1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
صحتجرمنی

نیا کورونا وائرس متعدد ممالک میں پھیل چکا ہے

22 دسمبر 2020

انتہائی تیزی سے پھیلنے والا نیا کورونا وائرس صرف برطانیہ ہی نہیں بلکہ متعدد یورپی ممالک اور آسٹریلیا تک پہنچ چکا ہے۔ جنوبی افریقی حکام نے بھی ملک میں کورونا وائرس کی نئی قسم کی موجودگی کی تصدیق کر دی ہے۔

UK Corona Pandemie | Kent
تصویر: Grant Falvey/ZUMAPRESS/picture alliance

مہلک کووڈ انیس کی ایک نئی قسم برطانیہ کے جنوب میں تیزی سے پھیل رہی ہے اور اس نے پورے براعظم یورپ میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ اس نئے وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے متعدد یورپی ممالک نے برطانیہ کے خلاف سفری پابندیاں عائد کر دی ہیں۔

گزشتہ ویک اینڈ پر برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ کووڈ انیس وائرس کی یہ نئی قسم موجودہ وائرس سے ستر فیصد زیادہ تیزی سے پھیلنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ لندن اور جنوبی انگلینڈ میں متاثرہ افراد کی تعداد میں حیران کن اضافہ ہوا ہے۔

تاہم برطانوی حکام کا زور دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ان کے پاس ایسے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں، جن سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ یہ نیا وائرس موجودہ وائرس سے زیادہ خطرناک ہے یا اس کے خلاف ویکیسن کم موثر ثابت ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں کووڈ انیس کی یہ نئی قسم موجودہ کورونا وائرس جتنی ہی خطرناک ہے لیکن اس کا پھیلاؤ بہت تیز ہے۔

بیماریوں سے بچاؤ اور کنٹرول کے یورپی مرکز (ای سی ڈی سی) نے پیر کے روز کہا ہے کہ کووڈ انیس کے نئے وائرس کا پھیلاؤ روکنے کے لیے 'فوری اقدامات‘ ضروری ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس بات کی بھی تصدیق کی گئی ہے کہ نیا وائرس متعدد یورپی ممالک تک پہنچ بھی چکا ہے۔

تصویر: Kirsty Wigglesworth/AP/picture alliance

جرمنی میں ٹیوبنگن یونیورسٹی ہسپتال کے ڈائریکٹر پیٹر کریمزنر کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ برطانیہ پر سفری پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ غیر ضروری ہے، ''میرے خیال سے سرحدیں بند کرنے کا فیصلہ درست نہیں ہے، خاص طور پر یورپی یونین میں۔ ہمیں مل کر اس وباء کا مقابلہ کرنا چاہیے اور عالمی سطح پر ہم اسی طرح کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔‘‘

یورپی ممالک میں نیا وائرس

بیماریوں سے بچاؤ اور کنٹرول کے یورپی مرکز کے مطابق کووڈ انیس وائرس کی نئی قسم آئس لینڈ، ڈنمارک اور ہالینڈ میں بھی ملی ہے۔ اس ادارے نے ان میڈیا رپورٹوں کی بھی تصدیق کی ہے، جن کے مطابق نئے وائرس کی بیلجیم اور اٹلی میں بھی موجودگی کے شواہد ملے ہیں۔

برطانوی ڈاکٹر جان کیمبل نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ہے کہ نئے وائرس سے متعلق خبریں چند روز قبل میڈیا پر آئی ہیں لیکن برطانیہ میں اس کی پہلی مرتبہ شناخت ستمبر کے اواخر میں ہوئی تھی، ''کیوں کہ یہ وائرس ستمبر میں سامنے آیا تھا تو اب تک ممکنہ طور پر یہ کئی یورپی ممالک تک پھیل چکا ہو گا۔ پھیلاؤ کے حوالے سے یہ زیادہ خطرناک ہے اور اس کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ جن علاقوں میں یہ پایا گیا ہے، وہاں مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔‘‘

آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ میں بھی

آسٹریلیا نے بھی پیر کے روز تصدیق کی ہے کہ برطانیہ میں دریافت ہونے والا نیا وائرس ان کے ملک میں پایا گیا ہے۔ آسٹریلوی حکام کے مطابق یہ وائرس دو برطانوی مسافروں کے ذریعے ان کے ملک پہنچا ہے۔ ان دونوں مسافروں کو فی الحال ایک ہوٹل میں قرنطینہ میں رکھا گیا ہے۔

گزشتہ ویک اینڈ پر  جنوبی افریقی حکام نے بھی برطانوی مسافروں پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس ملک کے وزیر صحت سویلنی مخیز کا کہا تھا کہ ملک میں کورونا وائرس کی دوسری لہر کے پیچھے برطانیہ میں دریافت ہونے والی کورونا وائرس کی نئی قسم 501.V2 کارفرما ہے۔ ڈاکٹروں کے مطابق دوسری لہر نے بڑی تعداد میں نوجوانوں کو متاثر کیا ہے۔ متاثرہ نوجوانوں کو بھی سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔

ا ا / ع ح (روئٹرز، اے پی، ڈی پی اے)   

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں