ترکی افواج شامی سرحد کو عبور کرتے ہوئے عفرین ریجن میں داخل ہو گئے ہیں۔ ترک وزیر اعظم کے مطابق یہ کارروائی انقرہ کی طرف سے شامی کرد ملیشیا ’وائی پی جی‘ کے خلاف شروع کیے گئے عسکری آپریشن کا حصہ ہے۔
اشتہار
خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم کے حوالے سے بتایا ہے کہ کرد ملیشیا گروہ کے خلاف جاری ملکی فوج کی کارروائی کے دوران بروز اتوار ترک دستے شام میں داخل ہو گئے۔ ترک فورسز نے ہفتے کے دن پیپلز پروٹیکشن یونٹ (وائی پی جی) کے خلاف یہ کارروائی شروع کی تھی۔ سکیورٹی مبصرین نے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ ترک بری افواج اس کارروائی میں شامی سرحد عبور کر سکتی ہیں۔
ترک وزیر اعظم نے استنبول میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ترکی افواج عالمی وقت کے مطابق صبح آٹھ بجکر پانچ منٹ پر عفرین ریجن میں داخل ہوئیں۔ یہ وہی شامی علاقہ ہے، جہاں کرد ملیشیا YPG کے جنگجوؤں کا کنٹرول ہے۔ سرکاری نیوز ایجنسیوں کے مطابق ترک دستے انقرہ نواز باغی گروہ فری سیرین آرمی کے فائٹرز کے ساتھ آہستہ آہستہ پیشقدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
شامی میڈٰیا میں ایسی تصاویر اور ویڈیو بھی نشر کی گئی ہیں، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ترک ٹینک اور فوجی گاڑیاں آگے بڑھ رہی ہیں۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ شام میں کرد باغیوں کے خلاف اس نئی کارروائی میں کتنے ترک فوجی میدان میں اترے ہیں۔ انقرہ اس کرد ملیشیا کو ’کردستان ورکرز پارٹی‘ سے وابستہ قرار دتی ہے، جسے ترک حکومت ’دہشت گرد‘ قرار دیے چکی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ جنگجو ترکی کی سالمیت اور خودمختاری کے لیے ایک خطرہ ہیں۔
انقرہ حکومت نے شام سے متصل ترک علاقوں میں ہونے والے متعدد دہشت گردانہ حملوں کی ذمہ داری کردستان ورکرز پارٹی پر عائد کر رکھی ہے۔ تاہم YPG کا کہنا ہے کہ اس کا ترک کرد علیحدگی پسندوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ یہ کرد باغی شامی جنگ میں نیٹو رکن ملک امریکا کے اہم اتحادی ہیں، جو اسلامک اسٹیٹ کے جنگجوؤں کے خلاف برسر پیکار ہیں۔
ہفتے کے دن ترکی فوج نے عفرین میں فضائی حملے شروع کیے تھے، جس میں انہی باغیوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اگرچہ دمشق حکومت پہلے بھی الزام عائد کر چکی ہے کہ ترک افواج بری افواج نے شامی سرحدوں کی خلاف ورزی کی تاہم یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ترک حکومت نے اعلانیہ کہا ہے کہ ترک فوجی شام میں داخل ہوئے ہیں۔ ترک وزیر اعظم کے مطابق اس کارروائی کا مقصد ان کرد باغیوں کو ترک سرحد سے تیس کلو میٹر دور دھکیلنا ہے تاکہ دونوں ممالک کی سرحدوں پر ایک سکیورٹی زون قیام کیا جا سکے۔
ترکی میں شامی مہاجرین کے لیے انضمام کے مسائل
شام میں جاری خانہ جنگی کے باعث اپنے آبائی وطن کو ترک کر کے تُرکی آنے والے شامی مہاجرین کے لیے یہاں ایک طویل عرصہ گزارنے کے باوجود ترک زبان میں مہارت اور مناسب ملازمتیں حاصل کرنا بڑے مسائل ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
اسکول سے باہر جھانکتا شامی بچہ
ایک بچہ جنوبی ترکی میں قائم نزپ 2 نامی مہاجر کیمپ میں ایک اسکول سے باہر جھانک رہا ہے۔ یہ کیمپ رہائش کے بین الاقوامی معیار کا حامل ہے تاہم کچھ شامی مہاجرین اب بھی سماج سے کٹ کر ہی رہنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
توقع سے زیادہ بہتر
سن 2012 میں دریائے فرات کے کنارے تعمیر کیے گئے نزپ2 کیمپ میں صحت اور مفت تعلیم کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔ علاوہ ازیں یہاں رہنے والوں کے لیے سپر مارکیٹیں بھی بنائی گئی ہیں۔ نزپ2 میں فی الحال 4.500 شامی مہاجرین قیام پذیر ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
چالیس فیصد شامی مہاجر بچے تعلیم سے محروم
ترکی کی نیشنل ایجوکیشن کی وزارت کے مطابق اسکول جانے کی عمر کے قریب 40 فیصد بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ نزپ2 جیسے مہاجر کیمپوں میں ہر عمر کے طالبعلم بچوں کو عربی، انگریزی اور ترک زبانوں میں مفت تعلیم دی جاتی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
برادری کے ساتھ زیادہ محفوظ
نزپ2 میں انگریزی کے استاد مصطفی عمر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شامی بچوں کے لیے کیمپ سے باہر نکلنا اچھا ہے کیونکہ اُن کی ترکی زبان سیکھنے کی رفتار بہت آہستہ ہے۔ تاہم وہ کیمپ میں اپنی برادری کے ساتھ خود کو محفوظ تصور کرتے ہیں اور یہ ہمارے لیے اہم ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ترکی اور شامی مہاجر بچوں کی دوستی
اقتصادی اور سماجی پناہ گزین انضمام کے ماہر عمر کادکوے کا کہنا ہے کہ شامی اور ترک بچوں کے درمیان بات چیت سماجی تناؤ کو دور کرنے میں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’ترک زبان سیکھنا اتنا بھی مشکل نہیں‘
ترک معاشرے میں شامی مہاجرین کے لیے زبان کی مشکلات اپنی جگہ، لیکن اس کے باجود اس مقصد میں کامیاب ہونے والوں کی کہانیاں بھی ہیں۔ سترہ سالہ ماہر اسماعیل کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایک سال سے ترکی سیکھ رہا ہے اور یہ اتنا مشکل بھی نہیں۔ اسماعیل ستر فیصد ترکی سمجھ سکتا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
مناسب روز گار کی تلاش
ترکی میں رہنے والے شامی مہاجرین عمومی طور پر بے روز گار ہیں۔ زیادہ تر کو سخت محنت والے شعبوں میں کم درجے کی ملازمتیں مل جاتی ہیں باقی ماندہ اپنی ذاتی کاروباری کمپنیاں کھول لیتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
12 گھنٹے روزانہ کی شفٹ
چوبیس سالہ قہر من مارش ہفتے میں سات دن روزانہ 12 گھنٹے کی شفٹ پر ایک کباب شاپ پر ملازمت کرتا ہے، جہاں سے اسے مہینے میں ایک ہزار لیرا ملتے ہیں۔ مارش کا کہنا ہے کہ وہ اسکول جانا چاہتا ہے لیکن اُس کے پاس وقت نہیں ہے کیونکہ اُس کے والدین اُس کی کمائی پر انحصار کرتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
گھر جانے کو بیتاب
نزپ2 مہاجر کیمپ کے باسیوں کے ذہن میں ایک خیال ہر وقت رہتا ہے کہ گھر کب جائیں گے۔
سترہ سالہ محمد حاجی(بائیں) جو 35 لیرا یومیہ پر پھل اور سبزیاں چنتا ہے، کا کہنا ہے کہ اسکول جانے کا تو سوال ہی نہیں کیونکہ وہ اپنے گھر شام جانا چاہتا ہے۔ ستاون سالہ زکریا ارید( دائیں) شام میں اپنے شہر رقہ کے جہادی گروپ ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے آزاد ہونے کا انتظار کر رہا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
شہریت کا سوال
شامی مہاجر خاتون آیوش احمد جو تصویر میں نظر نہیں آرہی ہیں، نے اپنی دو پوتیوں میں سے ایک کو گود میں لیا ہوا ہے۔ آیوش احمد کیمپ میں قریب 5 برس سے مقیم ہیں۔ اُن کی دونوں پوتیاں اسی کیمپ میں رہائش کے دوران پیدا ہوئی ہیں۔ آیوش احمد کا کہنا ہے،’’ اگر ہم ترکی میں رہے تو میری پوتیوں کی شہریت ترک ہو جائے گی اور اگر شام چلے گئے تو وہ شامی شہریت کی حامل ہوں گی۔