل، خطرات اور محرومیوں کے شکار ان کروڑوں انسانوں کی مدد کر سکے۔
ہر 45 انسانوں میں سے ایک کو ہنگامی امداد کی ضرورت
عالمی ادارے کی ایک نئی رپورٹ کے مطابق نئے سال 2020ء میں دنیا کے مختلف خطوں میں مسلح تنازعات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کے باعث ہر 45 میں سے ایک انسان زندہ رہنے کے لیے ہنگامی امداد کا ضرورت مند ہو گا۔
اس ادارے کی 'گلوبل ہیومینیٹیرین اوورویو‘ نامی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آئندہ برس جن انسانوں کو خوراک، رہائش اور صحت کے شعبوں میں ہنگامی بنیادوں پر مدد کی ضرورت ہو گی، ان کی تعداد 167.6 ملین ہو گی، اور یہ بھی ایک نیا ریکارڈ ہو گا۔
ساتھ ہی اس رپورٹ میں یہ تنبیہ بھی کی گئی ہے کہ گزشتہ کئی عشروں میں کبھی اتنی زیادہ نہ رہنے والی یہ تعداد بھی صرف تخمینوں پر مبنی ہے، اور اگر 'مسلح تنازعات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی اصل وجوہات کا تدارک نہ کیا گیا‘ تو مستقبل میں یہ اور بھی زیادہ ہوتی جائے گی۔
رپورٹ میں شامل چند تکلیف دہ حقائق
۔ 2020ء میں پوری دنیا میں ہر 45 ویں انسان کو ہنگامی بنیادوں پر مدد اور تحفظ کی ضرورت ہو گی۔ یہ تعداد 167.6 ملین بنتی ہے۔
۔ اقوام متحدہ کو ان میں سے انتہائی پرخطر حالات کا شکار تقریباﹰ 109 ملین انسانوں کی ایمرجنسی مدد کے لیے اگلے برس مجموعی طور پر 28.8 بلین ڈالر کی ضرورت ہو گی۔
۔ اس سال نومبر کے آخر تک دنیا بھر میں 166.5 ملین انسانوں کو ہنگامی بنیادوں پر امداد کی ضرورت تھی۔ یہ تعداد سال رواں کے لیے اقوام متحدہ کے گزشتہ برس لگائے گئے اندازوں سے 26 فیصد زیادہ تھی۔ تب انتہائی تشویش ناک اور پرخطر حالات کا شکار انسانوں کی تعداد کا اندازہ 117 ملین لگایا گیا تھا۔
۔ 2019ء میں اقوام متحدہ اور اس کے ذیلی یا پارٹنر اداروں نے انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر امداد کے لیے جتنے بھی مالی وسائل استعمال کیے، ان کا 42 فیصد حصہ صرف شام اور یمن میں جنگوں کی وجہ سے پائے جانے والے شدید بحرانوں کے متاثرین پر خرچ کیا گیا۔
۔ اس سال نومبر کے وسط تک ہیٹی اور وینزویلا کے لیے امداد کی خاطر جتنے مالی وسائل کی درخواست کی گئی، ان میں سے اقوام متحدہ کو صرف 30 فیصد رقوم مہیا کی گئیں۔ اس کے برعکس ایتھوپیا، عراق، مڈغاسکر اور میانمار کے لیے کی گئی مالی مدد کی اپیلوں کے بعد اقوام متحدہ کو مہیا کردہ رقوم کا تناسب 80 فیصد رہا۔
۔ دنیا بھر میں انتہائی خونریز تنازعات کی تعداد 2018ء میں 36 سے بڑھ کر 2019ء میں 41 ہو گئی۔ اس سال ایسے تنازعات کی تعداد میں گزشتہ چار برسوں میں پہلی بار اضافہ ہوا۔
۔ سال رواں کے پہلے نو ماہ کے دوران اقوام متحدہ یا اس کے پارٹنر اداروں کے صحت کے شعبے کے کارکنوں پر 825 مسلح حملے کیے گئے، جن کے نتیجے میں 171 اموات ہوئیں۔ نو ماہ کے دوران ان حملوں اور ہلاکتوں کی تعداد گزشتہ پورے سال سے زیادہ تھی۔
جنگ میں بیماری: یمن میں کینسر کے مریض
تقریباﹰ تین برسوں سے یمن میں سعودی عسکری اتحاد اور ایرانی حمایت یافتہ حوثی باغی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہسپتال بھی بموں سے محفوظ نہیں ہیں۔ ایسے میں شدید بیمار افراد مشکل سے ہے مدد حاصل کر پاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
مہنگا علاج
خالد اسماعیل اپنی بیٹی رضیہ کا دایاں ہاتھ چوم رہے ہیں۔ سترہ سالہ کینسر کی مریضہ کا بایاں ہاتھ کاٹ دیا گیا تھا۔ اپنی جمع پونجی بیچنے اور ادھار لینے کے باجود خالد اس سے بہتر علاج کروانے کی سکت نہیں رکھتے، ’’جنگ نے ہماری زندگیاں تباہ کر دی ہیں۔ ہم بیرون ملک نہیں جا سکتے اور میری بیٹی کا مناسب علاج بھی نہیں ہوا۔‘‘
تصویر: Reuters/K. Abdullah
کوئی حکومتی مدد نہیں
گزشتہ دو برسوں سے نیشنل اونکولوجی سینٹر کو کوئی مالی مدد فراہم نہیں کی جا رہی۔ اب انسداد کینسر کا یہ مرکز ڈبلیو ایچ او جیسی بین الاقوامی امدادی تنظیموں اور مخیر حضرات کی مدد سے چلایا جا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
بیڈ صرف بچوں کے لیے
کینسر سینٹر میں بیڈز کی تعداد انتہائی محدود ہے اور جو موجود ہیں وہ بچوں کے لیے مختص ہیں۔ اس کلینک میں ماہانہ صرف چھ سو نئے مریض داخل کیے جاتے ہیں۔ اتنے زیادہ مریضوں کے علاج کے لیے گزشتہ برس ان کے پاس صرف ایک ملین ڈالر تھے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
انتظار گاہ میں ہی تھیراپی
بالغ مریضوں کی تھیراپی کلینک کی انتظار گاہ کی بینچوں پر ہی کی جاتی ہے۔ جنگ سے پہلے اس سینٹر کو سالانہ پندرہ ملین ڈالر مہیا کیے جاتے تھے اور ملک کے دیگر ہسپتالوں میں بھی ادویات یہاں سے ہی جاتی تھیں لیکن اب صورتحال بدل چکی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
امدادی سامان کی کمی
صنعا کے اس کلینک میں کینسر کی ایک مریضہ اپنے علاج کے انتظار میں ہے لیکن یمن میں ادویات کی ہی کمی ہے۔ سعودی عسکری اتحاد نے فضائی اور بری راستوں کی نگرانی سخت کر رکھی ہے۔ اس کا مقصد حوثی باغیوں کو ملنے والے ہتھیاروں کی سپلائی کو روکنا ہے لیکن ادویات کی سپلائی بھی متاثر ہو رہی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
ڈاکٹروں کی کمی
ستر سالہ علی ہضام منہ کے کینسر کے مریض ہیں۔ ایک امدادی تنظیم ان جیسے مریضوں کو رہائش فراہم کرتی ہے۔ یہاں صرف بستروں کی ہی کمی نہیں بلکہ ڈاکٹر بھی بہت کم ہیں۔ یمن بھر میں طبی عملے کی کمی ہے اور اوپر سے غریب عوام علاج کروانے کی سکت بھی نہیں رکھتے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
انسانی المیہ
14 سالہ آمنہ محسن ایک امدادی تنظیم کے اس گھر میں کھڑی ہے، جہاں کینسر کے مریضوں کو رہائش مہیا کی جاتی ہے۔ یمن میں لاکھوں افراد کو بھوک اور ملیریا اور ہیضے جیسی بیماریوں کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق یہ جنگ 50 ہزار افراد کو نگل چکی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Abdullah
7 تصاویر1 | 7
زیادہ طویل اور شدید تر تنازعات
اقوام متحدہ کے ہنگامی بنیادوں پر امداد کے رابطہ کار مارک لوکاک نے بدھ تین دسمبر کو جنیوا میں صحافیوں کو بتایا کہ انسانی بنیادوں پر اس ہنگامی امداد کی دنیا بھر میں ضرورت اس لیے زیادہ ہوتی جا رہی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر ''مسلح تنازعات طویل تر اور شدید تر ہوتے جا رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا، ''تنازعات اور بحرانوں کا شکار ہو جانے والے انسانوں کو بے گھر ہو جانے، بھوک، نفسیاتی اور سماجی جھٹکوں اور آمدنی سے محروم ہو جانے جیسے حالات کا سامنا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسے خاندان اور ان کے افراد تعلیمی اور طبی سہولیات تک رسائی سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔
مارک لوکاک نے عالمی برادری سے ان المناک مسائل سے متعلق بیداری کی اپیل کرتے ہوئے کہا، ''بہت کڑوا سچ یہ ہے کہ 2020ء کروڑوں انسانوں کے لیے ایک بہت تکلیف دہ سال ہو گا۔‘‘
م م / ش ح (اے ایف پی، ڈی پی اے)
شامی خانہ جنگی: آغاز سے الرقہ کی بازیابی تک، مختصر تاریخ
سن دو ہزار گیارہ میں شامی صدر کے خلاف پرامن مظاہرے خانہ جنگی میں کیسے بدلے؟ اہم واقعات کی مختصر تفصیلات
تصویر: picture-alliance/dpa
پندرہ مارچ، سن دو ہزار گیارہ
مارچ سن ہزار گیارہ میں شام کے مختلف شہروں میں حکومت مخالف مظاہرے شروع ہوئے۔ عرب اسپرنگ کے دوران جہاں کئی عرب ممالک میں عوام نے حکومتوں کے تختے الٹ دیے، وہیں شامی مظاہرین بھی اپنے مطالبات لیے سڑکوں پر نکلے۔ وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ حکومت سیاسی اصلاحات کرے۔ تاہم پندرہ مارچ کو حکومتی فورسز نے درعا میں نہتے عوام پر فائرنگ کر دی، جس کے نتیجے میں چار شہری مارے گئے۔
تصویر: dapd
اٹھائیس مارچ، سن دو ہزار گیارہ
شامی صدر بشار الاسد کا خیال تھا کہ طاقت کے استعمال سے عوامی مظاہروں کو کچل دیا جائے گا۔ پندرہ مارچ سے شروع ہوئے حکومتی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں اٹھائیس مارچ تک ساٹھ مظاہرین ہلاک کر دیے گئے۔ حکومتی کریک ڈاؤن کی شدت کے ساتھ ہی یہ مظاہرے شام بھر میں پھیلنے لگے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اٹھارہ اگست، سن دو ہزار گیارہ
شامی حکومت کے خونریز کریک ڈاؤن کے جواب میں تب امریکی صدر باراک اوباما نے بشار الاسد کے مستعفی ہونے کا مطالبہ اور امریکا میں تمام شامی حکومتی اثاثوں کو منجمد کرنے کا اعلان کر دیا۔ تاہم شامی صدر نے عالمی برادری کے مطالبات مسترد کر دیے اور حکومت مخالف مظاہرین کے خلاف کارروائی جاری رکھی گئی۔
تصویر: AP
انیس جولائی، سن دو ہزار بارہ
جولائی سن دو ہزار بارہ میں حکومتی کریک ڈاؤن کا سلسلہ حلب تک پھیل گیا۔ وہاں مظاہرین اور حکومتی دستوں میں لڑائی شروع ہوئی تو یہ تاریخی شہر تباہی سے دوچار ہونا شروع ہو گیا۔ تب درعا، حمص، ادلب اور دمشق کے نواح میں بھی جھڑپوں میں شدت آ گئی۔ اسی دوران حکومت مخالف مظاہرین کی تحریک مکمل باغی فورس میں تبدیل ہوتی جا رہی تھی۔
تصویر: dapd
دسمبر، سن دو ہزار بارہ
برطانیہ، امریکا، فرانس، ترکی اور خلیجی ممالک نے باغی اپوزیشن کو شامی عوام کی قانونی نمائندہ تسلیم کر لیا۔ اس کے ساتھ ہی اسد کی حامی افواج کے خلاف کارروائی میں سیریئن کولیشن سے تعاون بھی شروع کر دیا گیا۔ اس وقت بھی شامی صدر نے عالمی مطالبات مسترد کر دیے۔ دوسری طرف اسد کے خلاف جاری لڑائی میں شدت پسند عسکری گروہ بھی ملوث ہو گئے۔ ان میں القاعدہ نمایاں تھی۔
تصویر: Reuters
انیس مارچ، سن دو ہزار تیرہ
اس دن خان العسل میں کیمیائی حملہ کیا گیا، جس کی وجہ سے چھبیس افراد مارے گئے۔ ان میں زیادہ تر تعداد شامی فوجیوں کی تھی۔ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کے مطابق یہ سارین گیس کا حملہ تھا۔ تاہم معلوم نہ ہو سکا کہ یہ کارروائی کس نے کی تھی۔ حکومت اور باغی فورسز نے اس حملے کے لیے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا۔ اسی سال عراق اور شام میں داعش کے جنگجوؤں نے بھی اپنی کارروائیاں بڑھا دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. H. Kadour
ستائیس ستمبر، دو ہزار تیرہ
شامی تنازعے میں کیمیائی ہتھیاروں سے حملوں کی وجہ سے اقوام متحدہ نے دمشق حکومت کو خبردار کیا کہ اگر اس نے اپنے کیمیائی ہتھیاروں کو ناکارہ نہ بنایا تو اس کے خلاف عسکری طاقت استعمال کی جائے گی۔ تب صدر اسد نے ان خطرناک ہتھیاروں کا ناکارہ بنانے پر رضامندی ظاہر کر دی۔ اسی دوران سیاسی خلا کی وجہ سے انتہا پسند گروہ داعش نے شام میں اپنا دائرہ کار وسیع کرنا شروع کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
جون، سن دو ہزار چودہ
شامی شہر الرقہ پہلا شہر تھا، جہاں انتہا پسند گروہ داعش نے مکمل کنٹرول حاصل کیا تھا۔ جون میں داعش نے اس شہر کو اپنا ’دارالخلافہ‘ قرار دے دیا۔ تب ان جنگجوؤں نے اسی مقام سے اپنے حملوں کا دائرہ کار وسیع کرنا شروع کر دیا۔ بائیس ستمبر کو امریکی اتحادی افواج نے داعش کے ٹھکانوں پر فضائی حملوں کا آغاز کیا۔
تصویر: picture-alliance/abaca/Yaghobzadeh Rafael
تئیس ستمبر، دو ہزار پندرہ
شامی تنازعے میں روس اگرچہ پہلے بھی شامی بشار الاسد کے ساتھ تعاون جاری رکھے ہوئے تھا تاہم اس دن ماسکو حکومت شامی خانہ جنگی میں عملی طور پر فریق بن گئی۔ تب روسی جنگی طیاروں نے اسد کے مخالفین کے خلاف بمباری کا سلسلہ شروع کر دیا۔ تاہم ماسکو کا کہنا تھا کہ وہ صرف جہادیوں کو نشانہ بنا رہا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Images/M. Japaridze
مارچ، سن دو ہزار سولہ
روسی فضائیہ کی مدد سے شامی دستوں کو نئی تقویت ملی اور جلد ہی انہوں نے جنگجوؤں کے قبضے میں چلے گئے کئی علاقوں کو بازیاب کرا لیا۔ اس لڑائی میں اب شامی فوج کو ایران نواز شیعہ ملیشیا حزب اللہ کا تعاون بھی حاصل ہو چکا تھا۔ مارچ میں ہی اس اتحاد نے پالمیرا میں داعش کو شکست دے دی۔
تصویر: REUTERS/O. Sanadiki
دسمبر، سن دو ہزار سولہ
روسی جنگی طیاروں اور حزب اللہ کے جنگجوؤں کے تعاون سے شامی فوج نے حلب میں بھی جہادیوں کو پسپا کر دیا۔ تب تک یہ شہر خانہ جنگی کے باعث کھنڈرات میں بدل چکا تھا۔ شہری علاقے میں شامی فوج کی یہ پہلی بڑی کامیابی قرار دی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/K. al-Masri
جنوری، سن دو ہزار سترہ
امریکا، ترکی، ایران اور روس کی کوششوں کی وجہ سے شامی حکومت اور غیر جہادی گروہوں کے مابین ایک سیزفائر معاہدہ طے پا گیا۔ تاہم اس ڈیل کے تحت جہادی گروہوں کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ ترک نہ کیا گیا۔
تصویر: Reuters/R. Said
اپریل، سن دو ہزار سترہ
ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے چند ماہ بعد حکم دیا کہ شامی حکومت کے اس فوجی اڈے پر میزائل داغے جائیں، جہاں سے مبینہ طور پر خان شیخون میں واقع شامی باغیوں کے ٹھکانوں پر کیمیائی حملہ کیا گیا تھا۔ امریکا نے اعتدال پسند شامی باغیوں کی مدد میں بھی اضافہ کر دیا۔ تاہم دوسری طرف روس شامی صدر کو عسکری تعاون فراہم کرتا رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/US Navy
جون، سن دو ہزار سترہ
امریکی حمایت یافتہ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز (ایس ڈی ایف) کے فائٹرز نے الرقہ کا محاصرہ کر لیا۔ کرد اور عرب جنگجوؤں نے اس شہر میں داعش کو شکست دینے کے لیے کارروائی شروع کی۔ اسی ماہ روس نے اعلان کر دیا کہ ایک فضائی حملے میں داعش کا رہنما ابوبکر البغدادی غالباﹰ مارا گیا ہے۔ تاہم اس روسی دعوے کی تصدیق نہ ہو سکی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Huby
اکتوبر، دو ہزار سترہ
ستمبر میں کرد فورسز نے الرقہ کا پچاسی فیصد علاقہ بازیاب کرا لیا۔ اکتوبر میں اس فورس نے الرقہ کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی خاطر کارروائی کا آغاز کیا۔ مہینے بھر کی گھمسان کی جنگ کے نتیجے میں اس فورس نے سترہ اکتوبر کو اعلان کیا کہ جہادیوں کو مکمل طور پر پسپا کر دیا گیا ہے۔ اس پیشقدمی کو داعش کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا گیا تاہم شامی خانہ جنگی کے دیگر محاذ پھر بھی ٹھنڈے نہ ہوئے۔