نیا گلوبل کلائمیٹ انڈکس: مسلسل متاثرہ ممالک میں پاکستان بھی
25 جنوری 2021
شدید نوعیت کے موسمی حالات سے جڑی قدرتی آفات کے باعث گزشتہ دو عشروں کے دوران قریب نصف ملین انسان مارے گئے۔ یہ بات ایک نئی عالمی رپورٹ میں کہی گئی ہے جس میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے انسانیت پر منفی اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
اشتہار
اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ کئی طرح کی قدرتی آفات کی وجہ بننے والے انتہائی نوعیت کے موسمی حالات زمین پر انسانی آبادی کو براہ راست متاثر کرتے ہیں۔ تاہم اس بارے میں نئے اعداد و شمار بہت حیران کن بھی ہیں اور پریشان کن بھی۔
اس دستاویز کے مطابق ماحولیاتی تبدیلیوں سے جڑی قدرتی آفات، مثلاﹰ طوفانوں، شدید گرمی کی لہروں اور سیلابوں سے سب سے زیادہ ترقی پذیر ممالک متاثر ہو رہے ہیں۔ ایسی آفات کے باعث گزشتہ دو دہائیوں کے دوران تقریباﹰ چار لاکھ اسی ہزار انسان ہلاک ہو چکے ہیں۔
ڈھائی ہزار بلین ڈالر سے زائد کے نقصانات
عالمی سطح پر تحفظ ماحول کے لیے کیے گئے فیصلوں پر عمل درآمد سے متعلق ایک ماحولیاتی سمٹ اسی مہینے منعقد کی گئی۔ نیدرلینڈز کی میزبانی میں اس کانفرنس کا انعقاد کورونا وائرس کی عالمی وبا کے پیش نظر آن لائن کیا گیا۔
اس کانفرنس میں جرمنی کے ایک تھنک ٹینک 'جرمن واچ‘ کی طرف سے بڑے محتاط جائزے کے بعد تیار کردہ جو ڈیٹا پیش کیا گیا، اس کے مطابق گزشتہ 20 برسوں کے دوران ایسی قدرتی آفات کے نتیجے میں صرف تقریباﹰ نصف ملین انسان ہی ہلاک نہیں ہوئے بلکہ ان قدرتی آفات کے باعث عالمی معیشت کو رواں صدی کے دوران اب تک 2.56 ٹریلین ڈالر کا نقصان بھی ہو چکا ہے۔ یہ رقم 2560 بلین ڈالرکے برابر بنتی ہے۔
اشتہار
گیارہ ہزار سے زائد قدرتی آفات
جرمن واچ کے تجزیے کے مطابق 2000ء سے لے کر اب تک دنیا میں 11 ہزار سے زائد ایسی قدرتی آفات اور تباہ کن واقعات پیش آ چکے ہیں، جن کا سبب انتہائی نوعیت کے موسمیاتی حالات بنے۔
زمین پر انسانی آبادی کے لیے براہ راست بڑا خطرہ بنی رہنے والی ان قدرتی آفات سے متعلق یہ بات بھی تشویش ناک ہے کہ اس عرصے کے دوران پورٹو ریکو، میانمار اور ہیٹی ایسے ممالک تھے، جنہیں ان آفات نے انتہائی حد تک اور بار بار متاثر کیا۔
ماحولیاتی تبدیلیوں کے سات اثرات، جو آپ سوچ بھی نہیں سکتے!
دنیا بھر میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے حیران کن اثرات مرتب ہو رہے ہیں، مثلاﹰ کسی جانور کے بچے کی جنس کا بدل جانا بھی۔ اس مناسبت سے دیکھیے، ماحولیاتی تبدیلیوں کے سات ایسے اثرات جنہیں آپ نے شاید کبھی سوچا بھی نہیں ہو گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہوشیار! جیلی فش غیر معمولی حد تک زیادہ
ماحولیاتی تبدیلیوں کا ایک عجیب سا اثر یہ ہوا ہے کہ بحیرہ روم کی ساحلی پٹیاں جیلی فش کے گڑھ بنتی جا رہی ہیں۔ اس لیے ساحلی سیاحت کرنے والے چوکنا رہیں۔ کافی حد تک جیلی فش کی اس غیر معمولی افزائش کا سبب ماحولیاتی تبدیلیاں ہو سکتی ہیں۔ بڑھتا ہوا سمندری درجہ حرارت جیلی فش کی افزائش میں معاون ہوتا ہے اور دوسری وجہ اس کی پسندیدہ خوراک یعنی پلانکٹن میں اضافہ ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
قیمتی لکڑی کمیاب ہوتی ہوئی
اگر آپ کے پاس اطالوی شہر کریمونا کا وائلن یا کوئی دوسرا تاروں والا ساز ہے، تواُسے بیچ کر لاکھوں ڈالر کما سکتے ہیں۔ اس کی وجہ وائلن یا ایسے سازوں کے لیے صنوبر کی لکڑی کا کمیاب ہوتا جانا ہے۔ اِس کمیابی کی وجہ سمندری طوفانوں کی بہتات ہے۔ متاثرہ اطالوی جنگل پینی ویگیو کے صنوبر کے درخت اب دوسرے مقامات پر لگائے جا رہے ہیں۔ لیکن وائلن بنانے کے لیے تو ڈیڑھ سو سال پرانے صنوبر کی لکڑی درکار ہوتی ہے۔
تصویر: Angelo van Schaik
نیند کو بھول جائیں
بڑے شہروں کی گرم راتوں میں عام لوگوں کی نیندیں کم ہونے لگی ہیں۔ سن 2050 تک بڑے یورپی شہروں کے درجہٴ حرارت میں ساڑھے تین ڈگری سینٹی گریڈ تک اضافہ ہو جانے کا امکان ہے۔ گرم موسم سے نیند کم اور مزاج خراب ہونے کا قوی امکان ہوتا ہے۔ تخلیقی سرگرمیاں متاثر اور ذہنی صحت بھی کمزور ہو سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R.K. Singh
ناک کی فکر کریں
گرم ہوتے موسموں نے پولن الرجی کے پھیلاؤ میں بھی اضافہ کردیا ہے۔ جنگلوں اور شہروں میں درختوں کی افزائش کے موسم طوالت اختیار کر گئے ہیں اور اسی باعث پودوں اور درختوں کے زرِگُل (پولن) کا پھیلاؤ بھی بڑھ گیا ہے۔ بہار کے موسم میں بہت سے لوگ پولن الرجی کا شکار ہو کر بار بار چھینکتے دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/K.-J. Hildenbrand
بیکٹیریا اور مچھر
گرم ہوتے موسموں میں پسینہ بھی زیادہ آتا ہے۔ بہت زیادہ پسینہ بھی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ رواں صدی کے آخر تک دنیا کی تین چوتھائی آبادی شدید گرمی کا سامنا کرنے پر مجبور ہو سکتی ہے۔ بڑھتے ہوئے درجہٴ حرارت سے قے اور دست کے امراض میں اضافہ ممکن ہے۔ بیکٹیریا کی افزائش بھی گرم موسم میں بڑھ جاتی ہے اور اسی طرح مچھروں سے پھیلنے والی بیماریوں (ملیریا وغیرہ) میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/T. Schulze
مکانات گر رہے ہیں
قطب شمالی میں درجہٴ حرارت بڑھنے سے برف پگھل رہی ہے۔ اس کے وسیع تر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ گرم موسموں سے مکانات کے کمزور پڑ جانے اور سڑکوں میں دراڑیں پڑنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس باعث کئی طرح کے کیڑے زمین سے نکلنا شروع ہو سکتے ہیں۔ برف پگھلنے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور میتھین گیسیں نکلتی ہیں، جو موسم میں مزید حدت کی وجہ بن سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Antonov
نر یا مادہ! موسمیاتی تبدیلیاں کیا کہتی ہیں
موسمی درجہٴ حرارت کئی اقسام کی جنگلی حیات کی جنس پر بھی اثرانداز ہو سکتا ہے۔ مثلاﹰ سمندری کچھوے کے انڈوں کے لیے ساحلی ریت کی عمومی حدت ہی پیدا ہونے والے جانور کی جنس کا تعین کرتی ہے۔ کم درجہ حرارت کے نتیجے میں زیادہ تر نر کچھوے پیدا ہوتے ہیں اور زیادہ گرمی کے باعث مادہ۔ اس وقت شمالی آسٹریلیا میں ننانوے فیصد کچھوے مادہ پیدا ہوتے ہیں۔ اسی لیے اب ان کی نسل کے معدوم ہو جانے کا خدشہ بھی بڑھ گیا ہے۔
امیر ریاستوں کی غریب ممالک کے لیے وعدہ کردہ امداد کہاں ہے؟
2015ء میں پیرس میں طے پانے والے ماحولیاتی معاہدے کے تحت دنیا کے امیر ممالک کو غریب اور ترقی پذیر ریاستوں کو سالانہ 100 بلین ڈالر مہیا کرنا تھے، تاکہ وہ اپنے ہاں درجہ حرارت میں اضافے کو روک سکیں اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات کی روک تھام کر سکیں۔
مگر ماہرین کی طرف سے کی گئی تحقیق سے ثابت یہ ہوا ہے کہ ترقی پذیر ممالک کو اس مد میں جو رقوم مہیا کی جا رہی ہیں، ان کا حجم وعدہ کردہ مجموعی رقوم کی مالیت کا انتہائی چھوٹا سا حصہ بنتا ہے۔
خشک اور دم توڑتے ہوئے درخت، آخری سانسیں لیتے ہوئے لاغر جانور اور بھیڑیں، یہ سب نیو ساؤتھ ویلز میں آنے والی تباہی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ آسٹریلیا میں اس خشک سالی کی یہ تصاویر دل دہلا دینے والی ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Gray
تباہی
ٹکڑے ٹکڑے ہوتا ہوا یہ پرانا درخت آسٹریلوی ریاست نیو ساؤتھ ویلز کے علاقے ٹیم ورتھ کی سنگین صورتحال کو عیاں کر رہا ہے۔ سردی کے باوجود نیو ساؤتھ ویلز ریاست سو فیصد قحط سالی کا شکار ہو چکی ہے۔ شمالی ریاست کوئینزلینڈ میں بھی خشک سالی پھیلتی جا رہی ہے۔ ابھی یہ خشک سالی کئی ماہ تک جاری رہے گی۔
تصویر: Reuters/D. Gray
کیا یہ مریخ ہے؟
اس سرخ زمین پر جو نظر آ رہا ہے، وہ ایک کینگرو کا سایہ ہے، جو ایک واٹر ٹینک سے پانی پینے کی کوشش میں ہے۔ یہ فارم ہاؤس نیو ساؤتھ ویلز کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ جون کے آغاز سے مسلسل قحط سالی نے یہاں بہت کچھ تباہ کر دیا ہے۔ فارم ہاؤس کے مالک ایش وٹنی کہتے ہیں، ’’میری ساری زندگی یہاں گزری ہے لیکن میں نے پہلے ایسا کبھی نہیں دیکھا تھا۔‘‘
تصویر: Reuters/D. Gray
بقا کی جنگ
بھیڑیں آسٹریلوی زرعی شعبے میں ریڑھ کی ہڈی تصور کی جاتی ہیں۔ ان کی اون اور گوشت کو بین الاقوامی منڈیوں میں فروخت کیا جاتا ہے۔ اب چارہ نہ ہونے کے باعث کسان اپنی بھیڑوں کو خود ہی گولی مار کر ہلاک کر دیتے ہیں تاکہ کم از کم گوشت ہی حاصل کر لیا جائے۔ حکومتی ریلیف پیکج بھی کسانوں کو ہونے والے مالی نقصانات کی تلافی نہیں کر سکتا۔
تصویر: Getty Images/B. Mitchell
موسمیاتی تبدیلیاں
کبھی یہاں سرسبز فصلیں لہراتی تھیں لیکن اب صورتحال اس کے بالکل برعکس ہے۔ اس علاقے کے کسان گریگ اسٹونز یہاں اناج کے ساتھ ساتھ جانور پالتے تھے۔ ان کا کہنا ہے، ’’انیس سو تیس کے بعد پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ہم موسم سرما اور خزاں میں یہاں کوئی فصل نہیں اگا سکے۔‘‘
تصویر: Reuters/D. Gray
ریگستان؟
گریگ اسٹونز کہتے ہیں، ’’زمین انتہائی خشک ہو چکی ہے۔ ہم نے اپنے جانوروں کو دوسرے علاقے میں منتقل کر دیا ہے تاکہ انہیں کچھ کھانے کو مل سکے۔‘‘ اس خشک سالی سے بچاؤ کے لیے کسانوں نے پانی ایسے بڑے بڑے ٹینکوں میں جمع کیا تھا لیکن اب یہ ذخیرہ بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔
تصویر: Reuters/D. Gray
اناج ٹرین
بھیڑوں کو زندہ رکھنے کے لیے اس طرح ایک لمبی لائن میں اناج مہیا کیا جا رہا ہے۔ کبھی اس علاقے میں زمین انتہائی شاداب تھی۔ لیکن اب بھیڑوں کو خوراک مہیا کرنے پر اخراجات بڑھتے جا رہے ہیں۔ آسٹریلوی وزیر اعظم نے کسانوں کے لیے امدادی پیکج کا اعلان کرتے ہوئے کہا، ’’ایسی وسیع تر قحط سالی ہم نے گزشتہ نصف صدی میں کبھی نہیں دیکھی تھی۔‘‘
تصویر: Reuters/D. Gray
بہت دیر ہو چکی!
کسان اب درختوں کی ٹہنیاں توڑ کر اپنے جانوروں کو کھلا رہے ہیں۔ متاثرین کو اب مدد بھی فراہم کی جا رہی ہے لیکن مقامی کسانوں کے مطابق اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ اب صرف ایک ہی امید باقی بچی ہے، اور وہ امید ہے بارش۔
تصویر: Reuters/D. Gray
بنجر زمین
براعظم آسٹریلیا میں خشک سالی جیسی تبدیلیاں قدرتی ہیں۔ یہ تصویر سن دو ہزار چودہ میں کوئینزلینڈ میں لی گئی تھی۔ اس وقت اس ریاست کا تقریباﹰ اسی فیصد حصہ خشک سالی سے متاثر ہوا تھا۔
تصویر: Getty Images/L. Maree
بدترین خشک سالی
آسٹریلوی وزیر اعظم میلکم ٹرن بل نے ملکی ریاست نیو ساؤتھ ویلز میں خشک سالی سے متعلق اپنے ایک خطاب میں کہا، ’’اب ہم خشک سالی والا ملک بن چکے ہیں۔‘‘ صرف آسٹریلیا ہی میں نہیں، دنیا بھر میں خشک سالی کئی علاقوں کو بنجر کرتی جا رہی ہے۔
تصویر: AP Photo/Peter Lorimer
9 تصاویر1 | 9
ترقی پذیر ریاستوں کو درپیش چیلنجز
جرمن واچ نامی تھنک ٹینک کے گلوبل کلائمیٹ انڈکس کی طرف سے تیار کردہ اس رپورٹ کے شریک مصنف ڈیوڈ اَیکشٹائن کہتے ہیں کہ غریب ممالک کو تو بہت بڑے چیلنجز کا سامنا ہے اور انہیں بار بار انتہائی شدید نوعیت کے موسمیاتی اور ماحولیاتی حالات و واقعات کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔
اس رپورٹ کی ایک شریک مصنفہ ویرا کیُونسیل کے مطابق، ''ان تباہ کن حالات کا سامنا کرتے ہوئے غریب اور ترقی پذیر ممالک کے حالات اس لیے بہت خراب ہیں انہیں ایسی آفات کا سامنا بھی زیادہ کرنا پڑتا ہے اور ان کی ایسے حالات کا مقابلہ کر سکنے کی اہلیت بھی پہلے ہی بہت کم ہے۔‘‘
شدید گرمی اور سورج کی تپش نے متعدد یورپی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ سائنسدانوں کے مطابق گرمی کی یہ لہر ماحولیاتی تبدیلیوں کا نتیجہ ہے۔ کئی شہروں میں تو درجہ حرارت چالیس ڈگری سینٹی گریڈ سے بھی تجاوز کر گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Akmen
دلفریب و خوبصورت
اس شدید گرمی میں بھی سیاح سورج اور ساحل سمندر کا رخ کر رہے ہیں۔ اسپین میں تعطیلات منانے والے 65 سالہ پیٹرونیو کا تعلق ایکواڈور سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ موسم خوبصورت ہے اور وہ اس صورتحال کا عمدگی کے ساتھ سامنا کر رہے ہیں۔
کئی یورپی ممالک میں درجہ حرارت چالیس ڈگری سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا، لیکن ماضی کے مقابلے میں یہ پھر بھی کم تھا۔ اس گرمی کے عالم میں لوگ گھر ہی رہتے ہیں یا ’واٹر لینڈز‘ کا رخ کرتے ہیں۔ اس تصویر میں ایک لڑکا نیورمبرگ میں ایک واٹر لینڈ میں لطف اندوز ہو رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/D. Karmann
گرم ترین موسم
موسم گرما میں جنوبی یورپی ممالک میں گرمی زیادہ پڑتی ہے۔ ہسپانوی دارالحکومت میڈرڈ میں بھی گرمی کی شدید لہر جاری ہے۔ اسی طرح اٹلی کی بھی یہی صورتحال ہے۔ وہاں پنکھوں سے بھی اس حدت کو ختم کرنے کی کوشش ناکام ثابت ہو رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/ROPI/Piaggesi/Fotogramma
تفریح کے طور پر لڑائی
بہت زیادہ تپش اور شدید گرمی بھی یورپی باشندوں کو لطف اندوز ہونے سے نہیں روک پا رہی۔ اس گرمی کو ختم کرنے کے لیے ایک دوسرے پر پانی پھینکتے ہوئے ’واٹر فائٹ‘ بھی کی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/V. Flauraud
آرام و سکون
یہ بہترین وقت ہے کہ ساحل سمندر یا دریا کا رخ کیا جائے اور آرام کیا جائے۔ اس تصویر میں پولینڈ کے دارالحکومت وارسا کے دریائے وسٹُولا Vistula کے کنارے لوگ سستا رہے ہیں اور اس گرمی کو انجوائے بھی کر رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Sokolowski
ایک امکان بیئر گارڈن بھی
جرمنی میں جب شدید گرمی پڑتی ہے تو لوگ ایسے ذرائع ڈھونڈتے ہیں جو ایسے موسم کو برداشت کرنے اور اس سے لطف اندوز ہونے میں مدد دے سکیں۔ ان امکانات میں ایک اہم ذریعہ بیئر اور بیئر گارڈن ہیں۔ جرمنی کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ایسے بیئر گارڈن قائم ہیں، جہاں بالخصوص موسم گرما میں بہت رش ہوتا ہے۔
تصویر: imago/Westend61
جانور بھی پریشان
اس شدید گرمی نے نہ صرف انسانوں کو متاثر کیا ہے بلکہ جانور بھی اس سے پریشان ہیں۔ ایسی گرمی انسانوں کی طرح جانوروں کی جان بھی لے سکتی ہے۔ جرمنی میں جانوروں کے تحفظ کی ملکی تنظیم نے خصوصی ہدایات جاری کی ہیں کہ اس گرمی میں لوگ اپنے پالتو جانوروں کا خاص طور پر خیال رکھیں۔
تصویر: Imago
فوارے پناہ گاہ کے طور پر
جرمن شہر ڈوئسبرگ میں یہ بچہ فواروں کے عین بیچ پناہ حاصل کر کے خود کو ٹھنڈا رکھنے کی کوشش میں ہے۔ بالغوں کے برعکس نومولود اور چھوٹے بچے اپنے جسم کا درجہ حرارت ایک خاص حد تک رکھنے کے لیے پسینہ خارج کرنے کی زیادہ اہلیت نہیں رکھتے، اسی لیے انہیں گرم موسم میں انتہائی زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/R. Weihrauch
سوئمنگ پول ایک نعمت
جرمن صوبے تھیورنگیا کے شہر Ilmenau میں دو بچے سوئمنگ پول میں چھلانگ لگاتے ہوئے۔ گرم موسم میں یہ سہولت ایک نعمت کے برابر ہے۔ طبی ماہرین نے عام شہریوں کو تاکید کی ہے کہ انہیں اس گرمی میں زیادہ پانی پینا چاہیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Reichel
شہروں میں موسم گرما
جرمن شہر کولون میں دریائے رائن کے کنارے کچھ لوگ اس گرم موسم سے لطف اندوز ہونے کی کوشش کرتے ہوئے سستا رہے ہیں۔ پس منظر میں کولون کا مشہور زمانہ کیتھیڈرل بھی نظر آ رہا ہے۔
تصویر: Imago
موسمیاتی تبدیلیاں
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ گرمی کی یہ لہر ماحولیاتی تبدیلیوں اور گلوبل وارمنگ کا نتیجہ ہے۔ موسمیاتی ماہرین و سائنسدان مسلسل خبردار کر رہے ہیں کہ اگر عالمی درجہ حرارت کو کم کرنے کی مؤثر کوششیں نہ کی گئیں تو یہ موسمیاتی تبدیلیاں مستقبل کی بڑی پریشانیوں کا پیش خیمہ ثابت ہوں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Degl' Innocenti
11 تصاویر1 | 11
پاکستان بھی مسلسل متاثر ہونے والے ممالک میں
ویرا کیُونسیل کہتی ہیں، ''بحیرہ کریبیین کے علاقے میں ہیٹی، مشرقی ایشیا میں فلپائن اور جنوبی ایشیا میں پاکستان کی مثال لی جائے تو ان ممالک کو کسی آفت کے اثرات سے نکلنے کی مہلت ہی نہیں ملتی۔ وہ ایک آفت سے نکلتے ہیں تو دوسری کا شکار ہو جاتے ہیں۔‘‘
اس رپورٹ کی تیاری کے بعد جرمن واچ کی طرف سے آج پیر پچیس جنوری کو جاری کردہ نئے گلوبل کلائمیٹ انڈکس کے مطابق پوری دنیا میں جو دس ممالک شدید موسمیاتی تبدیلیوں اور ان کے نتیجے میں قدرتی آفات سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں، ان میں سے آٹھ ممالک میں عام شہریوں کی اوسط فی کس سالانہ آمدنی بھی کم یا بہت ہی کم ہے۔
م م / ع ح (اے ایف پی، ڈی پی اے)
خواتین کا معیار زندگی: پاکستان بدترین ممالک میں شامل
خواتین، امن اور تحفظ سے متعلق شائع ہونے والے ایک انڈیکس کے مطابق خواتین کے معیار زندگی کے حوالے سے پاکستان کا شمار دنیا کے آٹھ بد ترین ممالک میں ہوتا ہے۔ اس انڈیکس میں صرف شام، افغانستان اور یمن پاکستان سے پیچھے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali
خواتین کی فلاح اور ان کی زندگی میں بہتری
جارج ٹاؤن انسٹیٹیوٹ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں تین مختلف زاویوں سے خواتین کی فلاح اور ان کی زندگی میں بہتری کا تعین لگایا جاتا ہے۔ ان تین زاویوں میں معاشی، سماجی اور سیاسی شمولیت، قانون تک رسائی، اپنے علاقوں، خاندان اور سماجی سطح پر تحفظ کا احساس شامل ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
خواتین معاشی طور پر خود مختار نہیں
اس رپورٹ کے مطابق پاکستان کی زیادہ تر خواتین معاشی طور پر خود مختار نہیں ہیں۔ صرف سات فیصد خواتین کے پاس اپنے ذاتی بینک اکاؤنٹ ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/A. Ali
مردوں اور خواتین میں مساوات کا تناسب کم
جارج ٹاؤن انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق 34 ممالک میں انصاف سے متعلق مردوں اور خواتین میں مساوات کا تناسب کم ہوا ہے۔ اس حوالے سے سب سے خراب کارکردگی پاکستان کی تھی۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Qayyum
خواتین کی نوکریاں
رپورٹ کے مطابق پاکستان کے 75 فیصد مردوں کی رائے میں ان کے لیے یہ ناقابل قبول ہے کہ خواتین ایسی نوکری کریں جن سے انہیں کوئی معاوضہ وصول ہو۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Naeem
تحفظ کا احساس
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سماجی لحاظ سے پاکستان میں خواتین کے تحفظ کے احساس میں کچھ حد تک بہتری آئی ہے۔ پاکستانی خواتین کا کہنا تھا کہ وہ شام کے اوقات میں اپنے محلے میں تنہا چلتے ہوئے غیر محفوظ محسوس نہیں کرتیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Qayyum
خواتین کے لیے بدترین ممالک
اس اشارعیہ میں خواتین کے حوالے سے بدترین ممالک میں پاکستان کے علاوہ لیبیا، عراق، کانگو، جنوبی سوڈان، شام، افغانستان، وسطی افریقی ریاست شامل ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Zahir
جرمنی کا نمبر اس فہرست میں سترہواں
اس رپورٹ میں دنیا کے 167 ممالک کا جائزہ لیا گیا تھا۔ خواتین کی فلاح اور ان کی معیار زندگی کے لحاظ سے ناروے دنیا کا سب سے بہترین ملک ہے۔ جرمنی کا نمبر اس فہرست میں سترہواں ہے۔