نیا گلوبل جینڈر گیپ انڈکس: افغانستان اور پاکستان سب سے نیچے
13 جولائی 2022
عالمی اقتصادی فورم کی جاری کردہ نئی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں صنفی مساوات کے حوالے سے پائی جانے والی خیلج کے تازہ عالمی انڈکس میں مسلم اکثریتی ممالک پاکستان اور افغانستان کی حالت سب سے بری ہے اور وہ سب سے نیچے ہیں۔
اشتہار
ورلڈ اکنامک فورم کے 13 جولائی بدھ کے روز جاری کردہ گلوبل جینڈر گیپ انڈکس 2022 میں ان امور کی بنیاد پر مختلف ممالک کی درجہ بندی کی گئی ہے کہ خاص طور پر پدر شاہی معاشروں سمیت دنیا بھر میں خواتین کو دستیاب سماجی اور اقتصادی مواقع کیسے اور کتنے ہیں۔
سب سے نیچے افغانستان اور پاکستان
افغانستان کا، جہاں گزشتہ تقریباﹰ ایک سال سے قدامت پسند طالبان کی حکومت ہے، اس انڈکس میں نمبر 146 واں ہے۔ اس انڈکس مںن ماہرین نے خواتین سے متعلق جن امور کو کلیدی اہمیت کا حامل تصور کر کے درجہ بندی کی، ان میں اقتصادی معاملات میں شمولیت، حصول تعلیم، صحت کی سہولیات تک رسائی اور خواتین کی سیاسی بقا جیسے امور شامل تھے۔
افغانستان کے ہمسایہ جنوبی ایشیائی ملک پاکستان میں بھی، جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں سب سے بڑا ملک ہے، صنفی خلیج کے حوالے سے صورت حال افغانستان سے بہت معمولی سی ہی مختلف ہے۔ وہ اس طرح کہ نئے عالمی انڈکس میں افغانستان کا نمبر اگر 146 واں ہے تو پاکستان اسی درجہ بندی میں 145 ویں نمبر پر ہے۔
پاکستان: پدر شاہی معیارات کے خلاف سرگرم ایک قبائلی خاتون
پاکستان کے شمال مغربی سابق قبائلی علاقوں کی خواتین کو آج بھی سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہیں ہے، مگر دنیا بی بی نے مقامی کونسل کی نشست پر کامیابی کے لیے بہت سے چیلنجز کا سامنا کیا۔
تصویر: Saba Rahman/DW
روایات کے خلاف جدوجہد
58 سالہ دنیا بی بی نے باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں کی مگر وہ ملک میں سیاسی پیشرفت سے باخبر رہتی ہیں۔ ان کے شوہر انہیں ہر صبح اخبارات سے اہم خبریں پڑھ کر سناتے ہیں۔ دنیا بی بی نے مہمند ایجسنی کی تحصیل یکاواند میں حالیہ مقامی انتخابات میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ کے امیدواروں کو شکست دی ہے۔
تصویر: Saba Rahman/DW
مردانہ غلبے والا علاقہ
دنیا بی بی ایک ایسے علاقے میں سیاست کر رہی ہیں جہاں خواتین کو ایک مرد ساتھی کی ہمراہی کے علاوہ گھر سے نکلنے کی بھی اجازت نہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کی کامیابی اہم ہے کیونکہ اس علاقے کی خواتین کو ایک ایسی خاتون نمائندے کی ضرورت ہے جو ان کے مسائل کو حل کرنے میں کردار ادا کر سکے۔ وہ کہتی ہیں، ’’میں نے اپنے علاقے میں کووڈ سے متعلق آگاہی پھیلانے کی کوشش کی ہے۔‘‘
تصویر: Saba Rahman/DW
لڑکیوں کی تعلیم، ترقی کے لیے اہم
دوپہر کے وقت بی بی اپنے پوتے پوتیوں کے ساتھ چائے پیتی ہیں اور ان کی تعلیم کے بارے میں بات چیت کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ قبائلی علاقوں میں ترقی کے لیے تعلیم انتہائی اہم ہے: ’’ ہمارے علاقے میں لڑکیوں کو اسکول جانے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘ دنیا بی بی کے مطابق یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے گھروں میں فیصلے نہیں کر سکتیں اور نہ ہی معاشرے میں ان کی کوئی آواز سنتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ یہ صورتحال تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔
تصویر: Saba Rahman/DW
شوہر کی حمایت اور حوصلہ افزائی
پدری ماحول کے حامل ان علاقوں میں کسی خاتون کے لیے مرد کی مدد اور حمایت آج بھی اہم ہے۔ دنیا بی بی کے شوہر عبدالغفور ان کی سیاسی سرگرمیوں کی دل سے حمایت اور مدد کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’اس علاقے میں مرد خواتین کے مسائل کے بارے میں زیادہ جانتے ہی نہیں... میں نے اپنی بیوی کی ہمت افزائی کی کہ وہ انتخابات میں حصہ لیں تاکہ دیگر خواتین بھی آگے بڑھیں اور اپنا کردار ادا کریں۔‘‘
تصویر: Saba Rahman/DW
ماں پر فخر محسوس کرنے والا بیٹا
دنیا بی بی کے بیٹے علی مراد نیشنل کالج آف آرٹس سے گریجویٹ ہیں اور وہ اپنی والدہ کی خدمات پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ قبائلی خواتین کا گھر سے باہر کوئی کردار نہیں ہے۔ میری والدہ نے اس خیال کو تبدیل کیا ہے۔‘‘
تصویر: Saba Rahman/DW
عوامی اور گھریلو کردار میں توازن
عوامی سطح پر اپنے کردار اور خدمات کے ساتھ ساتھ دنیا بی بی گھریلو کام کاج بھی کرتی ہیں، مثال کے طور پر کھانے پکانے کے لیے لکڑیاں وغیرہ چننا، کپڑے دھونا، گھر والوں کے لیے کھانا یا چائے بنانا یا گھر کی صفائی وغیرہ۔ وہ کہتی ہیں کہ یہ تمام چیزیں انہیں صحت مند اور چاک وچوبند رکھتی ہیں۔
تصویر: Saba Rahman/DW
طالبان کے لیے پیغام
دنیا بی بی کہتی ہیں کہ ہمسایہ ملک افغانستان میں افراتفری کے دور میں ان کا علاقہ بھی مذہبی شدت پسندی سے شدید متاثر ہوا۔ وہ کہتی ہیں کہ طالبان کو چاہیے کہ وہ خواتین کو خودمختاری کے مواقع فرہم کریں اور لڑکیوں کو تعلیم تک رسائی دیں۔ بی بی کے مطابق، ’’اگر وہ ایسا کرتے ہیں تو اس سے نہ صرف افغانستان میں استحکام اور کامیابی ہو گی بلکہ پاکستانی قبائلی علاقوں میں بھی ایسا ہی ہو گا۔‘‘
نئے عالمی انڈکس میں جو پانچ ممالک سب سے نیچے ہیں، ان میں پاکستان اور افغانستان کے علاوہ ایران بھی شامل ہے۔ ان پانچ ممالک میں سے باقی دو افریقہ کی دو مسلسل بحرانوں اور تنازعات کی شکار ریاستیں ہیں، جو ڈیموکریٹک ریپبلک کانگو اور چاڈ ہیں۔
سب سے اوپر کون سے ممالک
ورلڈ اکنامک فورم کے اس نئے گلوبل انڈکس میں جو ممالک اپنے ہاں خواتین کو مردوں کے برابر حقوق اور مواقع کی دستیابی اور کم سے کم صنفی خلیج کے باعث سب سے اوپر ہیں، وہ بالترتیب آئس لینڈ، فن لینڈ، ناروے، نیوزی لینڈ اور سویڈن ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق 2020ء سے شروع ہونے والی کورونا وائرس کی عالمی وبا اور اس کے نتیجے میں اقتصادی کساد بازاری کے شدید خطرات کے باعث ماضی کے مقابلے میں اب صنفی خلیج میں واضح اضافہ ہوا ہے۔
م م / ک م (ڈی پی اے)
انتہا پسندی نے قبائلی خواتین کو کیسے متاثر کیا؟
افغان سرحد سے متصل پاکستانی ضلع مہمند کی رہائشی پچپن سالہ خاتون بصوالیحہ جنگجوؤں کی پرتشدد کارروائیوں کی وجہ سے اپنے شوہر اور بیٹے کو کھو چکی ہیں۔ اب خطرہ ہے کہ طالبان ایک مرتبہ پھر اس علاقے میں قدم جما سکتے ہیں۔
تصویر: Saba Rehman/DW
سخت اور کٹھن زندگی
پاکستانی قبائلی علاقوں کی خواتین کے لیے زندگی مشکل ہی ہوتی ہے۔ ضلع مہمند کے گاؤں غلنی کی باسی پچپن سالہ بصوالیحہ کی زندگی اس وقت مزید اجیرن ہو گئی، جب سن 2009 میں اس کا بیٹا اور ایک برس بعد اس کا شوہر جنگجوؤں کے حملے میں ہلاک ہو گئے۔ سن2001 میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد پاکستان کا یہ علاقہ بھی طالبان کی کارروائیوں کی وجہ سے شدید متاثر ہوا تھا۔
تصویر: Saba Rehman/DW
ہر طرف سے حملے
بصوالیحہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس کا تئیس سالہ بیٹا مقامی امن کمیٹی کے ایما پر ہلاک کیا گیا۔ طالبان مخالف مقامی جنگجو گروپ کو شک ہو گیا تھا کہ وہ طالبان کو تعاون فراہم کر رہا تھا۔ پاکستانی فوج کے عسکری آپریشن کے بعد اس علاقے میں قیام امن کی امید ہوئی تھی لیکن اب افغانستان میں سکیورٹی کی بگڑتی صورتحال کے باعث اس سرحدی علاقے میں طالبان کی واپسی کا خطرہ ہے۔
تصویر: dapd
پرتشدد دور
بصوالیحہ کا شوہر عبدالغفران چھ دسمبر سن2010 کو ایک سرکاری عمارت میں ہوئے دوہرے خود کش حملے میں مارا گیا تھا۔ وہ وہاں اپنے بیٹے کی ہلاکت کے لیے سرکاری طور پر ملنے والی امدادی رقم لینے کی خاطر گیا تھا۔ بصوالیحہ کا کہنا ہے کہ ان علاقوں میں کسی محرم مرد کی عدم موجودگی عورت کی زندگی انتہائی مشکل بنا دیتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Majeed
امید نہیں ٹوٹی
اب بصوالیحہ انتہائی مشکل سے اپنا گزارہ کرتی ہیں۔ ان کے گاؤں میں بنیادی سہولیات بھی دستیاب نہیں۔ وہاں گیس، بجلی اور انٹرنیٹ کی فراہمی میں بھی مسائل ہیں۔ تاہم بصوالیحہ اب تک پرعزم ہیں۔ انہوں نے سرکاری امداد لینا بھی چھوڑ دی تھی، جو دس ہزار روپے ماہانا بنتی تھی۔ تاہم سن 2014 میں حکومت نے یہ امدادی سلسلہ بھی روک دیا تھا۔
تصویر: Saba Rehman/DW
سلائی کڑھائی سے آمدنی
بصوالیحہ چاہتی ہیں کہ ان کے بچیاں اچھی تعلیم حاصل کریں۔ ڈی ڈؓبلیو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ خود کو بے کار تصور کرنے لگیں۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اس معاشرے میں اپنی بقا کھو دیں گی۔ اگرچہ وہ سلائی کڑھائی کا کام جانتی ہیں لیکن خاتون ہونے کی وجہ سے وہ مہمند ایجنسی کی کسی بھی دکان پر بغیر مرد کے نہیں جا سکتیں۔
تصویر: Saba Rehman/DW
محرم مرد کے بغیر کچھ نہیں
بصوالیحہ کے بقول شوہر کی موت کے بعد وہ تندور چلانے لگیں جہاں ان کی چھوٹی بیٹیاں روٹیاں فروخت کرتی تھیں لیکن اب وہ بالغ ہو چکی ہیں اور اس علاقے میں لڑکیاں اس طرح آزادانہ یہ کام نہیں کر سکتیں۔ اس لیے انہوں نے اب یہ کام چھوڑ کر سلائی کڑھائی کا کام شروع کیا۔ محرم مرد کی عدم موجودگی کے باعث وہ بازار میں یہ مصنوعات فروخت نہیں کر سکتیں، اس لیے وہ انہیں مقامی مردوں کو کم داموں پر فروخت کرتی ہیں۔
تصویر: Saba Rehman/DW
مزید تشدد کا خطرہ؟
پاکستان کے شمالی اور شمال مغربی علاقوں میں ہزاروں گھرانے ایسے ہیں، جو اسی قسم کے تشدد کا نشانہ بنے ہیں۔ بصوالیحہ کے برادر نسبتی عبدالرزاق کے بقول انہیں اب تک یاد ہے، جب ان کے بھائی حملوں میں مارے گئے تھے۔ وہ دعا گو ہیں کہ مستقبل میں ایسا دور دوبارہ دیکھنے کو نہ ملے، جب طالبان کا تشدد عروج پر تھا۔ تاہم ان کے بقول اس بات کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔