انتہائی تیزی سے پھیلنے والا نیا کورونا وائرس صرف برطانیہ ہی نہیں بلکہ متعدد یورپی ممالک اور آسٹریلیا تک پہنچ چکا ہے۔ جنوبی افریقی حکام نے بھی ملک میں کورونا وائرس کی نئی قسم کی موجودگی کی تصدیق کر دی ہے۔
اشتہار
مہلک کووڈ انیس کی ایک نئی قسم برطانیہ کے جنوب میں تیزی سے پھیل رہی ہے اور اس نے پورے براعظم یورپ میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ اس نئے وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے متعدد یورپی ممالک نے برطانیہ کے خلاف سفری پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
گزشتہ ویک اینڈ پر برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ کووڈ انیس وائرس کی یہ نئی قسم موجودہ وائرس سے ستر فیصد زیادہ تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ لندن اور جنوبی انگلینڈ میں متاثرہ افراد کی تعداد میں حیران کن اضافہ ہوا ہے۔
تاہم برطانوی حکام کا زور دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ان کے پاس ایسے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں، جن سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ یہ نیا وائرس موجودہ وائرس سے زیادہ خطرناک ہے یا اس کے خلاف ویکیسن کم موثر ثابت ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں کووڈ انیس کی یہ نئی قسم موجودہ کورونا وائرس جتنی ہی خطرناک ہے لیکن اس کا پھیلاؤ بہت تیز ہے۔
بیماریوں سے بچاؤ اور کنٹرول کے یورپی مرکز (ای سی ڈی سی) نے پیر کے روز کہا ہے کہ کووڈ انیس کے نئے وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے 'فوری اقدامات‘ ضروری ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس بات کی بھی تصدیق کی گئی ہے کہ نیا وائرس متعدد یورپی ممالک تک پہنچ بھی چکا ہے۔
جرمنی میں ٹیوبنگن یونیورسٹی ہسپتال کے ڈائریکٹر پیٹر کریمزنر کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ برطانیہ پر سفری پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ غیر ضروری ہے، ''میرے خیال سے سرحدیں بند کرنے کا فیصلہ درست نہیں ہے، خاص طور پر یورپی یونین میں۔ ہمیں مل کر اس وباء کا مقابلہ کرنا چاہیے اور عالمی سطح پر ہم اسی طرح کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔‘‘
یورپی ممالک میں نیا وائرس
بیماریوں سے بچاؤ اور کنٹرول کے یورپی مرکز کے مطابق کووڈ انیس وائرس کی نئی قسم آئس لینڈ، ڈنمارک اور ہالینڈ میں بھی ملی ہے۔ اس ادارے نے ان میڈیا رپورٹوں کی بھی تصدیق کی ہے، جن کے مطابق نئے وائرس کی بیلجیم اور اٹلی میں بھی موجودگی کے شواہد ملے ہیں۔
برطانوی ڈاکٹر جان کیمبل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ہے کہ نئے وائرس سے متعلق خبریں چند روز قبل میڈیا پر آئی ہیں لیکن برطانیہ میں اس کی پہلی مرتبہ شناخت ستمبر کے اواخر میں ہوئی تھی، ''کیوں کہ یہ وائرس ستمبر میں سامنے آیا تھا تو اب تک ممکنہ طور پر یہ کئی یورپی ممالک تک پھیل چکا ہو گا۔ پھیلاؤ کے حوالے سے یہ زیادہ خطرناک ہے اور اس کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ جن علاقوں میں یہ پایا گیا ہے، وہاں مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔‘‘
آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ میں بھی
آسٹریلیا نے بھی پیر کے روز تصدیق کی ہے کہ برطانیہ میں دریافت ہونے والا نیا وائرس ان کے ملک میں پایا گیا ہے۔ آسٹریلوی حکام کے مطابق یہ وائرس دو برطانوی مسافروں کے ذریعے ان کے ملک پہنچا ہے۔ ان دونوں مسافروں کو فی الحال ایک ہوٹل میں قرنطینہ میں رکھا گیا ہے۔
گزشتہ ویک اینڈ پر جنوبی افریقی حکام نے بھی برطانوی مسافروں پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس ملک کے وزیر صحت سویلنی مخیز کا کہا تھا کہ ملک میں کورونا وائرس کی دوسری لہر کے پیچھے برطانیہ میں دریافت ہونے والی کورونا وائرس کی نئی قسم 501.V2 کارفرما ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق دوسری لہر نے بڑی تعداد میں نوجوانوں کو متاثر کیا ہے۔ متاثرہ نوجوانوں کو بھی سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔
ا ا / ع ح (روئٹرز، اے پی، ڈی پی اے)
خالی شہر، ویران سیاحتی مقامات
کورونا وائرس کی وبا سے کئی ملکوں میں ہُو کا عالم طاری ہے۔ شہروں میں ویرانی چھائی ہے اور لوگ گھروں میں مقید ہو کر رہ گئے ہیں۔ سنسان سیاحتی مقامات کی بھی اپنی ایک کشش ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Kneffel
مارین پلاٹز، میونخ
جرمن شہر میونخ کے ٹاؤن ہال کے سامنے مارین پلاٹز اجڑا ہوا اوپن ایئر تھیئٹر کا نظارہ پیش کر رہا ہے۔ اِکا دُکا افراد اس مقام پر کھڑے ہو کر ٹاؤن ہال کے واچ ٹاور کو دیکھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ واچ ٹاور کے گھڑیال کی گھنٹیاں شائقین شوق سے سنا کرتے تھے۔ فی الحال مارین پلاٹز میں پولیس اہلکار ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Kneffel
اسپینش اسٹیپس، روم
تاریخی شہر روم کو آفاقی شہر بھی قرار دیا جاتا ہے۔ اس کا مشہور سیاحتی مقام اسپینش اسٹیپس اور بارکاچا فاؤنٹین بھی آج کل سیاحوں کے بغیر ہیں۔ بارکاچا فوارہ سن 1598 کے سیلاب کی نشانی ہے۔ فوارے کا پانی چل رہا ہے لیکن سیڑھیوں پر سیاح موجود نہیں ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
لا رمبلا، بارسلونا
ابھی کچھ ہی ہفتوں کی بات ہے کہ ہسپانوی شہر بارسلونا کے مقام لا رمبلا کی تصویر میں بہت سے سیاح نظر آیا کرتے تھے لیکن اب یہ جگہ ویران ہے۔ صرف تھوڑے سے کبوتر مہمانوں کی راہ دیکھتے پھرتے ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا نے لوگوں کو گھروں میں رہنے پر مجبور کر رکھا ہے لیکن یہی وقت کا تقاضا بھی ہے۔ وائرس کی وبا سے اسپین میں پندرہزارسے زائد لوگ دم توڑ چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/X. Bonilla
شانزے لیزے، پیرس
فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں شانزے لیزے معروف کاروباری شاہراہ ہے۔ یہ پیرس کی شہ رگ تصور کی جاتی ہے۔ اب اس سڑک پر صرف چند موٹر گاڑیاں ہیں اور آرچ دے ٹری اُمف یا فتح کی محراب ویران دکھائی دیتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/Tang Ji
ٹاور برج، لندن
لندن شہر سے گزرتے دریائے ٹیمز پر واقع مشہور پُل معمول کے مقابلے میں بہت پرسکون ہے۔ سیاح موجود نہیں اور دریا میں سے کشتیاں بھی غائب ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا سے پُل کے دونوں اطراف لوگ دکھائی نہیں دہتے۔ لوگ احتیاطً گھروں سے باہر نہیں نکل رہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
حاجیہ صوفیہ، استنبول
ترک شہر استنبول کا اہم ترین سیاحتی مرکز حاجیہ صوفیہ اور اس کے سامنے کا کھلا دالان۔ یہ ہمیشہ سیاحوں اور راہ گیروں سے بھرا ہوتا تھا۔ وائرس کی ایسی وبا پھیلی ہے کہ نہ سیاح ہیں اور نہ ہی مقامی باشندے۔ لوگوں کی عدم موجودگی نے منظر بدل دیا ہے۔ ارد گرد کی سبھی عمارتیں اب صاف نظر آتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/Xu Suhui
تورسکایا اسٹریٹ، ماسکو
روسی دارالحکومت ماسکو کی کھلی شاہراہ تورسکایا فوجی پریڈ کے لیے بھی استعمال کی جاتی رہی ہے۔ وائرس کی وبا کے ایام میں اب سن 2020 کے موسم بہار کے شروع ہونے پر اس شاہراہ پر جراثیم کش اسپرے کرنے والے گھومتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Sputnik/G. Sysoev
اہرامِ فراعین، الجیزہ قاہرہ
فراعینِ مصر کے مقبرے بھی کورونا وائرس کی وجہ سے سیاحوں کے بغیر ہیں۔ ان کو اب صرف جراثیم کش اسپرے والے باقاعدگی سے دیکھنے جاتے ہیں۔ اہرام مصر یقینی طور پر تاریخ کے ایک مختلف بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ مصر کو بھی کووڈ انیس کی مہلک وبا کا سامنا ہے۔ اس ملک میں وائرس کی وبا سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک سو سے بڑھ چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Hamdy
خانہ کعبہ، مکہ
سعودی عرب میں واقع مسلمانوں کا سب سے مقدس ترین مقام خانہ کعبہ بھی زائرین کے بغیر ہے۔ ہر سال لاکھوں افراد اس مقام کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔ یہ مقدس مقام بھی دو اپریل سے کرفیو میں ہے۔ اس میں ہر وقت ہزاروں عبادت گزار موجود ہوا کرتے تھے۔ وائرس سے بچاؤ کے محفوظ لباس پہنے افراد اس مقام اور جامع مسجد میں جراثیم کش اسپرے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/A. Nabil
تاج محل، آگرہ
تاریخی اور ثقافتی مقامات میں تاج محل کو منفرد حیثیت حاصل ہے۔ محبت کی یہ یادگار اب دیکھنے والوں کی منتظر ہے۔ کووڈ انیس کی وبا کے پھیلنے کے بعد بھارت کو لاک ڈاؤن کا سامنا ہے۔ تاج محل کو فوجیوں نے اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے تا کہ شائقین اس میں داخل ہونے کی کوشش نہ کریں۔ اس مقام کا یہ سب کے لیے پیغام ہے کہ گھر میں رہنے میں بہتری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA
ٹائم اسکوائر، نیو یارک سٹی
نیو یارک سٹی کا مرکزی مقام کہلانے والا ٹائم اسکوائر کورونا وائرس کی وبا سے پوری طرح اُجاڑ دکھائی دیتا ہے۔ دوکانیں بند اور شاپنگ مالز خریداروں کو ترس رہے ہیں۔ سڑکیں ویران اور فٹ پاتھ راہگیروں کے بغیر ہیں۔ ہر وقت جاگنے والا شہر اس وقت سویا ہوا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Sputnik/T. Stolyarova
بوربن اسٹریٹ، نیو اورلیئنز
سیاحوں سے رات گئے تک بھری رہنے والی بوربن اسٹریٹ کو بھی وائرس کی نظر لگ چکی ہے۔ امریکا ریاست لُوئزیانا کا ’بِگ ایزی‘ کہلانے والے اس شہر کی نائٹ لائف بہت مقبول تھی لیکن اب کورونا وائرس کی وبا نے رات بھر جاری رہنے والی سرگرمیوں کو پوری طرح منجمد کر رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/G. Herbert
برازیل: کوپا کابانا، ریو ڈی جنیرو
برازیلی بندرگاہی اور سیاحتی شہر ریو ڈی جنیرو میں بھی کووڈ انیس کی بیماری نے ہُو کا عالم طاری کر رکھا ہے۔ ایسا لگتا ہے کے شہر پر کسی بھوت نے قبضہ کر لیا ہے۔ اس کا ساحلی علاقہ کوپا کابانا کبھی قہقہوں اور کھیلتی زندگی سے عبارت تھا اب وہاں صرف بحر اوقیانوس کی موجیں ساحل سے ٹکراتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AA/F. Teixeira
اوپرا ہاؤس، سڈنی
آسٹریلوی شہر سڈنی کا اوپرا ہاؤس دنیا میں اپنے منفرد طرز تعمیر کی وجہ سے مقبول ہے۔ اس اوپرا ہاؤس کا یہ سب کے لیے پیغام ہے کہ اپنے اپنے گھروں میں مقیم رہیں۔ اوپرا ہاؤس کے دروازے تاحکم ثانی بند کر دیے گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Aap/B. De Marchi
عظیم دیوارِ چین
کورونا وائرس کی بیماری نے چین میں جنم لیا تھا۔ وبا کے شدید ترین دور میں سارے چین میں لاک ڈاؤن تھا۔ رواں برس مارچ کے اختتام پر عجوبہٴ روزگار تاریخی دیوارِ چین کو ملکی سیاحوں کے لیے کھولا گیا۔ یہ تصویر دیوار کو کھولنے کے بعد کی ہے جو ساری دنیا کے لیے امید کا پیغام ہے کہ اچھے دن قریب ہیں۔