1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیب قوانین میں مزید ترامیم: تنقید کا سلسلہ شروع

عبدالستار، اسلام آباد
4 اگست 2022

قومی اسمبلی نے نیب قواتین کے حوالے سے مزید ترامیم کی منظوری دی ہے، جس کے تحت پچاس کروڑ روپے سے کم کے کرپشن کے مقدمات نیب کے دائرہ اختیار سے باہر ہوجائیں گے۔

Pakistan Parlament Nationalversammlung in Islamabad
تصویر: AP

ایوان زیریں سے منظور ہونے والے اس بل  پر کچھ حلقے تنقید کر رہے ہیں جبکہ کچھ انہیں خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ بدھ کے دن قومی اسمبلی نے نیب قوانین میں مختلف ترامیم کی منظوری دی تھی، جس کے مطابق اب صدر کی بجائے وفاقی حکومت متعلقہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے مشورے سے احتساب عدالت کے جج کو مقرر کرے گی۔

حکومت کی طرف سے یہ بل وزیر مملکت برائے قانون و انصاف شہادت اعوان ایڈووکیٹ نے پیش کیا۔ دوسرا ترمیمی احتساب بل 2022 ء کے مطابق اب کسی ملزم پر اُسی عدالتی علاقے میں مقدمہ چلایا جائے گا، جہاں جرم سرزد ہوا ہے۔

اربوں روپوں کی وصولی کے دعوے

 اس کے علاوہ چیئرمین نیب کو یہ اختیار ہوگا کہ فرد جرم عائد ہونے سے پہلے کسی بھی ریفرنس کو وہ ختم کر سکے۔

 نیب ہائی کورٹ کی اجازت سے نگرانی کا اختیار رکھتا تھا لیکن اب اس اختیار کو بھی ختم کر دیا گیا ہے اور اس حوالے سے وفاقی حکومت کی ایجنسیاں بھی اس کی معاونت نہیں کر سکیں گی۔

نیب اب تک ہائی کورٹ کی اجازت سے نگرانی کا اختیار رکھتا تھا

تنیقد

اس بل کی وجہ سے پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی اتحادی حکومت پر تنقید ہو رہی ہے۔ پی ٹی آئی کا دعوٰی ہے کہ موجودہ حکومت نیب قوانین کو ختم کرنے آئی ہے تاکہ اپنے کرپشن کے کیسز دبا سکے۔ تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ وہ پہلے کی طرح اب بھی اس بل کو عدالت میں چیلنج کرے گی۔

پارٹی کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان آفریدی نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ، ''موجودہ ٹولہ اپنی کرپشن کیسز کو چھپانے کے لیے ہی اقتدار میں آیا ہے۔ پہلے بھی انہوں نے قوانین میں ترمیم کی اور اب لگتا ہے کہ یہ اربوں کی جگہ 49 کروڑ کے چھوٹے چھوٹے ڈاکے ماریں گے تاکہ وہ نیب کے دائرہ اختیار میں نہ آسکیں۔‘‘

اقبال آفریدی کے بقول اب حکومت پچاس کروڑ روپے سے کم کے کرپشن کے مقدمات کو اینٹی کرپشن عدالتوں میں لے جائے گی۔ وہاں ججوں پر حکومت کا  دباؤ ہو گا اور وہ اس کے خلاف سزائیں نہیں سنا سکیں گے۔‘‘

چیئرمین نیب کو ہٹانے کا پاکستانی صدر کا اختیار تنقید کی زد میں

 خوش آئند تبدیلیاں

تاہم کچھ دوسرے مبصرین کے خیال میں یہ تبدیلیاں خوش آئند ہیں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر لطیف آفریدی کا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' نیب قوانین کو زیادہ تر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا اور سیاستدانوں کو بد نام کرنے کے لیے اس ادارے کو ہتھیار کے طور پر چلایا گیا۔ لہذٰا اس میں ترامیم ضروری تھیں اور میرے خیال میں یہ ترامیم مثبت ہیں۔‘‘

پی ٹی آئی کا دعوٰی ہے کہ موجودہ حکومت نیب قوانین کو ختم کرنے آئی ہے تاکہ اپنے کرپشن کے کیسز دبا سکےتصویر: picture-alliance/dpa/T. Mughal

انہوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ اس سے حکمران طبقے کو فائدہ ہوگا۔ آفریدی کے مطابق نیب کے اختیار کو صرف محدود کیا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ''اس کے پاس اب بھی اختیار ہے کہ وہ پچاس کروڑ روپے سے اوپر کے کرپشن کے کیس کی تفتیش کرے اور وہ ثبوت جمع کرے۔ ماضی میں وہ لوگوں کو گرفتار کر لیتی، ان کو ہراساں اور پریشان کرتی تھی۔‘‘

موجودہ مقدمات متاثر ہوں گے

 لاہور ہائی کورٹ کے سابق جج شاہ خاورکا کہنا ہے کہ یقیناً اس سے وہ سارے مقدمات اثرانداز ہوں گے، جو 50 کروڑ سے اوپر کے ہوں گے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پچاس کروڑ سے نیچے کے مقدمات اینٹی کرپشن کورٹس میں منتقل ہو جائیں گے اور وہ نیب کے دائرہ اختیار سے باہر ہوجائیں گے۔‘‘

 

 

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں