1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتیوکرین

نیا یوکرین پوٹن کے لیے ایک بھیانک خواب، تبصرہ

24 اگست 2022

یوکرین کی جنگ کو شروع ہوئے ٹھیک چھ ماہ ہو گئے ہیں۔ ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار رومن گونچارینکو کے مطابق اس اثناء میں یہ ملک ایک بالکل نئی صورت، نئے عزم اور نئے تشخص کے ساتھ اُبھرا ہے۔

Roman Goncharenko
تصویر: DW

'' میں جنگ سے پہلے اس ملک کے دورے پر کیوں نہیں آئی؟‘‘ ایک جرمن صحافی نے حال ہی میں یوکرین سے ایک ٹویٹ میں لکھا۔ وہ اپنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے اپنی اس غلطی کا اعتراف اور خود سے مایوسی کا اظہار کر رہی تھی۔ مغرب میں بہت سے باشندے یوکرین کے بارے میں ایسا ہی محسوس کرتے ہیں۔ فروری میں یوکرین پر روس کے حملے کے بعد ہی کئی صحافیوں، سیاست دانوں اور امدادی کارکنوں نے پہلی بار اس ملک کا سفر کیا۔ 1991ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد سے یوکرین کو آج جتنی توجہ مل رہی ہے، اتنی اس سے قبل کبھی نہیں ملی۔ یوکرین کے سفر کی اتنی تجاویز کے پیچھے صرف جنگ کا ہاتھ ہے۔

مذکورہ صحافی اپنے آپ سے ناراض ہونے میں حق بجانب ہے۔ وہ پرانے یوکرین کو کبھی نہیں جان سکے گی۔ روس یوکرین تنازعے سے، جو شدید نقصان پہنچا ہے، وہ واضح طور پر نظر آ رہا ہے۔ سوویت یونین کے بعد کا پرانا یوکرین ناپید اور نگاہوں سے اوجھل ہوتا جا رہا ہے، روسی حملے کے نتیجے میں پرانا یوکرین نیست و نابود ہوگیا اور اپنے ساتھ یوکرین کے لوگوں، گھروں، فیکٹریوں اور تمام تر خوش فہمیوں کو  بھی لیے جا رہا ہے۔

یوکرین اور روس کے مابین اب کبھی بھی وہ مثبت، برادرانہ تعلق قائم نہیں ہو سکتا، جو ان کے درمیان  جنگ سے پہلے موجود تھا۔ روس کے 2014ء  میں کریمیا کے الحاق نے پہلے ہی یوکرینی باشندوں اور روسیوں کے درمیان ایک بڑی خلیج پیدا کر دی تھی۔ اب وہ بھلا اس سے زیادہ اجنبی اور ایک دوسرے سے بیگانہ کیا ہو سکیں گے؟ دونوں طرف کی آئندہ نسلیں باہمی نفرت اور غصے میں جل کر بھسم ہو جائیں گی۔

گزشتہ 100 برسوں میں سب سے بڑا خطرہ

24 اگست یوکرین کا یوم آزادی ہے۔ اس سال یوم آزادی کی تقریبات پر اُداسی اور مایوسی کا سایہ پھیلا ہوا ہے۔ عوام میں سرکشی کا احساس پایا جاتا ہے۔ ابھی سے ٹھیک چھ ماہ قبل روس نے یوکرین کی آزادی سلب کرتے ہوئے وحشیانہ جنگی مہم شروع کی تھی۔ یوکرین میں خون بہہ رہا ہے، اس ملک کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے لیکن یہ گرا نہیں، لڑ رہا ہے!

یوکرین اور اُس کی عوام کے لیے یہ جنگ گزشتہ 100 برسوں کا سب سے بڑا خطرہ ثابت ہوئی ہے۔ اس سے قبل آخری بار اسے اُس وقت شدید خطرات کا سامنا تھا، جب بالشویک انقلاب پسندوں نے یوکرین کی ایک آزاد ریاست کو زبردستی ختم کر کے اسے روس کا حصہ بنانے کی مہم شروع کر دی تھی۔ کیا تاریخ خود کو دُہرا سکتی ہے؟

اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن بالکل یہی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا ''ڈی نازیفیکیشن‘‘ کا اعلان کردہ ہدف دراصل ''ڈی یوکرینیفیکیشن‘‘ کی کوشش ہے۔ یوکرین میں روس کے زیر قبضہ علاقوں سے ملنے والی رپورٹوں سے پتا چلتا ہے کہ کس طرح قابض افواج یوکرین کی ثقافت کو دبانے اور تباہ کرنے کے لیے سر گرم عمل ہیں، خاص طور پر اس کی زبان کو۔  پوٹن کا باولا منصوبہ یوکرین کو جنگ کے تناؤ کے ذریعے  تباہ کرنا ہے لیکن پھر بھی وہ ناکام ہی رہیں گے۔

یوکرین کی آزادی پسند نسل اور  مزاحمت

روسی صدر نے پرانے یوکرین پر حملے کا آغاز کیا تھا۔ انہیں پرانا یوکرین ایک آسان شکار لگ رہا تھا۔ یوکرین کی معیشت اور فوج روس کے مقابلے میں بہت کمزور تھی۔ یوکرینی معاشرہ اور اس کا سیاسی دائرہ اکثر تقطیب کا شکار رہا ہے۔ اسے مغرب کی طرف سے سپورٹ بھی نیم دلی سے مل رہی ہے۔ صاف اور سادہ حقیقت یہ ہے کہ یوکرین کو مغرب کی حمایت کا یقین ایک غلط فہمی ہے۔

روس کی جانب سے یوکرین پر حملے اور وہاں روسی فوج بھیجنے کے چھ ماہ بعد روسی صدر پوٹن کو ایک نوزائیدہ یوکرین سے نمٹنا پڑ رہا ہے۔ یوکرین میں تبدیلی دراصل پہلے ہی سے آنا شروع ہو گئی تھی تاہم روسی حملے نے اس تبدیلی کو تیز رفتار بنا دیا ہے۔ نیا یوکرین بہت سی چیزوں کو بہت تیزی سے ترک کر رہا ہے۔ خاص طور سے ان چیزوں کو، جو اُسے ایک طویل عرصے سے روس سے منسلک کرتی تھیں۔ ایک مشترکہ زبان، سڑکوں کے مشترکہ نام، مشترکہ یادگاریں وغیرہ۔ سب سے اہم امر یہ ہے کہ نیا یوکرین اپنا دفاع کرنا تیزی سے سیکھ رہا ہے۔

آج یوکرین عسکری طور پر جتنا مضبوط ہے، اس سے پہلے کبھی نہیں تھا۔ جزوی طور پر یقیناً مغربی امداد کے سبب لیکن اس میں اس کے اپنے عزم کا بڑا ہاتھ ہے۔ آج کا یوکرین پچھلے 100 سالوں کی نسبت کہیں زیادہ لچکدار ہے اپنی '' آزاد نسل‘‘ کی بدولت۔

یہ 20 سے 30 سال کی عمر کے یوکرینی باشندے ہیں، جو ملک کی مزاحمت کا مرکزی دھارا بنے ہوئے ہیں۔ وہ فرنٹ لائنز پر لڑ رہے ہیں اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں۔ یہ نوجوان مسلح افواج کی بطور شہری  مدد کر رہے ہیں اور اندرون ملک بے گھر لوگوں کو امداد پہنچا رہے ہیں۔ موجودہ نسل خود کو واقعی یوکرینی محسوس کرتی ہے۔ یہ نسل ایسا بالکل فطری طور پر کر ہی ہے، وہ اس کے لیے لڑنے کو تیار ہے اور وہ کامیاب بھی ہو گی۔

 رومن گونچارینکو (ک م/ ا ا)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں