نیبراسکا: سزائے موت ختم کرنے والی اُنیسویں امریکی ریاست
28 مئی 2015اس طرح نیبراسکا چالیس برس سے زائد عرصے کے بعد ری پبلکن پارٹی کے غلبے کی حامل ایسی پہلی ریاست بھی بن گئی ہے، جہاں موت کی سزا ختم کرنے اور اُس کی جگہ عمر قید کی ایسی سزا رائج کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، جس میں ضمانت کی کوئی سہولت نہیں ہو گی۔ اس سے پہلے ری پبلکن پارٹی کی اکثریت کی حامل ریاست نارتھ ڈیکوٹا نے 1973ء میں سزائے موت ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
اس سے پہلے نبراسکا کے گورنر پیٹ رکیٹس دو مرتبہ اس فیصلے کو ویٹو کر چکے تھے۔ پارلیمان کو ویٹو کو منسوخ کرنے کے لیے کم از کم تیس ارکان کی حمایت درکار تھی اور یہی تیس ووٹ مل بھی گئے۔ اس رائے شماری کے نتائج اس لیے بھی اہم ہیں کہ ریپبلکن پارٹی کے بہت سے ارکان نے اپنی ہی پارٹی کے گورنر کے خلاف ووٹ دیا۔ اس طرح نبراسکا اٹھارہ دیگر امریکی ریاستوں اور ضلع کولمبیا کے بعد ایسی اُنیسویں ریاست بن گئی ہے، جہاں اب کسی شہری کو سزائے موت نہیں دی جائے گی۔
موت کی سزاؤں سے متعلق ریکارڈ جمع کرنے والے ادارے ڈیتھ پنلٹی انفارمیشن سینٹر کے مطابق 1997ء کے بعد سے نیبراسکا میں کسی شخص کی سزائے موت پر عملدرآمد نہیں ہوا تھا۔ آج کل بھی دَس مجرم سزائے موت پر عملدرآمد کے انتظار میں تھے جبکہ حال ہی میں نیبراسکا انتظامیہ کی جانب سے ایسی نئی ادویات بھی خریدی گئی تھیں، جو سزائے موت پر عملدرآمد کے دوران مہلک انجکشنوں میں استعمال ہوتی ہیں۔
نیبراسکا کی پارلیمان کے ری پبلکن ارکان کی اکثریت نے مذہبی تحفظات کا ذکر کرتے ہوئے سزائے موت کی مخالفت کی تھی۔ ان ارکان کو خاص طور پر اس بات پر تشویش تھی کہ دیگر امریکی ریاستوں کی طرح نیبراسکا کو بھی سزائے موت کے لیے استعمال ہونے والے مہلک انجکشنز کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے۔ پھر انہیں ملزمان کو سزائے موت دینے کے فیصلوں میں غلطی ہونے کا احتمال بھی تھا۔
گورنر پیٹ رکیٹس سزائے موت کو جرائم کے انسداد کے لیے ایک اہم سزا سمجھتے ہیں اور اُنہوں نے منگل کو اس مسودہٴ قانون کے خلاف ویٹو کا حق استعمال کیا تھا۔
ریاست میں سزائے موت کے خاتمے کا فیصلہ ہو جانے پر اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے گورنر رکیٹس نے کہا:’’میں بیان نہیں کر سکتا کہ مجھے امن عامہ اور نیبراسکا کے خاندانوں کے تحفظ کے ایک اہم ذریعے سے محروم ہو جانے پر کتنا دکھ اور افسوس ہے۔‘‘
امریکا میں مہلک ٹیکے کے ذریعے موت کی سزاؤں پر عملدرآمد میں پیش آنے والی مشکلات کے باعث ملک بھر میں ایک بار پھر اس سزا کو برقرار رکھنے یا ختم کرنے سے متعلق بحث شروع ہو گئی ہے۔
سن 2014ء میں امریکا میں موت کی پینتیس سزاؤں پر عملدرآمد ہوا۔ واشنگٹن میں قائم ڈیتھ پنلٹی انفارمیشن سینٹر نے دسمبر میں ایک رپورٹ جاری کرتے ہوئے یہ بھی بتایا تھا کہ اس سے پہلے اتنی کم تعداد میں موت کی سزاؤں پر عملدرآمد بیس سال پہلے 1994ء میں ہوا تھا۔
نیبراسکا سے پہلے اور 2007ء کے بعد سے چھ امریکی ریاستوں میری لینڈ، کنیکٹیکٹ، الینوئے، نیو میکسیکو، نیو جرسی اور نیویارک میں موت کی سزا ختم کی جا چکی ہے۔